شادی اور ڈگری۔۔۔ ان سے بچوں کو ڈرانا اور بھگانا آج کل فیشن ہے۔
یہ دونوں چیزیں ایسی ہیں کہ ان پر بات کرنے والے بندے کو بالکل کسی تجربے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
آپ خیالات کا اظہار کر سکتے ہیں تو سننے والے بندے بے شمار، ہمت کریں اور سوشل میڈیا پہ شادی کے حوالے سے جگت پھینک دیں یا پھر اپنے فالورز کو ’غریبو‘ کہیں، ’ملینرو‘ کہیں اور بجا دیں ڈھول اپنے فنانشل شارٹ کٹ کا، دونوں چیزیں ہِٹ ہوں گی
ہو صرف یہ رہا ہے کہ ہم لوگ یہ دونوں کام اکثر کچھ لینے کی خاطر کرتے ہیں، ڈگری نوکری کے لیے اور شادی، آئیڈیل پانے کے لیے یا اپنی دماغی و دیگر فرسٹریشنیں دور کرنے کے لیے۔۔
آپ مغربی فلاسفی سے متاثر ہوں تو آپ کی بات یوں شروع ہوگی، ’شادی کا انسٹیٹیوشن اصل مسئلے کی جڑ ہے۔‘ اس کے بعد دے مار ساڑھے چار۔۔ مقامی فلسفی ہیں تو آپ شریکِ حیات کے لیے طنزیہ جملے بولیں گے اور وہ لطیفے سنائیں گے کہ جن کی ناک کے بال بھی سفید ہو چکے ہوں گے۔۔ ڈگری پہ ہر دو طرف سے رائے یہی آئے گی کہ نوکری نہ ملے تو چاٹنی ہے ڈگری؟ یا پھر یہ کہ ڈگریوں پر پیسے اور وقت ضائع کرنے کی بجائے کاروبار کر لو۔۔
دونوں موضوع جوڑے اس لیے کہ ڈگری اور شادی، دونوں سے ہم غلط توقعات لگائے بیٹھے ہوتے ہیں۔
سادہ ترین لفظوں میں سننا چاہیں تو ڈگری اور شادی، یہ دونوں چیزیں ہمیں بالترتیب بچپن سے جوانی اور جوانی سے بڑھاپے تک، ایک انسان بنانے میں مدد کرتی ہیں۔
جس نے کاروبار کرنا ہوتا ہے، اسے ڈگری کبھی نہیں روکتی۔۔ جسے فرسٹریشن ہوتی ہے، اسے شادی کبھی نہیں ٹھیک کرتی۔۔ یہ دونوں کام ان دو نتیجوں کے لیے کرنا چھوڑ دیں گے تو حساب کتاب بہتر سمجھ آنا شروع ہو جائے گا۔
ڈگری۔۔۔ میٹرک، ایف اے، بی اے، ایم اے، او لیول، اے لیول و علی ھٰذا القیاس، کرتی کیا ہے کہ صدیوں سے طے شدہ پیٹرن پہ بچوں کے دماغ میں وہ چیزیں ڈالتی ہے کہ جن سے انہیں ’سوشل ایکیومن‘ ملتا ہے۔ ڈگری کے لیے وہ جس بھی ادارے میں جاتے ہیں، باقی ماحول وہاں سے بنتا ہے اور سوشل ایکیومن یعنی انسانوں میں رہنے کے لیے جو کچھ بہتر سمجھا جاتا ہے، طور طریقے، عادتیں، اخلاق، بڑوں کے تجربے کا نچوڑ، وہ سب انہیں سیکھنے یا کم از کم دیکھنے کو مل جاتا ہے۔
شادی بھی یہی کرتی ہے۔ ڈگری ختم ہونے کے بعد عام طور پہ شادی کا ٹائم آتا ہے اور وہ ایک الگ درس گاہ ہے۔
اگر آپ کلاسیکل اسکول آف تھاٹ کے ہیں تو اس لفظ ’درس گاہ‘ کو طنزیہ پڑھ لیں، ورنہ سنجیدہ سمجھا جائے۔
تو شادی، سکھاتی ہے کہ دوسرے انسان کے ساتھ ممکنہ قریب پروکسیمیٹیز (حالات و واقعات) میں کیسے رہنا ہے۔ کس چیز سے رکنا ہے، کیا کرنا ہے، کیا نہیں کرنا ہے، کوئی راستہ کہ جس سے دونوں خوش رہ سکیں، اور کس طریقے سے اگلی نسل کو اپنا سب تجربہ ٹرانسفر کرنا ہے۔
سوال بنتا ہے کہ اگر اتنے مجاہدے ہی کرنے ہیں تو بندہ یہ دونوں چِلّے کاٹے کیوں؟ کیوں محنت کی جائے ’سوشل اکیومن‘ کے لیے؟ اور سیدھی سادی مجرد و محدود زندگی کیوں نہ گزاری جائے؟
تو جواب یہ ہے کہ ڈگری اور شادی کے تجربوں کا حامل انسان معاشرے میں ’اسٹیٹس یافتہ‘ سمجھا جاتا ہے، یہ دونوں چیزیں ایسی انویسٹمنٹ ہیں، جو آپ سے کوئی چھین نہیں سکتا۔
طلاق ہو گئی تب بھی نہیں، ڈگری جل گئی تب بھی نہیں۔ جس کسوٹی پر آپ اترے، جس تجربے سے آپ گزرے، جو کچھ آپ نے سیکھا، جو کچھ آپ نے جذب کیا، اسے کوئی کیسے چھین سکتا ہے؟
تو یہ دونوں چیزیں جو ہیں، انہیں بغیر سمجھے حاصل کرنا ہمارے بچوں کا اصل مسئلہ ہے۔
ڈسپوزیبل پنے کے اس دور میں یہ بات نئے بچوں کو سمجھانا مشکل ہے۔ انہیں یوں کہا جا سکتا ہے کہ بیٹا، ڈگری ایک پیکج کا نام ہے جو تمہیں لوگوں میں قابلِ قبول بنائے گی، بنیادی علم دے گی اور شادی اس پیکج کی عملی آزمائش ہے، کہ تم نے سیکھا کیا اور اسے برتا کیسے، اور اسے آگے کیسے بڑھا سکتے ہو۔
وہ پوچھیں گے کہ اس طرح تو عمر ختم ہو جائے گی، ہم یہ سب کیوں کریں؟ ہمیں معاشرے سے کوئی سَنَد نہیں چاہیے، ہمیں رہنا ہی نہیں دوسروں میں، نہ ہم کو ان کی پروا ہے کوئی، تو ان سے کہہ دیجیے کہ بھیا تمہاری عمر میں ہم بھی یہی سوچتے تھے لیکن خدا کی مہربانی سے گُھس پڑے دونوں تجربوں میں، اب پل کے اوپر کھڑے ہو کے تم کو آواز دے رہے ہیں کہ آ جاؤ پیچھے پیچھے، سمجھ نہ آئے تو بھلے کسی اور کی بات سن لو، اپنے پاس تو یہی سب کچھ ہے۔
اور ہاں، دنوں معاملوں میں بچے اگر ویسٹ کی بات کریں تو ان کو بول دیں کہ بیٹا دیسی بچہ ولایتی تجربے کر سکتا ہے لیکن ان کی اپنی قیمت ہوتی ہے، وہ جمع تفریق کر لو، سمجھ آئے تو دیکھو۔ باقی بنیادی تعلیم تک رسائی وہاں سب کے لیے ہے، ایسے شوشے بھی کم ہیں کہ تعلیم کی بجائے کاروبار کر لو اور وہاں بنیادی جسمانی تجربوں کے لیے بھی کوئی پابندی نہیں ہے۔
اس سب کے باوجود وہ ڈگریاں بھی لیتے ہیں اور وہ شادیاں بھی کرتے ہیں۔
کیا کہا؟ میں کہنا کیا چاہتا ہوں؟ ڈگری اور شادی، یہ دونوں چیزیں ’انسان‘ بننے کے لیے کرنے کا سوچیں تو نتیجہ اچھا نکلنے کی امید ہے۔ بس اتنی سی بات ہے۔
بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)