قذاقوں کی دنیا

ڈاکٹر مبارک علی

کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سکندر نے ایک قذاق کو گرفتار کیا، جو سمندر میں تاجروں کے جہازوں کو لوٹا کرتا تھا، لیکن سزا دینے سے پہلے اُسے خیال آیا کہ قذاق سے مکالمہ کیا جائے اور اُس سے پوچھا جائے کہ اُس نے یہ پیشہ کیوں اختیار کیا۔ جب سکندر نے قذاق سے یہ سوال کیا تو اُس کا جواب تھا، ”میرا پیشہ بھی قذاقی، تیرا پیشہ بھی قذاقی۔۔ فرق یہ ہے کہ میں ایک چھوٹا قذاق ہوں اور تو ایک بڑا قذاق ہے کیونکہ تیرے پاس طاقت ہے، فوج ہے، اس لیے تو مجھ سے زیادہ لوٹ کھسوٹ کرتا ہے‘‘۔ سکندر نے اس کا جواب سن کر اُس کی سزا معاف کر دی اور اُسے رہا کر دیا۔

قدیم تاریخ سے لے کر طویل عرصے تک معاشرے میں تاجروں کا سماجی رُتبہ کم تر تھا۔ ان کے بارے میں تاثر یہ تھا کہ یہ کِسانوں، مزدُوروں اور دَست کاروں کی طرح محنت سے دولت نہیں کماتے، لیکن کسی نے اس طرف توجہ نہیں دی کہ یہ تاجر تھے، جو منافع کی خاطر ایک ملک سے دوسرے ملک جاتے تھے۔ خطرناک راستوں پر سفر کرتے ہوئے مقامی راہ زنوں کی لوٹ مار سے اپنے ذاتی مال سے محروم ہو جاتے تھے۔ انہوں نے نئے راستے دریافت کیے۔ دوسری قوموں سے تجارتی رابطے بنائے۔ ایک دوسرے کے کلچر کو آپس میں روشناس کرایا اور تجارتی اشیا کو دُور دُور تک پہنچایا۔

جب مون سون کی ہواؤں نے سمندر کی لہروں کا رُخ بدلنا شروع کیا تو تاجروں نے بَرّی راستوں کے بجائے سمندر میں جہازوں کے ذریعے تجارتی مال کو دوسروں تک پہنچایا۔ جب سمندر میں تجارتی جہازوں کی آمد و رفت شروع ہوئی تو اُس کے ساتھ ہی بحری قذاق بھی سمندر میں سرگرم ہوئے، جس کی وجہ سے بحری سفر بھی محفوظ نہیں رہا۔

رُوم شہر میں گندم کی کمی پوری کرنے کے لیے اسکندریہ سے گندم لائی جاتی تھی۔ اکثر رُومی جہازوں کو بحری قذاق لوٹ لیتے تھے۔ اس کی وجہ سے شہر میں مہنگائی ہو جاتی اور نوبت فاقوں تک پہنچ جاتی تھی۔ لہٰذا بحری قذاقوں کا خاتمہ کرنے کے لیے رُومی جنرل پومپے نے جہاز روانہ کیے، جنہوں نے لڑائی کے بعد قذاقوں کا خاتمہ کر کے بحری راستے کو محفوظ بنایا۔

رُومی سلطنت میں قذاقوں کی سرگرمیوں کا اندازہ اس طرح بھی لگایا جا سکتا ہے کہ جب جولیس سیزر کو قذاقوں نے گرفتار کر لیا اور اُس کی رہائی کے لیے تاوان کا مطالبہ کیا اور جب قذاقوں کا نمائندہ رقم لینے کے لیے روانہ ہوا تو سیزر نے کہا کہ تم نے میری رہائی کی کم قیمت لگائی ہے۔ کیونکہ میں رُومی سلطنت کی اہم شخصیت ہوں، اس لیے زیادہ رقم طلب کرو۔

ایک دن جب سیزر جہاز میں ایک جانب بیٹھا ہوا لکھنے میں مصروف تھا تو جہاز کے عملے نے شوروغُل مچانا شروع کر دیا۔ اس پر سیزر نے اُنہیں ڈانٹ کر کہا کہ ’خاموش رہو کیونکہ میں اس وقت لکھنے میں مصروف ہوں‘ اس پر جہاز کے عملے نے قہقہے لگا کر کہا کہ ’تم ہمارے قیدی ہو کر ہمیں حُکم دے رہے ہو۔‘ اس پر سیزر نے کہا کہ ’میں رہا ہونے کے بعد سب سے پہلے تمہیں پکڑوں گا اور پھانسی دوں گا۔۔‘ اور ہوا بھی یہی کہ رہائی کے بعد اُس نے قذاقوں کے جہاز کا پیچھا کیا اور اُنہیں گرفتار کر کے پھانسی پر لٹکایا۔

عربوں کی فتحِ سندھ کے بارے میں کئی وجوہات بیان کی جاتیں ہیں، لیکن ایک بنیادی وجہ یہ تھی کہ خلیج کے عرب تاجروں کے لیے ویبل کے راستے سے گزر کر سری لنکا اور چین جانا خطرناک تھا۔ اس لیے سندھ کی فتح کے بعد عرب تاجروں کے لیے سری لنکا اور چین تک جانے کا راستہ محفوظ ہو گیا۔ امریکہ کی دریافت اور کریبیئن جزائر تک رسائی نے قذاقوں کی ایک بڑی تعداد کو جنم دیا۔

جنوبی امریکہ پر اسپین کا قبضہ تھا، جہاں چاندی کی کانوں سے بڑی مقدار میں چاندی حاصل کر کے جہازوں میں بھر کر اُسے اسپین بھیجا جاتا تھا۔ ان جہازوں کو لوٹنے والے دو قسم کے قذاق تھے۔ ایک عام قذاق تھے، جنہیں حکومت کی سرپرستی حاصل تھی، جو کریبیئن آئی لینڈ میں پناہ لیتے تھے اور اسپین کے جہازوں کو لوٹتے تھے۔ دوسرے پروٹیسٹنٹ قذاق تھے، جس کی مثال DRAKE کی ہے، جس نے کئی ہسپانوی جہازوں کو مال و دولت کی لالچ میں لوٹا تھا اور جسے ملکہ الزبتھ اوّل نے Knight بنا دیا تھا۔ اسپین کی حکومت نے قذاقوں کا خاتمہ کرنے کے لیے کئی جنگیں لڑیں۔ شکست کھانے والے قذاقوں کو پھانسی کی سزائیں بھی دیں گئی، لیکن ان کا مکمل خاتمہ نہیں ہو سکا۔

لوٹ مار کے علاوہ قذاقوں نے جنگی معاملات میں بھی مہارت حاصل کر لی تھی، اس کے علاوہ اُن کی تعداد میں اس لیے بھی کمی نہیں آئی کیونکہ جب اسپین کی بحریہ میں ملاحوں پر سختی ہوتی تھی تو وہ فرار ہر کر قذاقوں کے ساتھ مل جاتے تھے۔ قذاقوں کے جہاز پر سختیاں اور پابندیاں نہیں تھیں۔ ہر قذاق جہاز کے عملے سے جڑا ہوا تھا، کیونکہ گرفتاری کی صورت میں اُسے موت کی سزا مِلتی تھی۔

قذاقوں کا ایک اور بڑا گروہ شمالی افریقہ کے سمندر میں تھا۔ یہ کورسیرز (Corsairs) کہلاتے تھے۔ ان میں ایک بڑی تعداد اُن مسلمانوں کی تھی، جنہیں اُندلس سے نکالا گیا تھا۔ یہ اہلِ یورپ کے سخت دشمن تھے۔ نہ صرف اُن کے تجارتی جہازوں کو لوٹتے تھے بلکہ اسپین اور فرانس کے سرحدی علاقوں پر حملے کر کے لوگوں کو غلام بنا کر لے آتے تھے۔ تیونس الجزائر لیبیا اور مَراکش ان کی پناہ گاہیں تھیں۔ قیدیوں سے یہ تاوان وصول کرتے تھے۔ اگر کوئی تاوان نہیں دے پاتا تو پھر اُسے غلام بنا کر محنت و مزدُوری کے لیے استعمال کرتے تھے۔ اگرچہ یورپی طاقتوں نے ان کے خاتمے کے لیے کوششیں تو کیں مگر وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ یورپ سے بحری لڑائیوں میں خیرالدین بار بروسہ نے اہم کردار ادا کیا۔ اسے عثمانی سلطان سلیمان قانونی کی سرپرستی حاصل تھی۔

ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ تاریخ میں تاجروں کا اہم کردار رہا ہے کیونکہ انہوں نے بَرّی راستوں کے خطرات کا بھی سامنا کیا اور سمندری قذاقوں کا بھی، لیکن سمندری قذاقی آج بھی کہیں نہ کہیں اُبھرتی نظر آتی ہے۔ جیسے حال ہی میں صومالیہ کے قذاقوں نے روایتی سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے بحری راستوں کو غیر محفوظ کر دیا تھا۔

بشکریہ: ڈی ڈبلیو اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close