”برطانوی فوجیوں نے سوئے ہوئے افغانوں کو قتل کیا“ لندن کی عدالت میں انکشاف

ویب ڈیسک

وہ مار دیے گئے، اس لیے نہیں کہ وہ کوئی خطرہ تھے یا کسی خطرے کی وجہ تھے، وہ صرف اس لیے مار دیے کہ وہ بلوغت کی عمر کو پہنچ گئے تھے۔۔ صرف ایک خدشہ، کہ وہ ’لڑنے کی عمر‘ کو پہنچ گئے ہیں، ان کی زندگی کے خاتمے کی وجہ بن گیا!

یہ انکشاف ایک آزاد انکوائری کمیٹی نے کیا ہے، جس کے مطابق برطانیہ کی اسپیشل سکیورٹی فورسز کی جانب سے افغانستان میں ’لڑنے کی عمر والے‘ مردوں کو ان حالات میں بھی قتل کرنے کی پالیسی کا انکشاف ہوا ہے، جب وہ کسی خطرے کا بھی باعث نہیں تھے

سال 2010 اور 2013 کے درمیان جنگ زدہ افغانستان میں مبینہ غیر قانونی سرگرمیوں پر مرکوز تحقیقات میں اہم الزام یہ ہے کہ برطانیہ کی خصوصی فورسز نے اس پالیسی کو انجام دینے کے لیے رات کے چھاپوں کا غلط استعمال کیا

انکوائری میں متاثرین کے وکیل اولیور گلاسگو کے سی نے کہا کہ ایسے دعوے بھی سامنے آئے ہیں کہ غیر ملکی فورسز کی اتحادی افغان یونٹس نے ’انہی رویوں کی وجہ سے برطانیہ کی خصوصی افواج کے ساتھ خدمات انجام دینے سے انکار کر دیا تھا‘

رات کی کارروائی کے دوران ایک مبینہ غیر قانونی قتل کے حالات کی تفصیل بتانے سے پہلے، جسے ’ ڈیلیبریٹ ڈیٹینشن آپریشن‘ (ڈی ڈی او) بھی کہا جاتا ہے، گلاسگو نے انکوائری کو دکھائی جانے والی ان ’گرافک‘ تصاویر کے بارے میں وارننگ دی جو ’پریشانی کا باعث بن سکتی ہیں۔‘

انکوائری کو بتایا گیا کہ زیر بحث ڈی ڈی او کے نتیجے میں 2001 اور 2007 کے درمیان افغان حکومت کے لیے کام کرنے والے عہدیدار محمد ابراہیم مارے گئے تھے

محمد ابراہیم کے بیٹے عبدالولی سمیت ان کے خاندان کا کہنا ہے کہ وہ ’ایک معصوم شہری تھے جن کے کمپاؤنڈ میں کوئی ہتھیار نہیں ملا‘ جب وہ گولی لگنے اور فوجی کتے کے کاٹنے سے زخمی ہوئے تھے

اس کے بعد گلاسگو کی جانب سے ایک اور ڈی ڈی او کے بارے میں تفصیل سے بتایا گیا، جس میں نو افراد مارے گئے تھے جن کے اہل خانہ کا کہنا تھا کہ انہیں اس وقت ان کے بستروں میں گولیاں ماری گئیں، جب حتمی امکان تھا کہ وہ سو رہے تھے

حبیب اللہ علی زئی، جو کمپاؤنڈ میں رہنے والے خاندان کے سربراہ تھے، نے کہا کہ وہ چیخنے اور گولیوں کی آوازوں سے بیدار ہوئے اور چھاپے کے دوران (برطانوی) فوجیوں نے ان سے پوچھ گچھ کی اور انہیں تشدد کا نشانہ بنایا

متاثرین کے وکیل اولیور گلاسگو نے کہا کہ اسپیشل فورسز کے مطابق ’دونوں ڈی ڈی اوز میں فوجیوں نے ’اپنے دفاع میں‘ جان لیوا طاقت کا استعمال کیا

لندن میں رائل کورٹ آف جسٹس میں پیر کے روز شروع ہونے والی سماعتوں سے پہلے، غیر قانونی قتل کا الزام لگانے والے خاندانوں نے تحقیقاتی کمیٹی سے مطالبہ کیا کہ ’ہمیں سچائی بتائی جائے۔‘

تحقیقاتی کمیٹی ان کارروائیوں کے دوران انجام دی گئیں ’متعدد‘ اموات کی انکوائری کرے گی، نیز غیر قانونی سرگرمیوں کی مبینہ پردہ پوشی اور رائل ملٹری پولیس کی ناکافی تحقیقات کا بھی جائزہ لیا جائے گا

اس کو حکومت کو درپیش قانونی چیلنجوں کے ساتھ ساتھ متعدد اہم میڈیا تحقیقات کے تناظر سیف اللہ اور نورزئی خاندانوں کی جانب سے قانونی فرم ’لی ڈے‘ کے وکیلوں نے شروع کیا تھا

گلاسگو نے کہا کہ برسوں بعد سامنے آنے والے ایک ’ریسٹرکٹڈ سکیورٹی کمپارٹمنٹ‘ میں کیے گئے دعوؤں میں ایک فوجی کی بات چیت کی تفصیلات موجود ہیں جنہوں نے مبینہ طور پر ’سپیشل فورسز میں لڑائی کی عمر کے مردوں کو مارنے کی پالیسی کا اعتراف کیا تھا۔‘

اپنی ابتدائی گذارشات میں انہوں نے کہا: ’ان لوگوں کے لیے کوئی غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے جو کچھ چھپا رہے ہیں، انکوائری اپنے تمام اختیارات استعمال کر کے اس بات کو یقینی بنائے گی کہ اگر غلط کام کی مصدقہ اطلاعات ہیں تو انہیں متعلقہ حکام کے حوالے کیا جائے گا۔‘

سیف اللہ خاندان کے ایک رکن، جن کا دعویٰ ہے کہ فروری 2011 میں ان کے والد، دو بھائیوں اور ایک کزن رات کے چھاپے کے دوران مارے گئے تھے، نے کہا کہ برطانوی افواج کے چھاپے کے بعد سے وہ ’ڈراؤنے اور مشکلات سے بھرے خوابوں کا شکار ہیں۔‘

انہوں نے کہا، ”میں اور میرا خاندان انکوائری ٹیم سے درخواست کرتا ہے کہ وہ سچ سامنے لائیں اور بتائیں کہ ہمیں اس ظلم سے کیوں اور کس بنیاد پر گزرنا پڑا؟“

تحقیقاتی کیمٹی اب آٹھ بچوں سمیت تینتیس افراد کے اہل خانہ کی جانب سے گذارشات سننے کے لیے تیار ہے، جنہیں مبینہ طور پر برطانوی خصوصی فورسز نے قتل کر دیا تھا

منصور عزیز نے ان دو بچوں کی درخواست سننے کے لیے انکوائری کا مطالبہ کیا ہے، جنہیں برطانوی افواج نے اگست 2012 میں مبینہ طور پر ان گھر پر رات کے چھاپے کے دوران شدید زخمی کر دیا تھا

انہوں نے کہا، ”ہمارے گھر پر غیر ملکیوں نے چھاپہ مارا اور میرے بھائی اور بہنوئی کو مار ڈالا اور ان کے دو بچے اس وقت شدید زخمی ہوئے، جب وہ اپنے بستر پر سو رہے تھے۔ ہم حقیقت جاننا چاہتے ہیں کہ ہمارے گھر پر چھاپہ کیوں مارا گیا۔ ہم عدالت سے ان بچوں کی بات سننے اور انصاف دلانے کا مطالبہ کر رہے ہیں“

دو آر ایم پی تحقیقات، جن کا کوڈ ’آپریشن نارتھ مور اور آپریشن سیسٹرو‘ ہے، انکوائری کے ذریعے جانچ پڑتال کے لیے تیار ہیں

آپریشن نارتھ مور کے تحت کوئی الزام نہیں لایا گیا۔ یہ 10 ملین پاؤنڈ کی تحقیقات 2014 میں ان بچوں سمیت خصوصی فورسز کی جانب سے کیے گئے قتل کے الزامات کی جانچ کے لیے قائم کی گئی تھی

آپریشن سیسٹرو میں تین فوجیوں کو سروس پراسیکیوٹنگ اتھارٹی کے حوالے کیا گیا لیکن کسی پر بھی مقدمہ نہیں چلایا گیا۔

آزاد قانونی انکوائری اس وقت کے وزیر دفاع بین والیس نے 2005 انکوائریز ایکٹ کے تحت کی تھی۔

برطانوی وزارت دفاع کے ترجمان نے کہا کہ ’وزارت دفاع انکوائری کی حمایت کے لیے پوری طرح پرعزم ہے کیونکہ یہ اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے۔‘

ان کے بقول: ’ہمارے لیے ان الزامات پر تبصرہ کرنا مناسب نہیں ہے جو قانونی انکوائری کے دائرہ کار میں ہو سکتے ہیں اور یہ قانونی تحقیقاتی ٹیم، جس کی سربراہی لارڈ جسٹس ہیڈن کیو کر رہے ہیں، پر منحصر ہے کہ وہ کن الزامات کی تحقیقات کرتی ہے۔‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close