آج کا لاڑکانہ اجڑا، ٹوٹا ہوا، دھول سے اٹا عام سا شہر ہے۔۔ اسے دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ پاکستان کے 2 نامور وزیر اعظموں کا آبائی شہر ہے۔ انہی وزرائے اعظم کی پارٹی ایک دھائی سے بھی زیادہ عرصہ سے سندھ کی حکمران جماعت ہے۔ اس شہر کی حالتِ زار دیکھ کر میں دکھ اور افسوس ہی کر سکتا ہوں یا انتہائی جذباتی ہو کر اپنا سر پیٹ سکتا ہوں۔ اتنی اور ایسی بے حسی انسانی سوچ سے بھی باہر ہے۔
یہاں کا چاول عمدہ، امرود مشہور اور رتو ڈیرو کی مٹھائی لذت میں لاجواب ہے۔خوشبو اور ذائقہ دونوں ہی کمال ہیں۔ مجھے ایک مقامی نے بتایا؛ ”سائیں! اس شہر کی موسیقی بھی خالص ہے اور ”ملاکھڑا“ (سندھی مقامی کشتی کی قسم) بھی روایتی ہے۔ یہاں چلنے والی بیل گاڑی آج بھی اسی طرز پر تیار کی جاتی ہے، جیسی کبھی موئن جو دڑو کی بیل گاڑی ہوا کرتی تھی۔ یہاں کا لوک رقص بھی قدیم ہے اور ساز بھی۔ کبھی کبھی چپڑی کو گھنگھرو کے ساتھ باندھ کر بھی بجایا جاتا ہے۔ (چپڑی مقامی ساز ہے، جو 2 لکڑیوں کی تختیوں کا بنا ہوتا ہے ان کو ہاتھ میں پکڑ کر بجاتے ہیں)۔ اس ساز کے ساتھ جب ”ہے جمالو“ کا گیت گایا جاتا ہے تو سماں سننے اور دیکھنے والے کو جکڑ لیتا ہے۔ بس اس شہر کی حالت دکھ دیتی ہے۔ سائیں! کوئی توجہ ہی نہیں دیتا ہے۔ ٹوٹی سڑکیں، پھوٹی قسمت، گلیوں کے ابلتے گٹر، اکھڑی عمارتیں، دکھڑے سناتے بھٹو کے شیدائی لوگ۔۔۔ یہاں کا چانڈیو محل کی سو سال پرانی اکھڑی،۔ دکھڑی اور اجڑی عمارت ماضی کی وکھری اور شاندار کہانی سناتی ہے۔ یہ دیکھنے کی جگہ ہے سائیں۔“
شاید سارا دیہی سندھ ہی ایسا ہے۔ دکھڑے سبھی کے ایک جیسے ہی ہیں سندھ ہو، پنجاب ہو، بلوچستان ہو یا خیبر پختون خواہ۔ باس کہنے لگے؛ ”دیہی سندھ تو اپنی جگہ، تم کراچی حیدرآباد دیکھ لو۔ کیا دنیا کا دسواں بڑا شہر ایسا ہو تا ہے؟ کیا حال ہے عروس البلاد کا اور تالپوروں کے حیدرآباد کا۔ مہذب دنیا ایسی ہوتی ہے کیا؟“ چائے کے گرم پیالے نے تازہ دم کر دیا ہے اور موئن جو دڑو ہمارا اگلا پڑاؤ ہے۔
اپنی ہی دھول میں لاڑکانہ پیچھے رہ گیا ہے۔ ہری فصلوں اور تناور درختوں کے بیچ سے گزرتے ہم یہاں سے اٹھائیس (28)کلومیٹر دور موئن جو دڑو پہنچنے والے ہیں۔ یہ مسافت طے کرنے میں تقریباً 40 منٹ لگتے ہیں۔ سر شاہنواز بھٹو روڈ (ذوالفقار علی بھٹو کے والد)سے دائیں گھومے، قائد عوام کالج آف انجنئیرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کی پرشکوہ عمارت (یہ کالج قائد عوام انجنئیرنگ یونیورسٹی نواب شاہ کا ذیلی ادارہ ہے۔) اور ملت ٹریکٹرز فیکٹری (رشتے میں میرے ایک چچا سکندر مصطفی خاں اس فیکٹری کے ما لکوں میں سے ایک ہیں۔ میرے والد کے چھوٹے ماموں بشیر اے خاں مرحوم کے فرزند۔) کے سامنے سے گزرتے دادو نہر کا پل کراس کرکے لاڑکانہ۔۔۔ موئن جو دڑو شاہراہ پر ہو لئے ہیں۔
دادو نہر سے موئن جو دڑو پندرہ منٹ کی مسافت ہے۔سڑک پر رش زیادہ نہیں ہے۔ زمین زرخیز اور فضاء کثافت سے پاک ہے۔ سڑک کے اطراف گندم کے کھیت ہیں اور کہیں کہیں آم کے باغات۔ شاداب زمین کے بیچ دوڑتی سڑک موئن جو دڑو کی حدود میں داخل ہوتی ہے۔ موئن جو دڑو میوزیم کا سائن بورڈ دیکھ کر جیسے جیپ خود ہی رک گئی اور ہم میوزیم کی عمارت میں چلے آئے ہیں۔
میوزیم نہایت احسن انداز میں ساڑھے چار ہزار سال سے زیادہ پرانی تاریخ تصاویر اور تحریر کی صورت بیان کرتا ہے۔ کھدائی کے دوران ملنے والی مختلف اشیاء، کھلونے، مختلف اقسام کے پتھر، آریائی نسل کے زیرِ استعمال برتن، مرد و خواتین کے زیرِ استعمال لباس، شکار اور تعمیر کے دوران استعمال ہونے والے اوزار، مورتیاں وغیرہ۔ تصویری گیلری کی تو بات ہی کمال ہے۔ دورانِ کھدائی مختلف مراحل کی تصاویر، تحقیق اور مشکلات کی دلچسپ کہانی کیمرے کی آنکھ سے دکھائی گئی ہے۔ یہ تصویری کہانی اس جہد کی عکاسی کرتی ہے جو انسانی محنت نے اس شہر کو تلاش کرکے دنیا کو دکھائی ہے۔
میوزیم دیکھنے کے بعد اس کھنڈر شہر میں اتریں تو اس اجڑے شہر کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے اور دیکھنے کی دلچسپی بھی بڑھ جاتی ہے البتہ ایک چیز سمجھ سے بالا ہے اور وہ ہے یہاں کی مہروں پر کندہ الفاظ اور لکھائی۔ جدید دور کا انسان اپنی تمام تر جدت اور دستیاب وسائل کے باوجود ان 5 ہزار سال پرانے لوگوں کی تحریر سمجھنے، پڑھنے میں ناکام ہے۔ ہاں ایک ہی ہے جو اس تحریر کو جانتا ہے، سندھو۔۔ مگر وہ بہترین راز دان ہے۔
ہمارے سامنے چار ہزار پانچ سو سال سے بھی زیادہ پرانی اجڑی بستی۔ ”موئن جودال ڑو یا مردوں کا ٹیلہ۔“ ہے۔ ہم میں سے کوئی بھی پہلے یہاں نہیں آیا ہے۔ باس بولے؛ ”یہ شہر میٹرو پول طرز زندگی کا ثبوت دیتا ہے۔ پکی گلیاں، نکاس کا بہترین نظام، پیتل کے باٹ اور لوہے کے اوزار۔ کمال فنکار لوگ تھے۔ سندھو نے انہیں زندگی بھی دی اور عقل بھی۔ 1925ء میں اس شاندار دریافت کا اعلان ہوا جس کا قدیم ادب میں کوئی ذکر نہ تھا۔ یہ دو تہذبیں ہیں ایک سندھو کنارے اور دوسری راوی کے کنارے۔ یہاں کئی منزلہ مکان پکی اینٹ سے تعمیر شدہ تھے۔ رہائشی سہولیات مثلاً پانی، نکاسی آب، غسل خانے، اور بیت الخلاء موجود تھے۔ شہر کا نقشہ لاجواب تھا۔ سڑکیں وسیع اور گلیاں چھوٹی تھیں۔عمارتیں چار سو گز بائی دوسو گز مستطیل شکل کی تھیں۔ ایسا عمدہ اور نفیس شہری انتظام دنیا کی کسی دوسری تہذیب میں دیکھنے میں نہیں ملا۔ مصر کے قدیم شہر ان کے حکمرانوں کے کوہ پیکر مقبروں، عظیم معبدوں کے مقابلے فن تعمیر کے لحاظ سے ہیچ تھے۔ سمریا اور، بابل کے عالی شان شہر بغیر کسی منصوبہ بندی کے آباد کئے گئے۔ ان تمام شہروں کی سڑکیں روم، پیرس، لندن اور بعد کے ہندوستانی شہروں کی طرح بے ترتیبی کا نمونہ تھیں جبکہ اس کے مقابلے میں وادیِ سندھ کی تہذیب کے شہر حیرت انگیز طور پر بہترین منصوبہ بندی کے عکاس تھے۔زاویہ قائمہ بناتی سڑکیں، پانی کی نکاسی کا اعلیٰ انتظام، عمدہ پکی اینٹ کا استعمال، ایسا شعور تو شاید اٹھارویں صدی عیسوی کے یورپ کو بھی نہ تھا۔“
داستان گو نے بتایا؛ ”سندھی زبان کے لفظ موئن جو دڑو کا مطلب ہے”مردوں کاٹیلہ“۔mount of dead یہاں جو کچھ ہے قیاس آرائیوں کے سوا کچھ نہیں۔ دوسرے الفاظ میں جدید دور کی بے بسی۔ خیال ہے کہ ہندوستان کی سب سے قدیم آریائی تہذیب دریائے سندھ کے کنارے ہی پروان چڑھی۔ موئن جو دڑو صاف ستھرا کھنڈر ہے، نہ مٹی نہ دھول۔ پچھلے کئی ہزار سالوں سے یہاں کوئی نہیں رہتا لیکن اس کے باوجود یہاں کی تاریخ، ثقافت پر تحقیق کئی سو سالوں سے جاری ہے اور آنے والے سالوں میں بھی جاری رہے گی۔
تاریخ بتاتی ہے کہ سندھو کے کنارے ایک اور قدیم بستی اور تہذیب ”مہر گڑھ“ (بلوچستان) بھی آباد تھی جس کے بارے خیال کیا جاتا ہے کہ یہ موئن جو دڑو سے بھی پرانی تھی۔ شاید یہ دنیا کی قدیم ترین تہذیب مانی جاتی ہے۔ سات سو (700) قبل مسیح کی بستی مہر گڑھ کے کھنڈر بلوچستان کی ”کچی پلین“ (جو ”بولان پاس“ کے قریب ہے،) سے ملے ہیں جو آج کے کوئٹہ، سبی اور قلات شہروں کے درمیان ہے۔ فرانسیسی ماہر آثار قدیمہ ”جین فرانکوس جار“ (jean francois jarr) اور اُن کی ٹیم نے یہ کھنڈر 1974ء میں دریافت کئے تھے۔ یہاں کھدائی کا کام دو مرحلوں میں کیا گیا ہے۔ پہلا مرحلہ 1974ء تا 1988ء اور دوسرا 1997ء تا 2000 ء۔یہاں سے ملنے والی اشیاء 6 مختلف ٹیلوں سے ملیں ہیں۔ مہر گڑھ تہذیب کا برباد شہر چار سو پچانوے (495) ایکڑ یا 2 کلو میٹر کے رقبے پر پھیلا ہے۔ آثار قدیمہ کے ماہرین کے مطابق یہ 7000 تا 5500 قبل مسیح میں آباد تھا۔ یوں اسے دنیا کی سب سے قدیم ترین تہذیب شمار کیا جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق یہاں بسنے والوں کا شمار دنیا کے اولین کسانوں میں ہوتا ہے۔
جین فرانکو کہتے ہیں؛ ”مہر گڑھ ایک آزاد تہذیب تھی۔ یہاں کھیتیاں اگائی جاتی تھیں اور ان کی مماثلت انڈس ویلی تہذیب سے تھی لیکن بلا شبہ یہ موئن جو دڑو سے پہلے کی تہذیب تھی۔ بہر حال پتھر کے زمانے سے اس کا کوئی سروکار نہیں ہے۔“
کچھ دیگر ماہرین آثار قدیمہ جن میں ”لیوکس، ہمفل، رومسو ( lukace, hemphil, romeso) وغیرہ شامل ہیں کا خیال ہے؛ ”یہ لوگ مویشی پالتے اور کھیتی باڑی کرتے تھے۔“ یہ ماہرین بھی مہر گڑھ تہذیب کو وادیِ سندھ کا حصہ ہی سمجھتے ہیں۔ مہر گڑھ واسی کچی اینٹ سے بنے مکانوں میں رہتے تھے۔ غلہ اسٹور کرتے، تانبے کے اوزار بناتے، جو، گندم، کجھور وغیرہ اگاتے، بھیڑ بکریاں اور مویشی پالتے تھے۔“
مہر گڑھ کے قبرستان سے مردوں کی ہڈیوں کے علاوہ چوڑیوں کے ٹکڑے، ہڈیوں کے اوزار، سیپ، چونے، فیروزہ سے بنے زیورات بھی ملے ہیں۔ اس کے قریب ہی ایک اور کھنڈر ”قلی گل محمد“ دریافت ہوا ہے جو غالباً 5000 سال قبل مسیح کا ہے۔ 2001ء میں ماہرین کو یہاں سے (19) انیس انسانوں کی باقیات ملی تھیں۔ ان ڈھانچوں کی مدد سے ماہرین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہ لوگ دندان سازی کے علم سے بھی واقف تھے۔ اس تہذیب کو 7000 قبل مسیح سے 2000 قبل مسیح تک 7 ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
ماہرین کے مطابق ”ہندوستانی تہذیب کی بہت سی قدیم آبادیاں وادیِ سندھ کی تہذیب سے بہت بعد میں وجود میں آئی تھیں۔“
موئن جو دڑو کی دریافت کو اب تقریباً سو (100) برس ہونے لگے ہیں۔ وادیِ سندھ کی تہذیب کے ان کھنڈرات یا باقیات کو انسانی تہذیب کی گراں قدر میراث کہا اور سمجھا جاتا ہے۔ یہ قدیم تہذیب کی آبادکاریوں میں سب سے بڑی بھی ہے۔ ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق 2600 ق م میں یہ گنجان آباد شہر تھا۔ اس شہر کی کشادہ سڑکوں اور تنگ گلیوں کے گرد سینکڑوں عمارات تعمیر کی گئی تھیں، جہاں ہزاروں لوگ بستے تھے۔ یہ بندوبست شہری منصوبہ بندی اور انسانی ترقی کی عمدہ مثال ہے۔ موئن جو دڑو کے کھنڈرات چالیس (40) کلو میٹر میں پھیلے ہیں۔ آثار قدیم کے ماہرین کو انیسویں صدی کے آغاز میں اس کے آثار اور نشانات ملے، جس کے بعد ان کھنڈرات کو کھوجنے اور حقائق جانے کا موقع ملا۔
گذشتہ ایک صدی کے دوران بہت سے ملکی اور غیر ملکی ماہرین اس شہر کی الجھی گتھیاں سلجھانے میں مصروف رہے ہیں۔ ان میں ایک جرمن ماہر آثار قدیمہ ”پروفیسر مائیکل جانسن“ بھی ہیں۔ وہ کہتے ہیں؛ ”جب یہاں سے دریافت ہوئی پہلی اینٹ میں نے دیکھی تو مجھے لگا کہ میں جرمنی میں ہی بیٹھا ہوں۔ اس طرح کی اینٹیں آج جرمنی اور یورپ میں تیار ہوتی ہیں جو ساڑھے چار ہزار سال پہلے موئن جو دڑو میں تیار کی جاتی تھیں۔ پینے کا پانی حاصل کرنے کے لئے دو طرح کے کنویں اور پانی کی نکاسی کا انتظام انتہائی بے مثل ہے۔ نالیوں کا جال بچھایا گیا تھا جس کی مثال آج بھی بڑے بڑے شہروں میں نہیں ملتی ہے۔میٹھے پانی کا شاندار نظام تھا اور ایسے کنویں پندرہ (15) میٹر تک گہرے تھے۔ حمام کی طرز کے غسل خانے تھے اور پانی کے نکاسی کا بھی بہترین نظام تھا۔ اس قسم کے سیوریج کی اور کوئی مثال دنیا میں آج تک نہیں ملی ہے۔ پانی کی نکاسی کے لئے استعمال کئے جانے والے پائپ بھی ملے ہیں۔ گندا پانی دریا میں پھینکا جاتا تھا۔ ہزاروں سال پہلے بھی غسل کا رواج عام تھا اور یہاں کے لوگ حفظان صحت کا کافی خیال رکھتے تھے۔ کمیونٹی تالاب بھی ملا ہے اور اس تالاب کے پانی کی نکاسی کے لئے سرنگ نما نالی تعمیر کی گئی تھی۔ موئن جو دڑو کو دیکھ کر اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اس دور کی پکی اینٹ آج کی تیار کردہ پکی اینٹ سے کہیں بہتر تھی۔ حیرانگی کی بات یہ ہے کہ دونوں ایک ہی طرح کی مٹی سے بنائی گئی ہیں۔ بہت سے ٹاؤن پلانرز کا خیال ہے کہ موئن جو دڑو میں آب رسانی اور نکاسی آب کا نظام آج کے کراچی اور دوسرے بڑے شہروں کی نسبت بدرجہا بہتر تھا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ موئن جو دڑو کا قدیم شہر سیم کے پانی میں ڈوبتا جا رہا ہے۔ یہ مایوس کن ہے۔ یہ اسی زمین میں ڈوب رہا ہے، جس سے اسے تعمیر کیا گیا تھا۔“ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ’بُک ہوم‘ نے شائع کی ہے، جسے ادارے اور مصنف کے شکریے کے ساتھ سنگت میگ میں قسط وار شائع کیا جا رہا ہے. سنگت میگ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔