ایک کہانی اپنے لیے (اردو ادب سے منتخب افسانہ)

رشید امجد

زندگی کے طویل خارزار میں وہ مجھے چند لمحوں کے لیے ملتی ہے اور اس کے بعد اداسی کی لمبی شاہراہ ہے، جس پر میں اکیلے ہی سفر کرتا ہوں۔۔ یہ چند لمحوں کی ملاقات ہی اس طویل خارزار میں میرا زادِ راہ ہے۔ مجھے لگتا ہے، میری زندگی ایک نہ ختم ہونے والی اداس شام ہے، جس کے زرد جھروکوں سے وہ کبھی کبھی، چند لمحوں کے لیے نمودار ہو تی ہے اور اپنے پیچھے ایک اداسی چھوڑ کر غائب ہو جاتی ہے۔ میں نہیں جانتا وہ کون ہے؟ اور اس کے کتنے روپ ہیں۔ میں نے تو اسے ہمیشہ ایک نئے روپ میں ہی دیکھا ہے۔

الگ الگ صورتوں، جدا جدا شکلوں۔۔

لیکن ان سب کے پیچھے وہ ایک ہی ہے، وہی مجھے اداس کر دینے والی، جس کا کوئی ایک نام نہیں، کئی نام ہیں۔

اس کا مجھ سے ملنا بھی عجیب ہے اور جدا ہونا بھی عجیب

ان دونوں کا درمیانی وقفہ کبھی کبھی تو چند لمحوں کا ہوتا ہے اور مجھے یوں لگتا ہے جیسے وہ میر ی زندگی کی راہ داری کے ایک سرے سے داخل ہوتی ہے اور تیز تیز چلتی دوسرے سرے سے نکل گئی ہے۔ اس کے آنے اور جانے کا احساس مجھے اس اداسی سے ہی ہوتا ہے، جو وہ اپنے پیچھے چھوڑ جاتی ہے۔۔۔ لیکن کبھی کبھی کیا برسوں بیت جاتے ہیں اور میری اس سے ملاقات نہیں ہو پاتی اور یہ برسوں بعد ہی کی بات ہے، بلکہ یوں لگتا ہے صدیاں بیت گئی ہیں۔

بس اس شام وہ اچانک ہی مل گئی۔ میں ایک دوست کی شادی میں گیا تھا، واپسی پر اس نے مجھ سے کہا کہ ایک صاحبہ کو راستے میں اتارتے جانا۔ میں نے کہا۔۔۔ ’’ٹھیک ہے، مجھے ادھر ہی جانا ہے۔‘‘

چند لمحوں کے بعد وہ آ گئی۔۔۔ میں نے اسے پہچانا نہیں۔

جب گاڑی گلی سے نکلی تو وہ بولی۔۔۔ ’’سنا ہے آپ کہانیاں لکھتے ہیں۔‘‘

میں نے سر ہلایا۔

’’مجھے بھی بڑا شوق ہے۔ لیکن میں لکھتی نہیں، بس پڑھتی ہوں۔‘‘

’’لکھتی کیوں نہیں؟‘‘

’’بس۔۔۔‘‘ اس نے عجب شانِ بےنیازی سے سر ہلایا۔ چند لمحے خاموشی رہی، پھر بولی۔۔۔ ’’جب آدمی کوئی کہانی پڑھتا ہے تو اس میں بس جاتا ہے۔‘‘

اس کے لہجے میں عجب طرح کی اداسی تھی، بس اسی لمحے میں نے اسے پہچان لیا لیکن میں اسے بتا نہ سکا، نہ یہ پوچھ سکا کہ اتنا عرصہ وہ کہاں رہی۔۔۔ میں تو کبھی اسے نہیں بتا سکا کہ میں اسے پہچان سکتا ہوں اور نہ کبھی یہ پوچھ سکا کہ میرا اس کا رشتہ کیا ہے؟

اس لمحے بھی جب وہ ساتھ والی سیٹ پر بیٹھی عجب شانِ بےنیازی سے مجھے دیکھے جا رہی ہے۔

’’آپ اور کیا کرتے ہیں؟‘‘ اس کے سوال نے مجھے چونکایا۔

اس کی سوالیہ نظریں جانے کب سے میرے چہرے کا طواف کر رہی تھیں۔

’’پڑھاتا ہوں۔‘‘

’’اچھا۔۔۔‘‘ اس نے ایسے کہا، جیسے یہ کوئی اہم بات نہ ہو۔

پھر خاموشی چھا گئی۔ وہ کچھ بول نہیں رہی تھی اور میرا تو ازل سے اس کے سامنے یہی حال رہا ہے کہ زبان گنگ ہو جاتی ہے۔ میں تو اسے آج تک کچھ بھی نہیں بتا پایا، لیکن بتانے کے لیے ہے بھی کیا؟

’’آپ کے کتنے بچے ہیں؟‘‘وہ پھر سراپا سوال بھی ہوئی تھی۔

’’تین‘‘

’’اچھا۔۔۔‘‘ اس اچھا میں نہ حیرت تھی، نہ کوئی اور جذبہ۔

’’اور آپ کیا کر رہی ہیں؟‘‘ میں نے بڑی جرأت سے پوچھا۔

’’بی اے کا امتحان دیا ہے، نتیجے کا انتظار کر رہی ہوں۔‘‘

’’پھر کیا کریں گی؟‘‘

’’شاید ایم اے کر لوں۔۔۔ آپ کے یہاں ایم اے کی کلاسیں ہیں نا۔‘‘

مجھے معلوم نہیں میں نے کیا کہا۔۔۔ یاد آیا، کئی برس پہلے وہ اسی طرح مجھے ملی تھی، کلاس کی سب سے اگلی سیٹ پر، پہلے ہی دن میں نے اسے پہچان لیا تھا، لیکن وہ مجھے پہچان نہ سکی۔ دو سال یوں گزر گئے جیسے لمحوں کو پر لگ گئے ہوں۔ آخری دن جب الوداعی تقریب ہو رہی تھی، وہ میرے پاس آئی۔ اس کے ہاتھ میں سرخ گلاب تھا۔

اس نے کہا۔۔۔ ’’سر! اگر آپ برا نہ مانیں تو میں یہ پھول آپ کے کالر میں لگا دوں؟‘‘

میں کچھ نہ بولا۔۔۔ بس یہ سوچتا رہا کہ آخر اس نے مجھے پہچان ہی لیا، لیکن دو سال کیوں خاموش رہی؟

پھول لگاتے ہوئے اس کی آنکھیں بھیگ گئیں۔

اس کے بعد وہ مجھے نہیں ملی، لیکن اس کی بھیگی آنکھیں اب بھی میرے ساتھ ہیں۔

اس لمحے جب وہ مجھ سے پوچھ رہی تھی۔۔۔ ’’اگر میں پاس ہو گئی تو داخلہ مل جائے گا۔‘‘

اس کی آنکھوں میں وہی اپنائیت، وہی بھیگاپن ہے۔

برسوں پہلے یہی بھیگاپن اس وقت بھی اس کی آنکھوں میں تھا، جب میں پہلی بار اپنی بیوی کے ساتھ اس کے گاؤں گیا تھا۔ گاؤں میں کسی عزیز کی شادی تھی۔ میری بیوی اور دوسرے لوگ ساتھ والی بڑی حویلی میں تھے۔ مجھے باہر کی طرف کھلنے والے ایک کمرے میں ٹھہرایا گیا تھا۔

میں اپنے ساتھ ایک نئی کتاب لے گیا تھا اور اسی میں منہمک تھا کہ آواز آئی۔۔۔ ’’آپ چائے تو نہیں پئیں گے؟‘‘

میں نے چونک کر سر اٹھایا، وہ دہلیز پر کھڑی تھی۔

’’جی۔۔۔‘‘

شہر کے لوگ چائے بہت پیتے ہیں نا۔۔۔‘‘ وہ کھلکھلائی۔

’’اگر آپ کہیں تو آپ کے لیے چائے بنا لاؤں؟‘‘

’’جی۔۔۔‘‘ میں بوکھلایا ہوا تھا۔

’’اچھا بنا لاتی ہوں۔‘‘ وہ دہلیز کے پار اندھیرے میں غائب ہو گئی۔ چائے کی پیالی میز پر رکھتے ہوئے اس نے بتایا کہ وہ میری بیوی کی رشتہ دار ہے۔ اس نے کہا، ’’آپ تو مجھے نہیں جانتے، لیکن میں آپ کو پہچانتی ہوں ، میں باجی کی شادی میں بھی آئی تھی۔‘‘

میں اسے کیسے بتاتا کہ میں تو اسے صدیوں سے جانتا ہوں۔ وہ ہمیشہ یونہی میری زندگی کی دہلیز پر کھڑے ہو کر چند لمحوں کے لیے مجھ سے بات کرتی ہے اور پھر وقت کے سرابوں میں کہیں گم ہو جاتی ہے۔

وہ کہہ رہی تھی۔۔۔ ’’میں آپ کی کہانیاں بھی پڑھتی ہوں۔‘‘

’’اچھا‘‘ میں اس سے زیادہ کچھ نہ کہہ سکا۔

کہنا تو میں چاہتا تھا کہ کبھی مجھے بھی پڑھ لو، میں ایسی کہانی ہوں جو صرف اسی کے لیے ہے، لیکن یہ بات تو میں اس وقت بھی اس سے نہ کہہ سکا، جب وہ میرے ساتھ پڑھتی تھی۔ پورے دو برس ہم ایک ہی کلاس میں رہے۔ روز ملتے، نوٹس تبدیل کرتے، گھنٹوں کورس کی باتیں کرتے لیکن ان دو برسوں میں میں اسے یہ نہ بتا سکا کہ میں اسے پہچان گیا ہوں اور نہ یہ پوچھ سکا کہ اس نے بھی مجھے پہچانا ہے یا نہیں۔

آخری دن جب سب ایک دوسرے کو الوداع کہہ رہے تھے، اس نے مجھے کہا۔۔۔ ’’معلوم نہیں زندگی کی شاہراہ پر کبھی دوبارہ مل پائیں یا نہیں، لیکن میں تمہیں ہمیشہ یاد رکھوں گی۔‘‘

اس کی آنکھیں بھیگی ہوئی تھیں۔ یہ بھیگی آنکھیں ہی تو میرا سرمایہ ہے۔ میں اس سرمائے کو برسوں سے سنبھالے پھر رہا ہوں، اس لمحے سے، جب میری عمر سات سال تھی۔

ہم صبح راولپنڈی جار ہے تھے۔ وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ ملاقات کے لیے آئی تھی۔ اس کے ابو میرے والد کو اب بھی سمجھا رہے تھے کہ سرینگر چھوڑ کر نہ جاؤ۔

میرے والد بڑے یقین سے کہہ رہے تھے، ’’بس چند دنوں کے لیے جا رہا ہوں۔ میری بہن امرتسر سے وہاں آ گئی ہیں، ان سے ملنا ضروری ہے۔‘‘

اس کے والد بولے۔۔۔ ’’دیکھو حالات ٹھیک نہیں ہیں، ایسا نہ ہو کہ تم وہاں پھنس کر رہ جاؤ۔‘‘

میرے والد نہیں مانے۔۔۔ اس لمحے میں اور وہ گیلری میں کھڑے تھے۔ وہ چپ چاپ مجھے دیکھتی رہی، ایک لفظ بھی نہ بولی۔ جب وہ لوگ جانے لگے تو آہستہ سے بولی۔۔۔ ’’میں تمہارا انتظار کروں گی۔‘‘

میں نے دیکھا۔۔۔ اس کی آنکھیں بھیگی ہوئی تھیں، میں ان بھیگی آنکھوں کو ساتھ لے آیا۔۔۔ اگلے دن ہم راولپنڈی پہنچ گئے اور تین دن بعد راستے بند ہو گئے۔ سرینگر بارڈر کے اس پار رہ گیا۔۔۔ وہ بھی بارڈر کے اس پار رہ گئی، لیکن اس کی بھیگی آنکھیں اب بھی میرے پاس ہیں۔ برسوں بیت گئے، اس کا چہرہ دھندلا گیا۔

شاید صدیوں بعد کی بات ہے۔۔۔ ہمارے پڑوس میں نئی آوازیں سنائی دیں۔ امی نے بتایا کہ نئے پڑوسی آ گئے ہیں۔

شام کو ہم لوگ ان کے یہاں آ گئے۔ جونہی اس نے چائے کی پیالی میرے ہاتھ میں دی، میں نے اسے پہچان لیا، لیکن اس کی آنکھوں میں اجنبیت تھی۔ ایک لمحہ کے لیے جب اس کی امی میری امی کو گھر دکھانے اندر والے حصہ میں لے گئیں تو میں نے پوچھا۔۔۔ ’’سرینگر سے کب آئیں؟‘‘

’’جی۔‘‘ اس نے حیرت سے کہا۔۔۔ ’’ہم تو کراچی سے آ رہے ہیں ، میرے ابو کی ٹرانسفر ہوئی ہے نا یہاں۔‘‘

میں کچھ نہ بولا۔۔۔ اسے کیسے بتاتا کہ وہ کراچی سے نہیں سرینگر سے آئی ہے۔

اگلے دن اور پھر کئی دن۔۔۔ کئی بار وہ چھت پر دکھائی دی، بس ایک نظر دیکھتی اور سر جھکا لیتی۔ دیکھتے ہی دیکھتے چھ ماہ گزر گئے۔ اس کے ابو واپس کراچی جانا چاہتے تھے۔ انہوں نے اپنی ٹرانسفر کرالی۔

آخری دن جب وہ لوگ جا رہے تھے، ہم لوگوں سے ملنے آئے۔

سب لوگ ڈرائنگ روم میں چائے پی رہے تھے۔ میں صحن کے ایک نیم تاریک گوشے میں کھڑا جالیوں سے باہر دیکھ رہا تھا۔ دفعتاً مجھے اپنے پاس کسی کے ہونے کا احساس ہوا۔ مڑ کر دیکھا تو وہ تھی۔

’’آپ۔۔۔ ‘‘

’’کل ہم جا رہے ہیں۔‘‘ اس کی آواز میں اداسی تھی۔

میں چپ رہا۔

اس نے ہاتھ آگے بڑھا کر کوئی چیز مجھے دی اور تیزی سے واپس چلی گئی۔ میں نے دیکھا۔۔۔ سرخ گلاب کا تازہ پھول۔

اگلی صبح جب وہ لوگ ٹیکسی میں سامان رکھ رہے تھے تو میں اپنے گھر کی دہلیز پر کھڑا تھا۔ ٹیکسی میں بیٹھنے سے پہلے اس نے میری طرف دیکھا، اس کی آنکھیں بھیگی ہوئی تھیں۔

یہ اداس بھیگی آنکھیں ہی تو میرا سب کچھ ہے۔

’’یہاں سے بائیں طرف مڑ جائیے۔۔۔ بائیں طرف‘‘ میں اپنے آپ میں اتنا ڈوبا ہوا تھا کہ اسے دوسری بار۔۔۔ ’’بائیں طرف‘‘ کہنا پڑا۔

’’جی۔۔۔ اچھا اچھا‘‘ میں نے بوکھلا کر گاڑی بائیں طرف موڑی۔ ایک سائیکل والا نیچے آتے آتے بچا۔

’’میں یہاں اپنی ایک عزیزہ کے گھر ٹھہری ہوں۔‘‘

’’اچھا۔۔۔‘‘ میرے پاس لفظ ہی نہیں تھے۔ پوچھتا کیا؟

’’کل صبح واپس چلی جاؤں گی۔۔۔ اب دائیں طرف۔‘‘

میں دائیں طرف مڑ گیا۔۔۔ تو کل تم واپس چلی جاؤ گی، میں نے سوچا۔۔۔ کہاں؟

لیکن میں پوچھ نہیں سکا۔

’’اب بائیں اور وہ پارک کے سامنے۔‘‘

میں نے پارک کے سامنے گاڑی روک دی۔ وہ چند لمحے سر جھکائے خاموش بیٹھی رہی، پھر اس نے سر اٹھایا۔۔۔ ’’اچھا جی۔۔۔ خدا حافظ‘‘

میں نے دیکھا، اس کی آنکھیں بھیگی ہوئی تھیں۔

’’تم نے مجھے پہچان لیا۔۔۔‘‘ میری آواز کانپ رہی تھی۔۔۔ ’’تو تم نے مجھے پہچان ہی لیا۔‘‘

لیکن وہ تو کب کی جا چکی تھی۔

اداسی آہستہ آہستہ میرے چاروں طرف پھیل رہی تھی۔ میں نے گاڑی اسٹارٹ کی اور لمبی خاموش سڑک پر گھر کی طرف چل پڑا۔

لیکن میرا گھر کہاں ہے؟

میں وہاں کبھی پہنچ بھی پاؤں گا؟

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close