ہم سب زمانے کے کاغذ پر دم توڑتے ہوئے وہ حرف ہیں، جنہیں بے معنویت کی دیمک چاٹ گئی ہے۔
وہ ان دم توڑتے ہوئے حرفوں میں ایک ایسا کردار ہے، جس کا کوئی نام نہیں۔ ایک زمانے میں اس کا ایک نام تھا، لیکن مسلسل بولے جانے کے بعد اب اسے اپنے نام کے حرفوں میں کوئی دلکشی نظر نہیں آتی، اس لیے اس نے اپنے نام کے حروف اپنی پیشانی سے کھرچ ڈالے ہیں اور اپنا نام ’وہ‘ رکھ لیا ہے، ممکن ہے کچھ عرصہ کے بعد وہ اسے بھی مٹا دے اور اپنا نام ’زیرو‘ رکھ لے، لیکن یہ تو بعد کی بات ہے، فی الحال اس کا نام ’وہ‘ ہے۔
’وہ‘ کے صبح و شام معمول کے غلاف میں اس طرح لپٹے ہوئے ہیں کہ ان کی پہچان باقی نہیں، اس لیے اگر کبھی صبح شام کو اور شام صبح کے وقت بھی طلوع ہو جائے تو اسے خبر نہیں ہوتی۔ اس کی ہر سوچ گھڑی کے ڈائل میں قید ہے اور سانسیں سوئیوں کی ٹک ٹک میں پروئی ہوئی ہیں۔ وہ دن کے بستر پر پڑا ہوا ایسا مریض ہے، جس کی بیماری اور معمولات کا چارٹ اس کے سرہانے لٹک رہا ہے۔ اس کی صبح سات بج کر پندرہ منٹ پر شروع ہوتی ہے، جب وہ نوکر کے تیسری بار ہلانے پر آنکھیں کھولتا ہے اور اپنے آپ کو اسی نارنجی رنگ کی چھت کے نیچے ان ہی پرانی دیواروں میں گھرا ہوا پاتا ہے۔
ہر رات سونے سے پہلے وہ یہی سوچ کر سوتا ہے کہ صبح جب وہ سو کر اٹھے گا تو اس کی آنکھ کسی اور کمرے میں کھلے گی، لیکن ہر صبح وہ اسی پلنگ پر ہوتا ہے، جس کا ایک پایا اپنی جگہ سے ہلا ہوا ہے۔ اسے کبھی کبھی اس پائے پر رشک آتا ہے کہ اس کمرے میں جہاں ہر چیز اپنی مقررہ جگہ میں قید ہے، کم از کم یہ پایا تو ایسا ہے کہ جو اپنی جگہ سے ہلا ہوا ہے اور جب بھی کوئی اس پلنگ پر بیٹھنے لگتا ہے، یہ پایا اپنی حرکت سے اپنے الگ ہونے کا احساس دلا دیتا ہے۔ اس نے کئی بار کوشش کی تھی کہ وہ اس پائے کی طرح اپنے علیحدہ ہونے کا احساس دلائے اور کسی طرح اس کمرے کی فضا پر جم کر بیٹھی یکسانیت کو بھنبھوڑ ڈالے۔ اس نے کئی بار کمرے میں رکھی چیزوں کی ترتیب بدلی تھی، لیکن اس کی بیوی انہیں پھر پرانی ترتیب میں لے آئی۔ عرصہ تک میاں بیوی کے درمیان یہ خاموش کھیل جاری رہا۔ وہ صبح اٹھتے ہی چیزوں کی جگہیں بدل دیتا، لیکن جب دفتر سے لوٹتا تو ہر چیز واپس اپنی جگہ پر چلی گئی ہوتی اور کمرہ پھر اسی مانوسیت اور یکسانیت کے پنجے میں پھڑپھڑا رہا ہوتا۔
ایک طویل عرصے تک اس کے اور بیوی کے درمیان یہ خاموش جنگ جاری رہی، پھر ایک صبح یوں ہوا کہ جب نوکر نے تیسری بار اسے ہلایا تو اس نے خاموش تھکی ہوئی نظروں سے چیزوں کو دیکھا اور چپ چاپ باتھ روم چلا گیا۔ اس دن جب وہ دفتر سے لوٹا تو اس کی بیوی بہت خوش تھی، اتنی خوش کہ اسے یہ احساس ہی نہیں ہوا کہ اس کے خاوند نے اپنی پیشانی سے اپنے نام کے حروف کھرچ لیے ہیں اور اپنا نام ’وہ‘ رکھ لیا ہے۔ اس دن کے بعد اس نے کمرے کی کسی چیز کو ہاتھ نہیں لگایا اور کمرہ ہی کیا، دوسری چیزوں کے بارے میں بھی ان کی مقررہ جگہوں سے سمجھوتہ کر لیا۔
اب اس نے دفتر میں کوئی غلط فیصلہ دینے پر اپنے بڑے افسر سے جھگڑنا چھوڑ دیا ہے۔ دوستوں سے غلط باتیں سن کر انہیں ٹوکنا ترک کر دیا ہے، کتابوں میں بے علمی کی باتیں پڑھ کر ان کے مصنفوں کو خط لکھنا بند کر دیا ہے۔ اب وہ نہ تو بیوی کو رنگوں کے بھونڈے چناؤ پر کچھ کہتا ہے اور نہ ہی سڑک پر چلتے ہوئے لوگوں کی بری حرکات اسے بری لگتی ہیں۔ اس کے آس پاس کچھ ہی ہو جائے، اس کے بدن کی دیواروں پر ذرا سا ارتعاش بھی نہیں ہوتا۔ اب وہ سارا اخبار مزے لے لے کر پڑھ جاتا ہے۔ سب سے ملتا ہے، سب کی سنتا ہے، بات بات پر قہقہے لگاتا ہے، کیوں کہ اب وہ۔۔۔ وہ ہے، صرف وہ، جس نے اپنے نام کے حرف اپنی پیشانی سے کھرچ ڈالے ہیں۔
معمول کے دائرے میں گھومتے ہوئے ابتدا میں اسے کبھی کبھی بڑی دقّت ہوتی تھی کیوں کہ اس کی شخصیت کے بعض دندانے دار کنگرے دائرے میں گھومتے گھومتے کہیں اڑ جاتے اور وہ شخص، جس کے نام کے حروف اس نے اپنی پیشانی سے کھرچ ڈالے تھے، اس کے بدن کے ملبے میں کروٹیں لینے لگتا۔ غلاف میں لپٹے ہوئے صبح و شام پھڑپھڑانے لگتے اور کھرچے ہوئے نام والا شخص اس کے بدن کی چاردیواری سے سر نکال کر باہر جھانکنے لگتا، لیکن اگلے ہی لمحے معمول کا ریلا اسے اپنے ساتھ بہائے لیے چلا جاتا اور اب اس دائرے میں مسلسل گھومتے گھومتے اس کی شخصیت کے سارے دندانے دار کنگرے بُھر گئے ہیں اور وہ گریس لگے بیرنگ کی طرح بغیر آواز دئیے اپنے محور پر گھومتا رہتا ہے۔
کئی دنوں سے یہ سوچ اس کے ذہن کی نالیوں میں رینگ رہی ہے کہ وہ مر چکا ہے، ان چلتے پھرتے سانس لیتے لوگوں میں لاش کی طرح ہے، جو صبح سات بج کر پندرہ منٹ پر اپنی قبر سے نکلتا ہے اور خود کو گھڑی کی سوئیوں کے حوالے کر دیتا ہے۔ ٹک ٹک کی آوازوں کے ساتھ جب ڈائل کا چکر مکمل ہو جاتا ہے تو وہ واپس اسی قبر میں آ گرتا ہے اور بیوی کے گرم گداز جسم سے لپٹ کر سو جاتا ہے۔ بس اس زندگی میں اب یہ چند لمحے ہی اس کی زندگی کے لمحے ہیں، ساری رات اور دن سوتا رہتا ہے، لیکن ان لمحوں میں وہ کچھ دیر کے لیے جاگتا ہے اور پھر اسی گہری، موت ایسی نیند کی بکل میں لوٹ جاتا ہے۔
اس کا یہ احساس کہ وہ مر چکا ہے، اتنی شدت اختیار کر لیتا ہے کہ ایک دن وہ ڈائل کے ہندسوں کی چار دیواری سے باہر کود جاتا ہے اور فائلوں کے ڈھیر کو میز پر چھوڑ کر سڑک پر نکل آتا ہے۔ وہ دیر تک مختلف سڑکوں پر پھرتا رہتا ہے، پھر چائے پینے کے لیے ایک ریستوران میں داخل ہو جاتا ہے، ریستوران کی فضا میں آواز ننگی ہو کر ناچ رہی ہے اور لوگ پتھر کے ہو چکے ہیں۔ ان کی آنکھیں گندی میزوں پر جمی ہوئی میل میں پروئی ہوئی ہیں اور کان آواز کی تال پر ناچ رہے ہیں۔ اس کے اندر آنے پر کوئی سر اٹھا کر اس کی طرف نہیں دیکھتا۔ وہ کچھ دیر دروازے میں کھڑا میزوں کا جائزہ لیتا ہے، ساری میزیں کھچا کھچ بھری ہوتی ہیں، ایک میز پر دو شخص بیٹھے ہیں، وہ ان کے پاس جا کر بیٹھ جاتا ہے۔ دونوں میں سے کوئی سر اٹھا کر نہیں دیکھتا کہ وہ کون ہے؟
’’یہ لوگ کون ہیں اور میں کہاں آ گیا ہوں؟‘‘۔۔۔ وہ اپنے آپ سے پوچھتا ہے، سب لوگ پتھر کے ہو چکے ہیں کہ ان کے چہروں پر مایوسی اور اداسی کھدی ہوئی ہے، چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے وہ سوچتا ہے۔۔۔ کیا ان سب نے پیچھے مڑ کر دیکھا تھا اور کیا اب مجھے بھی پیچھے مڑ کر دیکھنا ہوگا۔ وہ ابھی سوچ ہی رہا ہے کہ دروازے سے ایک ہیجڑا اندر داخل ہوتا ہے اور درمیان میں پہنچ کر ناچنے لگتا ہے، اس کے ساتھ ہی جھکے ہوئے چہرے اوپر اٹھنے لگتے ہیں اور پتھر کے دھڑ پگھلنے لگتے ہیں۔ ہیجڑا ناچتے ناچتے کبھی کسی کے سر پر چپت رسید کرتا، کبھی کسی کے گال پر چٹکی لیتا ہے تو لوگ خوشی سے تالیاں پیٹنے لگتے ہیں، ہیجڑا ناچتے ناچتے باہر نکل جاتا ہے، اٹھے ہوئے سر دوبارہ ڈھلک جاتے ہیں اور وجود پتھر میں ڈھلنے لگتے ہیں۔
’اس سے پہلے کہ میں بھی پیچھے مڑ کر دیکھوں ، مجھے یہاں سے نکل بھاگنا چاہئے۔‘ وہ سوچتا ہے اور دوڑتا ہوا باہر نکل جاتا ہے۔
سڑک پر ٹریفک رکی ہوئی ہے، چوک میں دو ٹرک آمنے سامنے آ گئے ہیں اور دونوں میں سے ہر ایک بضد ہے کہ پہلے دوسرا حرکت کرے۔ ان کے پیچھے دونوں طرف بسوں، تانگوں اور کاروں کی لمبی قطاریں بڑے اطمینان سے کھڑی ہیں۔ کچھ لوگ چوک میں جمع ہو گئے ہیں اور مزے سے دونوں ٹرک ڈرائیوروں کے مکالمے سن رہے ہیں۔ وہ قریب کھڑے ایک شخص کو ہاتھ لگاتا ہے، وہ شخص پتھر کا ہے۔ پھر وہ قطار میں کھڑی ایک کار کو چھوتا ہے، وہ بھی پتھر کی ہے۔ وہ ایک اور شخص کو چھوتا ہے، وہ بھی پتھر کا ہے۔ ایک، دو، تین، چار۔ سب پتھر کے ہیں۔۔۔ ان سبھوں نے بھی پیچھے مڑ کر دیکھا ہوگا، وہ سوچتا ہے اور گلی میں سے گزر کر دوسری سڑک پر جا نکلتا ہے۔ سڑک کے دوسرے کنارے ہجوم کے قریب جاتا ہے۔ مداری ڈگڈگی بجا رہا ہے، لوگ اس کی تال پر ناچ رہے ہیں۔
’تو یہ بھی پتھر کے ہیں۔‘ وہ سوچتا ہے اور گلیوں میں سے ہوتا ہوا ایک اور سڑک پر آ جاتا ہے، لیکن یہاں کے لوگ بھی پتھر ہیں۔۔ وہ جس سڑک پر جاتا ہے، ہر جگہ پتھر ہی پتھر۔۔ پتھر ہی پتھر۔۔۔
وہ دوڑ کر اپنے ڈائل پر چڑھ جاتا ہے اور پرانے ہندسوں کی چادر اوڑھ لیتا ہے، کم از کم یہاں سوئیوں کی ٹک ٹک تو ہے۔
رات کو بیوی کے پاس لیٹے ہوئے سوچ اس کے ذہن سے ابل کر باہر آ گرتی ہے۔ ریستوران میں بیٹھے، سڑکوں پر پھرتے لوگ، ایک ایک کر کے اس کی آنکھوں کے روشن دان سے اندر آنے لگتے ہیں۔ اس کے جسم کے ملبے میں مدت سے دفن، کھرچے ہوئے نام والا شخص، پہلو بدلتا ہے۔ لفظوں کے سوکھے چشمے ابلنے لگتے ہیں۔ پورے شہر میں ایک وہی تو ہے، جسے اپنی بے معنویت کا احساس ہے۔۔۔ وہ اچھل کر اٹھ بیٹھتا ہے، اس سارے شہر میں وہی تو ایک تنہا زندہ آدمی ہے، وہ زور دار قہقہہ لگاتا ہے۔۔
ہاں، اس سارے شہر میں وہی تو ایک تنہا آدمی ہے، جس نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔۔۔
وہ ہنستا چلا جاتا ہے، پھر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتا ہے۔
اس کی بیوی ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھتی ہے اور اسے جھنجھوڑتے ہوئے کہتی ہے۔۔۔ ’’کیا ہوا۔۔۔ کیا ہوا؟‘‘
لیکن وہ جواب دئیے بغیر بلک بلک کر روتا رہتا ہے۔
اس رات کے بعد وہ کبھی نہیں رویا۔۔۔
لیکن یہ بات آج تک کسی کو معلوم نہیں ہو سکی کہ اس رات وہ بلک بلک کر کس کے لیے رویا تھا؟