سندھ سلطنت: سندھو کی کہانی، اسی کی زبانی (قسط61)

شہزاد احمد حمید

”قدیم دور کا ’اروڑ‘ یا ’بکر‘ یا ’سکر‘ اور دور حاضر کا سکھر، سندھ یا وادی مہران کا تیسرا بڑا شہر میرے مغربی کنارے آباد ہے۔ سندھی زبان کے لفظ سکھر کا مطلب ہے ”اعلیٰ“۔ اس شہر کا معروف بھی ہے ”دریا ڈنو“ یعنی ”دریا کا تحفہ“ اگر میں ادھر سے نہ بہتا تو یہ علاقہ بنجر ہوتا۔ اس شہر کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ روایت کے مطابق یہ شہر موئن جو دڑو جیسے کسی شہر کے کھنڈر پر آباد ہے۔ یہاں سے گزر کر قافلے تاریخِ انسانی کے مختلف خطوں سندھ، افغانستان اور ایران جاتے رہے ہیں۔ سکھر قدیم دور میں 3 صوبوں بلوچستان، سندھ اور پنجاب کا جنکشن بھی تھا۔ کبھی یہاں کی کاٹن اور کھجور مشہور تھی آج صرف کھجور ہی رہ گئی ہے۔ زمانہِ قدیم سے ہی یہ شہر اہم تجارتی راستہ اور مرکز رہا ہے۔ یہ سکندر اعظم کے ہندوستان پر حملے کے وقت بھی آباد تھا۔ ایک روایت کے مطابق قدیم بکھر شہر روہڑی سے چھ (6) کلو میٹر کے فاصلے پر تھا، جہاں آج بھی اس کے کھنڈر دیکھے جا سکتے ہیں۔ راجہ داہر کے دور میں یہاں شیو کا مندر تعمیر ہوا، جو محمد بن قاسم کے سندھ پر حملے کے وقت تک موجود تھا۔ 711ء میں عرب یہاں قابض ہوئے تو یہ اموی سلطنت کا حصہ بنا۔ مغل بھی یہاں کے حکمران رہے اور آخر میں انگریز پہنچے اور پھر آزادی آئی۔ مقامی امیر، سردار اور وڈیرے بھی یہاں کے مالک رہے اور اُن کا اثر ورسوخ آج بھی بہت گہرا ہے۔ یہ بھٹو کے وزیر قانون اور پاکستان کے نامور قانون دان حفیظ پیرزادہ اور ستار پیرزادہ کا تعلق بھی اسی شہر سے ہے۔
ابنِ بطوطہ جس زمانے میں یہاں سے گزرا یہ جگہ سندھ کی سب سے بڑی اور بارونق بندرگاہ تھی۔ آئینِ اکبری میں ابو الفضل نے بھی اس کا تذکرہ کیا ہے۔ کچھ لوگوں کے خیال میں آج کا یہ ویرانہ دراصل قدیم دیبل ہے جبکہ بعض کے نزدیک یہ منوڑہ (کراچی کے قریب جزیرہ) ہے لیکن جدید تحقیق کے مطابق یہ کراچی سے چند میل دور ’بھمبھور‘ شہر ہے جو کھدائی کے دوران برآمد ہوا ہے۔ ابنِ بطوطہ لکھتے ہیں؛ ’دیبل جہاں کبھی آباد تھا میں نے وہ جگہ دیکھی ہے۔‘

”سکھر انتہائی زرخیز علاقہ ہے۔ کھجور کی عمدہ نسل کی پیداوار کا مرکز۔ کھجور یہاں کی اہم سوغات بھی ہے میری (سندھو کی) گزر گاہ کے گرد گھنا جنگل (کچے کا علاقہ) سندھی ڈاکوؤں کی من پسند پناہ گاہ ہے۔ 1887ء میں یہاں رومن کیتھولیک چرچ نے ”سینٹ میری اسکول“ قائم کیا جو یہاں کی سب سے قدیم، مشہور اور اہم درس گاہ ہے۔“ سندھو داستان سنانے میں مصروف ہے۔

سکھر کے بارے ’مہران آف سندھ‘ کا مصنف ’میجر ایچ جی ویلز‘ لکھتا ہے:
”سکھر نام کی جگہ ہندوستان کی قدیم تاریخ میں کہیں نہیں ملتی۔“

سکھر کا پہلا تذکرہ’”پیر سید معصوم شاہ المعروف بخاری شاہ‘ کی تصنیف ’تاریخِ سندھ‘ میں ملتا ہے۔ اسی طرح روہڑی کا نام بھی قدیم تاریخ میں نہیں ملتا ہے۔ سکھر کے نام کی نسبت سے بہت سی روایات ہیں۔ کچھ کے مطابق محمد بن قاسم نے یہاں پہنچ کر عربی کا لفظ ”شکر“ بولا تو یہ نام بگڑ کر سکھر بن گیا۔ (محمد بن قاسم گھنے جنگلوں اور مشکل راستے پر سفر کرتا یہاں پہنچا تھا)۔ دوسری روایت کے مطابق محمد بن قاسم نے عربی زبان کا لفظ ”سوکر“ بولا مطلب ”جہنم جیسی گرمی۔“ کچھ روایات کے مطابق یہاں کی گرمی کی وجہ سے ’سوکر‘ کا لفظ بگڑ کر ’سکھر‘ ہو گیا اور یہی اس کے نام کی نسبت ٹھہرا۔

مصنف ’جی این مہتا‘ کے مطابق: ”یہ جگہ ایک ہندو برہمن ’ورھم برمانجی‘ نے 375ھ قبل مسیح میں آباد کی تھی۔ اس کا انتقال سنسکرت کیلنڈرکے دن ’شکر وار یعنی جمعہ‘ کے دن ہوا۔اُس کے مطابق سکھر دراصل شکر وار کی بگڑی شکل ہے۔“

کچھ دیگر روایات کے مطابق یہاں بہت گرمی پڑتی ہے اور سندھی میں گرمی کو ’سکر‘ کہتے ہیں، اسی نسبت سے یہ جگہ سکھر کہلائی۔ ایک اور روایت ہے کہ سکھر اور روہڑی کے درمیان سندھو کے بیچ ایک جزیرہ، جس پرراجہ داھر کا قلعہ’بکھر‘ تھا، اس کا بگڑا نام سکھر ہے۔ یہ بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ ہندوستان میں تعمیر ہونے والی مساجد میں شاید سب سے قدیم اور پہلی مسجد محمد بن قاسم نے سکھر میں ہی تعمیر کی تھی۔“

داستان گو کہانی آگے بڑھا رہا ہے؛ ”سکھر کا گھنٹہ گھر یا کلاک ٹاور بازار یہاں کا سب سے مشہور اور بھیڑ والا بازار ہے۔ گو یہاں اب کلاک تو نہیں رہا شاید کوئی دل جلا اتار کر لے گیا ہے یا مقامی انتظامیہ کے لئے اس کی اہمیت نہیں رہی ہے، بہرحال یہ بازار آج بھی گھنٹہ گھر بازار ہی کہلاتا ہے۔ سکھر کے اس بازار میں صبح کے رس پاپے کے ناشتے کا اپنا ہی لطف ہے۔ یہ خاص رس پاپے اس بازار کی سوغات ہیں جو ریڑیوں پر سجے ہر گزرنے والے کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ ان رس پاپوں پر مکھن لگا کر چائے میں ڈبو کر کھائیں تو یقین کریں آپ انگلیاں چاٹتے رہ جائیں گے۔ یہ ناشتہ شاید آپ عمر بھر بھلا بھی نہ پائیں۔“

ہم نے تو ایک صبح ناشتے میں ان پاپوں کا لطف لیا اور یقین کریں یہ لاجواب تجربہ ہے۔ سکھر کی سب سے بڑی پہچان ’ڈاؤسن الائیڈ برج‘ ہے، جو بمبئی کے گورنر لائیڈ ڈاؤسن کے نام پر تعمیر ہوا۔ یاد رہے تقسیمِ ہند سے پہلے کراچی بمبئی صوبے کا حصہ تھا۔ لائیڈ برج کا شمار دنیا کے خوبصورت ترین برجز میں ہوتا ہے۔ اس شاہکار کو مقامی لوگ ’قینچی والا پل‘ بھی کہتے ہیں۔ ان کے نزدیک اس کی بناوٹ قینچی سے ملتی جلتی ہے۔ بہرحال میرے مشاہدے میں ایسی مشابہت نہیں ہے۔ سکھر کے گرد و نواح میں مختلف انواع کی لذیذ اور شیریں کھجوروں کے باغات میلوں میں پھیلے ہیں۔ان کجھوروں کی لذت اور شیرینی شاید یہاں کی زمین اور آب و ہوا کا اثر ہے

”یہاں کی ایک اور سوغات لاڑکانہ جاتے سڑک کے دونوں اطراف ’سردائی‘ (تھادل) (ایک مقامی مشروب جو خشخاش، ستو، اور دوسری جڑی بوٹیوں سے تیار کیا جاتا ہے اور گرمی کے موسم میں گرمی سے بچے رہنے کا کارگر دیسی نسخہ ہے) کے اسٹال اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔مقامی اوراجنبی مسافر اس سوغات سے لطف اندوز ہوئے بغیر شاید ہی گزرتے ہوں۔ مختلف اشیاء کا مرکب یہ ٹھنڈا مشروب گرمی کے موسم میں بہت راحت بخش محسوس ہوتا ہے۔“

ہم نے بھی ایسے ہی ایک ’بابا اللہ بخش سردائی والے‘ کے تیار کردہ اس راحت افزا مشروب سے خود کو تازہ دم کیا ہے اور زوردار گرمی سے خود کو محفوظ بھی۔ یقین کریں ٹھنڈے مشروب اور ’تخم ملنگہ“ (کالے رنگ کے چھوٹے بیج جن کو پانی میں بھوگ کر مشروب یا ٹھنڈے دودھ میں استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ بھی گرم موسم میں گرمی سے محفوظ رکھتے ہیں۔ یہ پانی میں پھول کر گرے رنگ کے ہو جاتے ہیں۔ ان کا ذائقہ بہت عمدہ ہے۔آج کی نوجوان نسل ایسی دیسی چیزوں سے پرہیز کرتی ہے۔میں تو اس نسل کو ”کوک اور برگر“ نسل ہی کہتا ہوں۔ معذرت کے ساتھ۔ نوجوانوں کی اکثریت تو تخ بلنگو کا نام بھی نہیں جانتے ہوں گے۔) کے ایک ایک گلاس نے گرم موسم میں سینے میں جیسے ٹھنڈی لکیر اتار دی ہو۔ مشتاق اور میں نے ایک گلاس دو بار پیا ہے۔

”یہاں میر معصوم شاہ صاحبؒ کے دور کی بنی بہت سی عمارات اور باغات ہیں۔ آپ کا اصل نام ”میر محمد معصوم شاہ بخاری“ تھا لیکن آپ سید نظام الدین میر معصوم شاہ“ کے نام سے معروف ہوئے۔ آپ سولہویں صدی کے اکبری دربار سے وابستہ نامور طبیب، مورخ اور اکبری فوج کے سالار تھے۔ سندھ کی تاریخ پر سب سے مستند سمجھی جانے والی تصنیف ”تاریخ سندھ“ (اسے ”تاریخ معصومی“ بھی کہا جاتا ہے) آپ ہی کی تصنیف کردہ ہے۔ 1595ء میں آپ کی قیادت میں مغل سپاہ ”سبی بلوچستان“ پر حملہ آور ہوئیں اور مغل حکومت بلوچستان تک پھیل گئی۔ 1598ء میں شہنشاہ ہند اکبر اعظم نے میر معصوم کو سندھ اور سبی کا گورنر مقرر کیا۔ 1607ء یہاں چھبیس(26) میٹر قطر اور تقریباً اکتیس (31) میٹر بلند ”معصوم مینار“ تعمیر کیا گیا جو دور سے ہی نظر آتا سکھر کی ثقافتی رچ نس کا عکاس ہے۔ چوراسی(84) سیڑھیوں پر مشتمل زینہ مینار کی چھت تک جاتا ہے۔ یہ مینار دراصل ”واچ ٹاور“ تھا جو یہاں آنے والے جہازوں اور مسافروں کی سمت کا تعین کرتا تھا۔ اس مینار کے احاطے میں میر معصوم اور اُن کے خاندان کے دیگر افراد ابدی نیند سوئے ہیں۔ میر معصوم کی اولاد آج بھی پرانے سکھر شہر میں آباد عزت و تکریم کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے۔یہ مینار اور اس کا گردو نواح آج بھی معصوم خا ندان کی ملکیت ہے لیکن اب اس کا انتظام و انصرام حکومت سندھ کے پاس ہے۔“ (جاری ہے)

نوٹ: یہ کتاب ’بُک ہوم‘ نے شائع کی ہے، جسے ادارے اور مصنف کے شکریے کے ساتھ سنگت میگ میں قسط وار شائع کیا جا رہا ہے. سنگت میگ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close