اسرائیلی جارحیت: یہ ’کمپنی‘ ایسے نہیں چلے گی!

منصور جعفر

غزہ پر اسرائیلی بمباری کو تین ہفتے مکمل ہو چکے اور چوتھا ہفتہ جاری ہے۔ اس بمباری کے نتیجے میں اب تک نو ہزار سے زائد فلسطینیوں کی اموات ہو چکی ہیں، جن میں بڑی تعداد بچوں اور نو عمروں کی ہے۔

عام خیال یہی تھا کہ اسرائیل حماس اور غزہ کو بہت جلد ’سبق سکھا‘ سکے گا۔ کئی عالمی طاقتیں اس کی سرپرستی، مشاورت اور مدد میں ہر طرح سے پہلے دن سے شامل تھیں، لیکن جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے، یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ یہ اسرائیل کے لیے اتنا آسان نہیں رہا کہ وہ غزہ اور اس میں موجود فلسطینیوں کے جذبہِ آزادی کو مٹا سکے، بلکہ اس امکان کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا کہ اسرائیل اب خود دنیا کے لیے ایک سبق بن جائے۔

خود اسرائیل کے وزیراعظم نتن یاہو سے لے کر دوسرے کئی رہنما ایک طویل جنگ کی خبر دے رہے ہیں۔ امریکہ اور اس کے قریب ترین اتحادی اس جنگ کا دائرہ پورے مشرق وسطیٰ تک پھیلتا دیکھ رہے ہیں۔ حتیٰ کہ ایسے تجزیے بھی موجود ہیں کہ جنگ کا دائرہ مشرق وسطیٰ سے باہر تک بھی پھیل سکتا ہے۔

جنگ کا دائرہ مشرق وسطیٰ میں کس حد تک پھیلتا ہے، اس کا اندازہ کوئی ایسا مشکل نہیں رہا کہ امریکہ نے جس طرح اس جنگ میں حصہ داری کا آغاز کیا ہے اور محض اپنے بحری بیڑے مشرق وسطیٰ بھجوانے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ مزید کوششوں میں ہے۔

جدید ترین جنگی طیارے اور کانگریس سے اربوں ڈالرز کی منظوری لینے کی جو بائیڈن انتظامیہ کی درخواست جیسے واقعات امریکہ کے 100 فیصد نہیں تو 70 فیصد اس جنگ میں کودنے کی چغلی کھا رہے ہیں۔ اب اس کی ترجیح یوکرین کی بجائے اسرائیل بن رہا ہے۔

بعض مغربی ممالک بھی پوری طرح اسرائیل کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہونے کا اعلان کر چکے ہیں۔ اس لیے اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان یہ جنگ اعلانیہ نہ سہی غیر اعلانیہ طور پر ابھی سے مشرق وسطیٰ کی سرحد سے باہر تک اپنی رسائی ظاہر کر رہی ہے۔

اس کے دوسرے براعظموں میں پھیلنے کی ایک صورت اس کے علاوہ یہ بھی ہے کہ امریکہ اور یورپ کے بہت سارے ملکوں میں لوگ اس بارے میں کھل کر اظہار رائے کرنے لگے ہیں۔

لاکھوں لوگوں نے اسرائیل کی مذمت اور فلسطینیوں کی حمایت کے لیے نیویارک سے لے کر لندن کی سڑکوں پر مارچ کیا ہے۔ یہ احتجاجی سلسلہ پھیلتا ہوا نظر آرہا ہے۔ عرب دنیا میں قاہرہ کا تحریر اسکوائر اس کی ایک بڑی مثال ہے۔ باقی جگہوں سے بھی اسی نوعیت کی خبریں ہیں۔

مسلم دنیا کی واحد جوہری طاقت پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں جماعت اسلامی کی کال پر ایک بڑی ریلی منعقد ہو چکی۔ اس سے قبل کراچی میں شہریوں کا جمِ غفیر تھا۔ اب 19 نومبر کو لاہور سے اس سے بڑی سرگرمی دکھانے کی اطلاعات ہیں۔ انڈیا جو ایشیا میں واحد اسرائیل کی حمایت میں اور فلسطینی عربوں کے خلاف موقف اختیار کیے ہوئے ہے، اس کے ہاں بھی فلسطینیوں کے حق میں عوامی آواز منظم ہو رہی ہے۔

لیکن یہ سب وہ مناظر ہیں جو ظاہر ہیں اور کھلی آنکھوں سے دیکھے جا سکتے ہیں۔ اصل چیز جو آنے والے دنوں میں منصہ شہود پر عالمی برادری کی سطح پر ملکوں ملکوں دیکھنے میں آئے گی، وہ اسرائیل اور حماس کی اس جنگ کے کسی بھی نتیجے کی صورت میں پوری دنیا پر حاوی نظام اور بہت ساری مروج اصطلاحات کو نئے سرے سے ترتیب دینے کا ابھرتا ہوا تصور ہوگا۔

گویا اس جاری جنگ میں جن ہزاروں بچوں کا خون بہہ چکا ہے، یہ خون اب رائیگاں جانے کا نہیں بلکہ ’ری امیجننگ آف دی ورلڈ‘ کی سوچ اور فکر کی بنیاد بنے گا۔

ایک طرف غزہ پر اسرائیلی بمباری سے ہر روز بیسیوں اور سینکڑوں فلسطینیوں کی اموات ہو رہی تھیں اور دوسری جانب عالمی ادارے اقوام متحدہ کے سب سے زیادہ طاقتور فورم سلامتی کونسل کا کردار اور کارکردگی پچھلے 75 سال سے زیادہ عرصے سے جاری نظام کی خباثتوں کے ماڈل یا ’کیس اسٹڈی‘ کے طور پر سامنے آ رہی تھی۔

اس جاری نظام کا تخلیق کار امریکہ اور اس کے اتحادی غزہ میں جاری جنگ کو بند کرنے اور انسانی بنیادوں پر سامان اور خوراک کی غزہ کو فراہمی کے راستے میں سد راہ بنے ہوئے تھے۔

اس بے رحمی اور سنگ دلی سے حکمران طبقے کی موٹی کھال کو تو شاید کوئی اثر نہیں ہوا ہوگا، مگر نئی نسل بھی بر اعظمی اور قومی تقسیم کے باوجود سوشل میڈیا کے ذریعے ایک صفحے پر نظر آتی ہے۔

اسی کا اظہار امریکہ، یورپ، ایشیا، آسٹریلیا اور افریقہ میں ہر جگہ ہزاروں اور لاکھوں کی ریلیوں کی صورت میں دکھائی دیا۔

بلاشبہ نئی نسل اور انسانی بنیادوں پر سوچنے سمجھنے والے لوگ اس طریقے کو بدلنا چاہتے ہیں۔ امریکہ جو دنیا میں امن کا چورن بیچتے نہیں تھکتا ہے، غزہ پر اسرائیلی بمباری جاری رکھنے کے لیے عریاں ہو کر سامنے آیا ہے۔ برطانیہ اور فرانس بھی اس کے ساتھ اسی حمام میں ہیں۔

اصلی و نسلی لبرل اور کھلے ذہن کے داعی لوگوں کے لیے ایسے نظام کے ساتھ چلتے رہنا اور آنکھیں بند کر کے چلتے رہنا، کسی صورت ممکن نہیں ہے۔ اس لیے وہ دن دور نہیں جب اسی اقوام متحدہ کی کوکھ سے کوئی نیا نظام جنم لے یا جنم دے دیا جائے گا۔ اگر یہ ممکن نہ بھی ہوا تو ایک نئے عالمی نظام کی خواہش انگڑائی لینا شروع کر سکے گی۔

دنیا کی آٹھ ارب کی تعداد کو چھو چکی آبادی، اسرائیل کی جانب سے عالمی طاقتوں کے زیر سرپرستی غزہ میں جاری خونی کھیل کو اب بند دیکھنے کی آرزو کے ساتھ آگے آنے کی شروعات کرے گی اور دنیا کو ’ری ایمیجنگ آف دی ورلڈ‘ کے انداز سے آگے بڑھانا چاہے گی۔

’ری امیجنگ آف دی ورلڈ‘ کا بڑا کریڈٹ سوشل میڈیا کو بھی جاتا ہے، جس نے جاری عالمی نظام کے لیے کہیں کہیں ایک ’واچ ڈاگ‘ اور زیادہ تر جگہوں پر محض ’ڈاگ‘ کے طور پر بروئے کار میڈیا کو بری طرح ’ایکسپوز‘ کر دیا ہے۔ سی این این سے لے کر بی بی سی تک عجیب انداز میں دنیا کے سامنے آئے ہیں۔

اپنے کارکنوں اور اینکرز کی معطلی سے لے کر ان کے خلاف عملاً اس طرف کھڑے ہیں، جہاں سے ڈیڑھ سال پہلے شیریں ابو عاقلہ کو نشانہ بنایا گیا تھا اور اب 13 اکتوبر کو ’روئٹرز‘ کے اعصام عبداللہ کو مار دیا گیا ہے۔

اسرائیل کے حق میں استعمال ہونے والے عالمی سطح کے بڑے بڑے میڈیا ہاؤسز اور امریکہ، یورپ اور ایشیا سمیت تقریباً ہر جگہ ’مین اسٹریم میڈیا‘ کا ٹائٹل رکھنے والا میڈیا، شاید اس جاری خونی جنگ کی تاب نہ لا سکے اور کم از کم مین اسٹریم میڈیا کے ٹائٹل سے محروم ہو جائے گا۔

دنیا کے لوگوں کی غالب اکثریت اس نام نہاد ’مین اسٹریم میڈیا‘ کے فکر و فلسفے سے تنگ ہے، اس لیے میڈیا کو بھی مستقبل میں ’ری امیجنگ‘ کے شیشوں سے دیکھنا چاہتی ہے اور دنیا کو بھی ’ری امیجنگ‘ کے حوالے سے بھی دیکھنے کی آرزو مند ہے۔

غزہ میں فتح اسرائیل کی ہوتی ہے یا اس کے تار و پود کے بکھرنے کی سبیل نکلتی ہے، اس بارے میں کچھ بھی کہنا آسان نہیں، البتہ یہ بے دھڑک کہا جاسکتا کہ فلسطینی مزاحمتی تحریک کو اگلے برسوں میں ایک نئی زندگی اور توانا جان کے ساتھ دیکھے جانے کا امکان اس خونریزی کے بعد بڑھ گیا ہے کہ بے حس سے بے حس انسان خواہ وہ حکمران ہو یا مطلق العنان حکمران، ہزاروں فلسطینی بچوں کے تڑپتے لاشوں کو اپنے محلات میں چھپا نہیں سکے گا، نہ دبا سکے گا۔

اس لیے جہاں حماس اور فلسطین کی تحریک مزاحمت زیادہ توانائی پکڑ سکتی ہے، وہیں اسرائیل کو ’ہولو کاسٹ‘ کا وکٹم کارڈ کھیلنے کا اب مزید موقع دیے رکھنے کے خلاف دنیا میں اچھی خاصی مزاحمت کا آغاز ہوگا کہ آخر کب تک اپنی مظلومیت کا سچا یا جھوٹا استعارہ بنا کر فلسطینیوں اور عربوں پر ظلم وجبر، قتل وغارت گری کا لائسنس استعمال کرتے رہیں گے۔

دنیا ’ہولو کاسٹ‘ کے دعوے کو غزہ پر بمباری سے ’شہید‘ ہونے والے بچوں کے خون میں خوں رنگ دیکھے گی تو خود ہی پکار اٹھے گی کہ ’ہولو کاسٹ‘ کا دعویٰ آخر کب تک چلتا رہے گا!؟

اگر جنگِ عظیم میں ’ہولو کاسٹ‘ ہوا تو کیا اسرائیل کے پاس ہمیشہ کے لیے لائسنس آ گیا ہے کہ جب چاہے فلسطینیوں اور عربوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹتا رہے؟

نظر نہیں آتا کہ اس جنگ کے بعد کم از کم دنیا کی نئی نسل ’ہولو کاسٹ‘ کے ’وکٹم کارڈ‘ کو سر آنکھوں پر اٹھائے رکھے گی۔ ہارورڈ یونیورسٹی سے لے کر نیو یارک کی سڑکوں اور لندن و قاہرہ و اسلام آباد سمیت دنیا کے بیسیوں شہروں میں لوگوں کا فلسطینیوں کے حق میں نکلنا، اس جانب دنیا بھر کی نئی نسل کا اہم اشارہ ہے۔

اگلے برسوں میں اس امر کا امکان بھی رد نہیں کیا جا سکتا کہ عالمی سطح پر من پسند اصطلاحات کے ٹکسال پر گھڑی جانے والی اصطلاحات کو اسی طرح قبولیت ملتی رہے گی، جس طرح گذشتہ کئی برسوں سے سلسلہ جاری ہے۔

اسرائیل اور حماس کی جنگ نے اور کچھ کیا ہو یا نہ کیا ہو، یہ ضرور کر دیا ہے کہ ’یہودیت مخالف‘ اور ’اسلاموفوبیا‘ کی اصطلاحات گھڑنے والوں کے ذہن کے اندر بروئے کار دوغلے پن اور دوہرے معیار کو خوب سمجھ سکے کہ اگر کوئی یہودیوں یا اسرائیل کے مظالم کے خلاف بولے تو وہ تو یہود مخالف اور نفرت انگیزی کی مہم کا حصہ اور جرم کا مرتکب قرار پائے گا۔

اور اگر اس کا ہدف اسلام اور مسلمان ہوں گے، مسلمانوں کی آخری کتاب یا آخری نبی حضرت محمدﷺ ہوں گے تو ایسے لوگوں کو اسلام مخالف یا مسلم مخالف نہیں قرار دیا جائے گا بلکہ ایسے واقعات کو محض ’اسلاموفوبیا‘ کی بے ضرر سی اصطلاح کا لبادہ پہنا دیا جائے گا۔ حتٰی کہ قرآن پاک کو نذر آتش کرنے والے آتش بدست اور آتش بردار افراد کو بھی مغرب اسی ’اسلاموفوبیا‘ کے بے ضرر سے لفافے میں بند کر کے پیش کرتے رہیں گے۔

حالانکہ ایک بندوق بردار کے مقابلے میں آتش بردار زیادہ خطرناکی کا حصہ دار بنتا ہے، اس لیے یہ بھی اب سامنے کی بات ہے کہ اصطلاحات کی ٹکسال چلانے کے ماہرین اب اپنی من مانی اصطلاحات کا سکہ کامیابی سے چلا سکیں گے؟ ناممکن! آنے والے دنوں میں دنیا کے لوگ ان چیزوں کو بھی ’ری امیجن‘ کرنے کے لیے آواز اٹھاتے نظر آئیں گے۔

یہ نوشتہِ دیوار نظر آتا ہے کہ غزہ میں جتنی دیر تک فلسطینیوں کا خون بہتا رہے گا یا بہایا جاتا رہے گا، اس کے بدلے میں اس امر کا امکان اتنا ہی قوی تر ہوتا جائے گا کہ اگلے دس بیس برسوں کے دوران عالمی سطح پر نظر آنے والی لیڈر شپ بھی کافی مختلف سوچ کے ساتھ دنیا کو ’ری امیجنگ‘ کے پہلو سے دیکھ رہی ہوگی۔

موجودہ بےحس اور ظالمانہ تعارف میں ڈھل چکے عالمی نظام کی طرح اگلے برسوں کی عالمی سطح پر قیادت کے فکر و فلسفہ اور عمل و کردار کے شعبوں میں پائی جانے والی فرسودگی کا بھی باقی رہنا آسان نہ رہے گا۔

ظلم و جبر، دھونس اور دھاندلی کا نظام ہمیشہ کے لیے ہو ہی نہیں سکتا۔ اس کی مثال کاٹھ کی ہنڈیا جیسی ہوتی ہے، اس لیے بار بار عوام دھوکہ کھانے کے لیے تیار نہیں رہتے۔

’گلوبل ویلج‘ کے باسی اب ماضی کے مقابلے میں باہم زیادہ مربوط ہیں، زیادہ باخبر ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہیں کہ اقوام متحدہ میں ’ویٹو‘ کا اختیار پوری دنیا کی رائے کو ’ویٹو‘ کرتا رہے۔ جس طرح کے حالات بن رہے ہیں، لگتا ہے کہ اب دنیا کے لوگ اس ظالمانہ نظام کو ’ویٹو‘ کرنے کا عندیہ دے رہے ہیں۔

بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close