دنیا بھر میں ماحولیاتی تبدیلیوں نے سب سے زیادہ جن شعبوں کو متاثر کیا ہے، ان میں زراعت سرفہرست ہے۔ ایک طرف گرمی میں ہوش ربا اضافہ ہوا ہے تو دوسری جانب بارشوں کے پیٹرن میں تبدیلی سے کہیں سیلاب تو کہیں خشک سالی سے کھڑی فصلیں تباہ ہونا اب ایک معمول بن چکا ہے۔ جس کے نتیجے میں افریقی ممالک کے بعد ایشیا میں بھی شدید غذائی قلت کے بادل منڈلانے لگے ہیں۔ پاکستان بھی اس خطرے کی زد میں ہے
اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے سائنسدان کئی برس سے پودوں کو ماحولیاتی اثرات سے بچانے کے نئی تکنیکوں پر تحقیق کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے اکتوبر کے اواخر میں مؤقر جریدے ’سائنس ڈائریکٹ‘ میں ایک تحقیق شائع ہوئی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ سائنسدانوں نے پودوں کی جڑوں میں ایک خاص رکاوٹ دریافت کی ہے، جسے ’لگنن بیریئر‘ کہا جاتا ہے۔ اس کا تعلق پودوں کی جڑوں کے اینڈو ڈرمس میں موجود ڈائی ریجنٹ پروٹین کمپلیکس (ڈی آر) سے ہوتا ہے، جو مٹی سے غذائی اجزاء اور پانی کے جذب کو کنٹرول کرتی ہے
اس دریافت سے آب و ہوا سے متعلق ایسی فصلیں تیار کرنے میں مدد مل سکتی ہے، جن کو کم پانی اور کیمیائی کھاد کی ضرورت ہوتی ہے
اس تحقیق کے مصنف یونیورسٹی آف نوٹنگھم کے اسکول آف بائیو سائنسز سے وابستہ سائنسدان گیبریل کاستریلو کا کہنا ہے کہ ان کی تحقیق کا مرکز ایسی فصلوں کی تیاری ہے، جو کم پانی اور کھاد استعمال کرتے ہوئے شدید موسمی حالات کا مقابلہ کر سکیں، ”دوسرے لفظوں میں آپ انہیں ’کلائمیٹ پروف پلانٹس‘ بھی کہہ سکتے ہیں، جن پر ماحولیاتی تبدیلیاں زیادہ اثر انداز نہیں ہوتیں۔‘‘
اس سلسلے میں ایک اہم نکتہ فصل کی حفاظت میں پودوں کی جڑوں کے کردار کو سمجھنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گیبریل کاستریلو کہتے ہیں کہ ان کی تحقیق کو سمجھنے کے لیے پہلے پودوں کی جڑوں کی فعالیت کو سمجھنا ہوگا
وہ بتاتے ہیں ”پودوں کی جڑیں زمین سے پانی اور غذائی اجزاء کو جذب کرنے اور پھر انہیں اوپر پودوں کے تنوں اور پتوں تک منتقل کرنے کا دوہرا کام کرتی ہیں۔ یہ سارا عمل انتہائی باریک جڑوں کی تہہ کے ذریعے سر انجام پاتا ہے، جنہیں اینڈو ڈرمس کہتے ہیں۔ ان اینڈوڈرمس میں لگنن بیریئر نامی رکاوٹ ہوتی ہے، جو جڑوں سے پانی اور غذائی اجزاء کے غیر منظم اخراج کو روکتا ہے“
اینڈوڈرمیس کے اندر، لگنن سے بنی ایک رکاوٹ موجود ہے، وہی مادہ جو لکڑی میں پایا جاتا ہے، جو جڑ میں محلول اور پانی کی بے قابو حرکت کو روکنے کے لیے ایک ناقابل تسخیر رکاوٹ کے طور پر کام کرتا ہے۔ یہ رکاوٹ خلیوں کے درمیان ایک مضبوط مہر بناتی ہے، اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ جڑوں کے ذریعے غذائی اجزاء اور پانی کے اخراج کا راستہ اینڈوڈرمیس کے خلیوں کے ذریعے ہوتا ہے۔ یہ میکانزم مکمل سیلولر کنٹرول فراہم کرتا ہے کہ کون سے مادے جڑوں کے ذریعے پودے میں داخل ہوتے ہیں اور باہر نکلتے ہیں۔
اس تحقیق نے لگنن جمع کرنے والی مشینری کے نئے اجزاء کی نشاندہی کی ہے، جو جڑ کے اینڈوڈرمس میں واقع ڈائریجنٹ پروٹین (DPs) کے کام پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔ یہ پروٹین دیگر بیان کردہ جڑ ریگولیٹری اجزاء کے ساتھ ہم آہنگی کے ساتھ کام کرتے ہیں تاکہ اینڈوڈرمیس میں لگنن کی درست تعداد کو منظم کیا جا سکے، جس سے پودے کو یہ یقینی بنانے میں مدد ملتی ہے کہ وہ مٹی سے غذائی اجزاء کا زیادہ سے زیادہ توازن حاصل کرے
اس تکنیک کو سمجھنے سے ان کی ٹیم کو یہ خیال آیا کہ جینیاتی انجینئرنگ سے پودوں کی جڑوں سے پانی اور دیگر اجزاء کے اخراج اور انجذاب کو مکمل کنٹرول کیا جا سکتا ہے، جس میں ڈائی ریجنٹ پروٹین کمپلیکس کا مرکزی کردار ہوگا
گیبریل کاستریلو بتاتے ہیں کہ ان کی تحقیق سے سامنے آنے والی معلومات کو پودوں کی جینیات میں رد و بدل کے لیے استعمال کیا جائے تو ایسی فصلیں اگانا ممکن ہوگا، جو کم پانی اور کھاد استعمال کر کے شدید موسمی اثرات کا مقابلہ کر سکیں گی۔ اس طرح ماحولیاتی تبدیلیوں سے پیدا شدہ غذائی قلت کی صورتحال پر قابو پانا ممکن ہوگا
غذائی قلت اور پاکستان میں موسمی اثرات سے محفوظ فصلوں کا مستقبل
ڈاکٹرثمر رضا اسلامیہ یونیورسٹی بہاورلپور سے باحیثیت محقق وابستہ ہیں۔ ان کی تحقیق کا مرکز خشک سالی سے فصلوں کی پیداوار پر پڑنے والے اثرات ہے
ڈاکٹرثمر رضا یونیورسٹی آف نوٹنگھم کے سائنسدانوں کی تحقیق کو مستقبل میں غذائی قلت میں کمی کی ایک نوید قرار دیتے ہیں کیونکہ اس میں جینیاتی انجینئرنگ کے ذریعے فصلوں کو خشک سالی کے اثرات سے بچانا ممکن ہوگا
وہ کہتے ہیں ”میری معلومات کے مطابق پاکستان میں فصلوں کو موسمی اثرات سے بچانے پر کافی تحقیق ہو رہی ہے۔ اگر کوئی زرعی تحقیقی ادارہ یا یونیورسٹی اس تحقیق کو آگے بڑھائے تو یہاں بھی ایسی فصلیں اگانا ممکن ہوگا، جو موسمی تبدیلیوں یا قدرتی آفات سے زیادہ متاثر نہیں ہوں گی“
ایوب ایگریکلچر ریسرچ انسٹیٹیوٹ فیصل آباد میں ڈائریکٹر آف ایگرونومی ڈیپارٹمنٹ کی ذمہ داریاں سر انجام دینے والے ڈاکٹر نوید صدیقی کا کہنا ہے کہ 2022 میں تاریخی سیلاب اور 2023 میں متعدد علاقوں میں غیر معمولی ژالہ باری سے گندم اور دیگر کھڑی فصلیں تباہ ہو گئی تھیں۔ پاکستان میں فی الوقت 240 ملین افراد کو غذائی قلت کا سامنا ہے اور یہ تعداد اگلے برس کئی گنا زیادہ ہونے کا خدشہ ہے۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے کلائی میٹ پروف فصلیں اگانا ضروری ہیں، جو بیرونی اثرات کے خلاف مزاحمت کی صلاحیت رکھتی ہیں
ڈاکٹر نوید صدیقی کے مطابق مارچ اور اپریل 2023ء میں ایک وسیع رقبے پر ژالہ باری ہوئی، جس میں اولوں کا سائز غیر معمولی تھا۔ اس سے بڑے پیمانے پر کھڑی فصلیں تباہ ہوئیں اور اگلے برس فصل اگانے کے درست وقت پر ایک سوال نشان آ کھڑا ہوا
ڈاکٹر نوید کے مطابق ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث موسم سرما کا دورانیہ کم ہو گیا ہے اور بارشیں وقت سے پہلے ہونے لگی ہیں، جن سے کم تعلیم یافتہ کسانوں کو مسائل کا سامنا ہے کہ فصل کو کاشت کے لیے کون سا وقت مناسب ہے
فیصل آباد ایگریکلچر ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں ایسے بیجوں پر تحقیق کی جا رہی ہے، جنہیں دیر سے بویا جائے اور وقت سے پہلے تیار فصل حاصل کی جا سکے تاکہ زرعی پیداوار کو قبل از وقت بارشوں، ژالہ باری یا سیلاب کے اثرات سے بچا جا سکے
وہ بتاتے ہیں کہ ایک ایکڑ پر مختلف اقسام کے زیادہ سے زیادہ پودے لگا کر بھی پیداوار کو بڑھایا جا سکتا ہے۔ اس طرح ایک فصل کی کٹائی کے بعد دوسری کے لیے بیڈ تیار کرنے کے بجائے کسان ایک کے بعد دوسری فصل کاٹ کر کم وقت میں زیادہ پیداوار حاصل کر سکتے ہیں۔