بالی ووڈ فلمیں ایکشن کے بغیر ادھوری ہیں۔ تاہم، یہ ایک غیر معروف حقیقت ہے کہ اداکاروں کے خوبصورت، چمکتے چہروں کے پیچھے جو انتہائی جان لیوا ایکشن سیکوینسز کو اتنی آسانی کے ساتھ انجام دیتے ہیں، اس کو ممکن بنانے کے لیے اسٹنٹ ڈبلز کی پوری فوج موجود ہوتی ہے۔ بولی ووڈ میں اسٹنٹ کرنے والے سب مرد ہی تھے، لیکن اس جمود کو سب سے پہلے ایک باہمت خاتون ریشما پٹھان نے توڑا، جو بولی وڈ کی پہلی اسٹنٹ وومین بنیں
ریشما پٹھان نے اپنے سفر کا آغاز ایک چھوٹی بچی کے طور پر کیا تھا، جو اپنے انجام کو پورا کرنے کے لیے جدوجہد کر رہی تھیں۔ پیشے سے ان کی فطری وابستگی نے انہیں اس طرح کا غیر روایتی کیریئر اختیار کرنے کی ترغیب دی۔ انہوں نے نہ صرف اپنے لیے ایک جگہ بنائی بلکہ انڈسٹری میں اسٹنٹ پرفارمرز بننے کے لیے دیگر خواتین کے حقوق کے لیے بھی جدوجہد کی۔ ان کی زندگی پر ’دی شعلے گرل‘ فلم بھی بنائی گئی ہے
فلم ’دی شعلے گرل‘ میں بدیتا بیگ نے ریشما پٹھان کا کردار ادا کیا ہے۔ ان کے ساتھ ساتھ خود ریشما پٹھان بھی ہیں۔ آدتیہ سرپوتدار کی ہدایت کاری میں ’دی شعلے گرل‘ ہمیں ریشما پٹھان کی زندگی سے گزارتی ہے۔ گھر گھر جا کر چاول بیچنے کے اپنے ابتدائی دنوں سے لے کر بالی ووڈ کی کلاسک فلم ’شعلے‘ میں بسنتی (ہیما مالنی) کے خطرناک اسٹنٹ کرنے کا موقع ملنے تک، ریشما پٹھان نے انڈسٹری کے کئی تجربہ کار اداکاروں کے لیے اپنی جان خطرے میں ڈالی۔۔ اور انہیں ’دی شعلے گرل‘ میں آخرکار وہ پہچان ملی، جس کی وہ حقدار تھیں
بایوپک، دی شعلے گرل، اسٹنٹ وومین ریشما پٹھان کو خراج تحسین ہے، جنہیں بقا کے لیے لڑنا پڑا، انہوں نے گہرے دقیانوسی تصورات کو توڑا اور اسٹنٹ وومین بننے کا فیصلہ کیا۔ 14 سال کی عمر میں، وہ اس پیشے کے خطرات سے بے خبر، سات افراد کے خاندان کی کفالت کرنے والی بن جاتی ہیں۔ وہ مردوں کے زیرِ تسلط گڑھ میں اپنی جگہ بنانے کے لیے جدوجہد کرتی ہیں۔ وہ فلم کے ہیروز، اسٹنٹ مین ساتھیوں کی بھوکی نظروں سے خود کو بچاتی ہیں… مہلک حادثات اور فلم ساز، جو بدتمیزی کرتے ہیں… وہ ان سب سے بچتی ہیں۔ وہ مووی اسٹنٹ آرٹسٹس ایسوسی ایشن کی پہلی خاتون رکن بننے کے لیے صنفی تعصب کا مقابلہ کرتی ہیں۔ وہ ایک اسٹنٹ ماسٹر سے شادی کرتی ہیں، اپنی طلاق یافتہ بہن اور ان کے بچوں کی پرورش کرتی ہیں کہ وہ قابل بنیں اور تعلیم حاصل کریں۔
ریشما پٹھان ایک غریب اور روایتی مسلم گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ وہ پانچ بچوں میں سب سے بڑی تھیں۔ ریشما نے اردو میڈیم اسکول میں تعلیم حاصل کی۔ ان کا بچپن معاشی پریشانیوں میں گزرا۔ پھر ایک دن ان کی ماں کو کپڑے، چاول اور دیگر اشیاء کی ’اسمگلنگ‘ کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ ان کے والد بیمار تھے اور معذوری کے باعث کام کرنے سے قاصر تھے اور خاندان شدید مشکلات کا شکار تھا
ان کے گھر کے اردگرد کی گلیاں اور راستے ان کے کھیل کے میدان تھے اور وہ عمارتوں پر چڑھ کر اور ہر قسم کے خطرناک حرکات کو بے خوفی سے انجام دے کر اپنا دل بہلاتی تھیں
ان کے ایک پڑوسی نے، جو ایک اسٹنٹ ڈائریکٹر تھے اور اس خاندان کے حالات سے واقف تھے، اور جو ریشما پٹھان کے گلیوں میں دکھائے جانے والے کرتبوں سے واقف تھے، انہوں نے اس چودہ سالہ لڑکی کو اسٹنٹ ویمن بننے کی تجویز پیش کی۔ وہ بتاتی ہیں ”فائٹ ڈائریکٹر ایس عظیم چچا نے علاقے میں میری حرکات دیکھی تھیں۔ انہوں نے مجھے فلموں میں اسٹنٹ کرنے کا مشورہ دیا“
ریشما پٹھان نے فلم فیئر میگزین کے ایک انٹرویو میں انکشاف کیا کہ ان کے والد نے اس پر اعتراض کیا کیونکہ وہ ان کی حفاظت کے لیے خوفزدہ تھے اور محسوس کرتے تھے کہ ان کی جان کو خطرے میں ڈال کر پیسے کمانا کوئی بہتر راستہ نہیں۔۔ اس کے علاوہ وہ فلمی دنیا کے ماحول کے حوالے سے بھی تحفظات رکھتے تھے
جب ریشما نے اصرار کیا تو انہیں اپنے والد کی مار سہنی پڑی لیکن بعد میں وہ گھر کے کمزور معاشی حالات اور ان کے جذبے کو بھانپتے ہوئے پیچھے ہٹ گئے۔ اس طرح ریشما پٹھان بولی وڈ کی پہلی اسٹنٹ وومین بن گئیں
1968 میں، انہوں نے اداکارہ لکشمی چھایا کے لیے فلم ’ایک کھلاڑی باون پتے‘ میں اپنا پہلا اسٹنٹ کیا۔ یہ ایک رقص کا سلسلہ تھا جس میں اداکارہ ٹرپ کرتی ہے اور گرتی ہے اور اسٹیج سے پھسل جاتی ہے۔ ریشما پٹھان نے ایک ہی ٹیک میں اسٹنٹ کا مظاہرہ کیا، اس طرح انہوں نے اپنے کریئر کی کامیاب شروعات کی۔ ان کی تنخواہ، دوسرے اسٹنٹس کی طرح، اس وقت ایک سو پچھتر روپے ہونی چاہیے تھی، لیکن دن کے اختتام پر پروڈیوسرز نے انہیں صرف سو روپے ادا کیے
انہوں بتایا کہ انہوں نے ان کی آمد و رفت کے لیے بھی ادائیگی نہیں کی، لیکن یہ کہ وہ سو روپے سے خوش تھیں کیونکہ یہ کچھ کالج کے گریجویٹس کی کمائی سے زیادہ تھی۔ ”اپنے خاندان کی ضروریات کو پورا کرنا میری ترجیح تھی۔۔‘‘
خطرناک اسٹنٹس کرنے والی ریشما پٹھان بتاتی ہیں ”ہر روز میں گھر سے نکلتی تھی، مجھے ڈر لگتا تھا کہ کیا میں ایک ہی ٹکڑے میں صحیح سلامت واپس آ سکوں گی“
اس سے قبل میری این ایونز عرف فیئرلیس نادیہ نے 1930-1960 کے درمیان کئی کامیاب فلموں میں اداکاری کی اور اسٹنٹ بھی کیا۔ 60 کی دہائی میں، خواتین کے لباس میں ملبوس مرد ہیروئنوں کے لیے ایکشن کرتے تھے۔ لیکن ریشما پہلی خاتون تھیں، جنہوں نے وحیدہ رحمان، ریکھا، ہیما مالنی، سری دیوی، ڈمپل کپاڈیا اور میناکشی شیشادری جیسی اداکاراؤں کے لیے اسٹنٹ کیا۔ انہوں نے بھوجپوری اور جنوبی ہندوستانی فلموں اور گاندھی، منگل پانڈے اور دی واریر جیسی دو لسانی فلموں میں بھی ڈپلیکیٹ کا کردار ادا کیا۔ ”اسٹنٹ کرنے کے لیے زبان کی ضرورت نہیں ہوتی“ وہ زور دے کر کہتی ہیں۔
لیکن سیٹ پر زندگی ہمیشہ آسان نہیں تھی۔ کام کے حالات معیاری نہیں تھے اور حفاظتی اقدامات کا فقدان تھا۔ اپنے کرئیر کے شروع میں، انہیں ہیروئن کے کردار کی پیشکش بھی ہوئی تھی۔ ”مجھے ایک معاہدہ بھیجا گیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ جب بھی وہ مجھے بلائیں گے مجھے آنا ہوگا۔ اس کا مطلب تھا ’تعلق‘ رکھو گی تو کام ملے گا۔ میں نے غصے سے اس معاہدے کو توڑ دیا۔“
انہوں نے ہیروئین بننے کا سوچا۔ تاہم ان پر ایک اسٹنٹ خاتون کی مہر لگ چکی تھی۔ انہیں اداکاروں کی طرف سے بھی ’ناشائستہ تجاویز‘ کا سامنا کرنا پڑا لیکن انہوں نے اس سب کو حکمت کے ساتھ ہینڈل کیا ”میں ان سے کہتی ’میں آپ کی مداح ہوں لیکن اگر آپ اس طرح کا برتاؤ کرتے ہیں تو میں مختلف سوچنے پر مجبور ہو جاؤں گی۔ آپ اپنی عزت کیوں گنوا رہے ہو؟‘‘
کچھ ایکشن ماسٹرز نے انہیں مارنے کی کوشش بھی کی۔ لیکن وہ لڑنا نہیں چاہتی تھیں ”اگر مجھے صرف یہ کرنا ہے تو اپنے ہاتھ اور ٹانگیں تڑوانے کی کیا ضرورت ہے؟ اگر وہ غیر ضروری طور پر میری چاپلوسی کرتے تو میں کہتی، ’میں ہر روز اپنے آپ کو آئینے میں دیکھتی ہوں، آپ کو میری تعریف کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔“ آخرکار، وہ سمجھ گئے کہ وہ ان کے ساتھ اپنا راستہ نہیں رکھ سکتے۔ ”اگر کوئی پہلی بار آپ کے ساتھ بدتمیزی کرتا ہے اور آپ خاموش رہتے ہیں، تو اس کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ میں نے اپنی زبان کو حکمت سے استعمال کیا، حالانکہ میں اپنی مٹھیوں کو اپنے دفاع کے لیے استعمال کر سکتی تھی،“ وہ ہنسی۔ وہ اسے دھمکی دیتے تھے کہ وہ اسے کام نہیں دیں گے، ”لیکن میں جانتی تھی کہ اسٹنٹ خواتین کی کمی ہے اور وہ یہ میرے بغیر نہیں کر سکتے۔ وقت گزرنے کے ساتھ، میں نے عزت کمائی“
انہوں نے اپنے پانچ دہائیوں کے طویل کیریئر میں کئی خطرات کا سامنا کیا۔ فلمی شائقین نے شعلے کے سنسنی خیز منظر سے کئی سالوں سے لطف اٹھایا ہے، جس میں ڈاکو گبر سنگھ کے ساتھی بسنتی (ہیما مالنی) کا پیچھا کرتے ہیں اور وہ اپنے تانگے میں جتی گھوڑی سے کہتی ہیں ’چل دھنو! آج تیری بسنتی کی عزت کا سوال ہے!‘ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ یہ ہیما مالنی نہیں تھیں، جنہوں نے اس خطرناک منظر میں حقیقی طور پر کام کیا۔ یہ ریشما ہی تھیں، جنہوں نے یہ خطرہ مول لیا اور تانگے کا وہیل گرنے سے حادثے کا شکار بھی ہوئیں۔ انہیں ہسپتال میں داخل ہونے کا مشورہ دیا گیا کیونکہ ان کی ٹانگ پر شدید چوٹ آئی تھی
ریشما یاد کرتی ہیں، ”ابھی میرے زخم پر لگے ٹانکے تازہ تھے اور ہوٹل میں ٹھہری تھی، مجھے 105 ڈگری بخار تھا۔۔ میں نے اسٹنٹ ڈائریکٹر کو بتایا، میں واپس نہیں جاؤں گی۔ مجھے اپنی بہن کی شادی کے لیے پیسوں کی ضرورت تھی۔ ٹانکے، اگر ٹوٹ جائیں تو دوبارہ جڑ سکتے ہیں، لیکن اگر میری بہن کا رشتہ ٹوٹ گیا تو پھر کیا؟“
انہوں نے زخم پر ٹانکے لگوائے، اور کچھ دن کام نہ کرنے کی تنبیہ کے باوجود، وہ فوراً کام پر واپس چلی گئیں اور یہ سلسلہ مکمل کیا۔ ”میں اس حالت میں پندرہ دن تک وہاں رہی اور شوٹنگ مکمل کی۔ میرا پاؤں سوج گیا تھا۔ میں چپل نہیں پہن سکتی تھی۔ اس لیے میں نے اپنے ننگے پاؤں ڈھانپنے کے لیے ایک لمبی میکسی پہنی اور بنگلور سے واپس گھر آئی۔“ فطری طور پر ان کے گھر والے ان کی حالت دیکھ کر حیران رہ گئے۔
انہیں ایک ایسا ہی خطرناک اسٹنٹ فلم قرض (1980) کی شوٹنگ کے دوران بھی کرنا پڑا، جب ایک ٹرک نے انہیں پوری طاقت سے ٹکر مار دی، لیکن وہ پرفارم کرتی رہیں
وہ درگا کھوٹے کا ڈپلیکیٹ کر رہی تھیں، جسے منظر میں ایک ٹرک نے ٹکر مارنی تھی۔ وہ بتاتی ہیں ”ایک رومال کو ’کٹ‘ کے اشارے کے طور پر لہرانا تھا۔ ٹرک میری طرف بڑھا اور مجھے ٹکر ماری، یہاں تک کہ میں ’کٹ‘ کا انتظار کرتی رہی۔ میں شدید درد میں تھی۔ تاہم میں نے حواس بحال رکھتے ہوئے کیمرے سے اپنا چہرہ چھپا لیا، کیونکہ اگر چہرہ دِکھ جاتا تو مجھے دوبارہ ٹیک دینا پڑتا۔ میں نے شاٹ مکمل کر لیا۔۔‘‘ وہ اس وحشت کو یاد کرتی ہیں۔ شکر ہے، ان کی کوئی ہڈی نہیں ٹوٹی۔ لیکن انہیں ایک بری چوٹ کا سامنا کرنا پڑا. خون جم چکا تھا۔ ”میں نے ڈرائیور کو سخت سست کہا۔ انہوں نے کہا کہ ڈائریکٹر نے ان سے کہا تھا، ‘ٹکر مار دو! فائٹر لڑکی ہے‘ میں نے پھر اس ہدایت کار کے ساتھ کبھی کام نہیں کیا،‘‘ وہ یاد کر کے بھڑک اٹھیں۔
ایک بار وہ ’شان‘ (1980) میں بندیا گوسوامی کے لیے اسٹنٹ کر رہی تھیں، لیکن حادثے کی وجہ سے وہ تین ماہ کی ملازمت سے محروم ہو گئیں۔ ’جیوتی‘ (1981) میں بیل فائٹ کے دوران انہوں نے ہیما مالنی کے لیے اسٹنٹ کیا، ”بیل نے مجھے دو بار گرایا۔ بعد میں، یہ اتنا دوستانہ ہو گیا، کہ اس نے حرکت تک کرنی چھوڑ دی۔۔ مجھے اسے ہلانا پڑا“
انہوں نے فلم ’مجھے میری بیوی سے بچاؤ‘ (2001) میں ریکھا کے لیے بھی اسٹنٹ کیا، جس میں اداکارہ نے ایک موٹی عورت کا کردار ادا کیا۔ ’میرے اپنے‘ (1971) کے دوران مینا کماری کے ساتھ کام کرنے کے حوالے سے ان کی اچھی یادیں وابستہ ہیں۔ ونود کھنہ اور شتروگھن سنہا کے درمیان لڑائی میں مینا جی کو مداخلت کرنی پڑی اور اس کے نتیجے میں انہیں گرنا پڑا۔ ”میں نے ان کے لیے یہ شوٹ کیا کیونکہ وہ ان دنوں بیمار تھیں، مجھے اسکرین پر مینا جی کی اداسی بہت پسند تھی۔۔ میں نے خود سخت زندگی گزاری تھی، اس لیے میں ان کے کرداروں کے درد کو سمجھتی تھی‘‘ وہ کہتی ہیں۔
کئی اداکاراؤں نے ان کی ہمت افزائی کی اور انہیں بہت عزت بھی دی، جن کے لیے وہ پسِ پردہ خطرناک مناظر اسٹنٹ کرتی تھیں۔ وہ اداکارہ ہیلن کی تعریف کرتی ہیں۔ وہ اس وقت کا بھی تذکرہ کرتی ہیں، جب موشومی چٹرجی شوٹنگ کے بعد انہیں گھر لے گئیں اور ان کا علاج کیا۔ اس وقت کو بھی، جب وہ ہیما مالنی کے گھر پر مزیدار جنوبی ہندوستانی کھانوں سے لطف اندوز ہو رہی تھیں، ”کسی ہیروئن نے مجھے نظر انداز نہیں کیا۔ ہیما جی نے ایک بار کہا، ’آپ بہت محنت کرتی ہیں اور ہم سارا کریڈٹ لے جاتے ہیں“ ریشما نے انکشاف کیا کہ انہوں نے شعلے کے دوران ہیما اور دھرمیندر کا رومانس دیکھا۔ ’’جھگڑا بھی چلتا تھا، پیار بھی،‘‘ وہ مسکراتے ہوئے بتاتی ہیں۔
ریشما نے 80 کی دہائی کے وسط میں ان کے ساتھ کام کرنے والے اسٹنٹ ڈائریکٹر شکور پٹھان سے شادی کی۔ ”چونکہ اس نے مجھے کام کرنے سے نہیں روکا، اس لیے ہماری شادی کامیاب رہی“
1984 میں ایک قانون کے تحت فلموں میں اسٹنٹ پر پابندی لگا دی گئی۔ یہ پابندی ایک سال سے زائد عرصے تک جاری رہی اور ریشما کو شدید مشکلات میں ڈال دیا۔ وہ یاد کرتی ہیں، ”ایک دن میرے پاس اگلے کھانے کے لیے پیسے نہیں تھے۔ مجھے گھر کے کونے کونے میں سکے اور روپے چھوڑنے کی عادت تھی۔ میں نے بے دلی سے کچھ پیسے ملنے کی امید میں کپ، بکس، کنٹینرز تلاش کیے۔۔ مجھے تقریباً سولہ سو روپے ملے اور میں خوشی سے رو پڑی‘‘
ریشما نے کوشش کی کہ ان کی بہن کے بیٹے اور ان کا اپنا بیٹا تعلیم مکمل کریں۔ ”ایک انجینئر ہے، دوسرا کار کمپنی میں مینیجر ہے، جبکہ میرا بیٹا ڈاکٹر ہے۔ میں نہیں چاہتی تھی کہ وہ اسٹنٹ ماسٹر بنیں کیونکہ یہاں مستقبل غیر یقینی ہے۔ وہ اس کے لیے میرا احترام کرتے ہیں“
2000 کی دہائی کے اوائل میں، عمر بڑھنے کے ساتھ، ریشما نے اسٹنٹ کے طور پر کام کرنا چھوڑ دیا اور فلموں میں بٹ رول کیے، جیسا کہ حالیہ گول مال ریٹرنز میں۔۔ ”اس منظر میں مجھ پر ایک بھوت سوار ہو گیا ہے، جو کہتا ہے، ‘آج تُو مرے گی واسو ریڈی۔“ وہ مسکراتے ہوئے بتاتی ہیں
اسٹنٹ کرتے انہیں کئی چوٹیں آئیں، کئی ہڈیاں ٹوٹی ہوں گی لیکن کوئی بھی چیز ان کے پرجوش جذبے کو دبا نہیں سکی۔
ترجمہ و ترتیب: امر گل
حوالہ: فلم فیئر