سندھ سلطنت: سندھو کی کہانی، اسی کی زبانی (قسط68)

شہزاد احمد حمید

1922ء میں ’انڈین آرکیالوجی سروے‘ کے ماہر سر جان مارشل نے موئن جو دڑو کی باقیات دریافت کیں۔مُردوں کا یہ ٹیلہ اور ماضی کا اجڑا شہر اب یونیسکو کی ورلڈ ہیریٹیج میں شامل ہے۔ اس کی دریافت کو 100 برس مکمل ہو چکے ہیں اور اب تک موجودہ سائیٹ کے ساڑھے پانچ (550) ایکڑ یا بیس (20) مربع میل رقبہ یعنی کل کے صرف 10 فی صد پر ہی کھدائی ہو سکی ہے۔ مطلب یہ کہ ابھی بہت کچھ دریافت ہونا باقی ہے۔ ہزاروں راز ابھی بھی دفن ہیں۔ اس تہذیب کے بارے لوگ کم جانتے ہیں اور شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس پر تحقیق اسلامی تاریخ کے حوالے سے ہی کی گئی ہے۔ مقامی لوگوں کا خیال ہے کہ یہاں سیاحت کو فروغ دے کر مقامی آبادی کے معاشی حالات بہتر کئے جا سکتے ہیں۔ ماضی کی داستان کا چراغ مستقبل میں بھی روشن رہنا چاہیے۔

”یہ تو تم جانتے ہی ہو“ سندھو داستان سناتا جا رہا ہے؛ ”بیل، بھیڑیں، اونٹ اور خچر یہاں عام پائے جاتے ہیں۔ 711ء میں عربوں نے سندھو کے ڈیلٹا سے اوپر کی جانب پیش قدمی کی۔ حجاج بن یوسف نے اپنے بھتیجے محمد بن قاسم کو مختصر سی فوج کے ساتھ سندھ روانہ کیا۔ محمد بن قاسم کا سندھ پر حملہ، راجہ داہر کی شکست، ملتان تک اس کی پیش قدمی اور محمدبن قاسم کا مقامی لوگوں سے حسن سلوک تاریخ کے اوراق کا حصہ ہیں۔ یہی وہ دور ہے جب ہندوستان میں اسلام کی آمد ہوئی، مسجدیں تعمیر ہوئیں اور مقامی لوگوں نے اسلام قبول کیا۔ میں نے اچ شریف میں وہ مسجد دیکھی ہے جس کے بارے خیال کیا جاتا ہے کہ یہ محمد بن قاسم نے تعمیر کی تھی۔ پہلی بار ہندوستان میں بانگ (اذان) کی آواز گونجی“

بعد کی تاریخ میں مغل، منگول، غزنوی، غوری اور افغان یہاں آئے۔ اپنی حکومتیں قائم کیں۔ مغلوں کے بعد یہاں کی مرکزی حکومت کمزور ہوئی، انگریز آئے، تقسیم کیا اور حکومت کرتے رہے۔ 90 سال بعد آزادی آئی اس ملک کا بٹوارہ ہوا۔برصغیر سے 2 آزاد ملک پاکستان اور ہندوستان معرض وجود میں آئے۔ تقسیم ہند نے انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت دیکھی

موئن جو دڑو ائر پورٹ اس ٹیلے سے پندرہ بیس کلو میٹر دور ہے۔ لاڑکانہ کے لئے بھی یہی ایئر پورٹ استعمال ہوتا ہے۔

مردوں کے ٹیلے سے زندوں کی دنیا میں واپس چلے آئے ہیں۔ یقین کریں یہاں تھوڑا وقت ہی قیام کیا جا سکتا ہے۔ کئی بار احساس ہوا کہ ابھی کوئی آریائی کسی گلی، کسی نکڑ، کسی ٹوٹی عمارت سے اچانک نمودار ہوگا اور پوچھے گا ”بھائی جی کون ہو اور کس سے ملنا ہے؟“

ہم جیپ میں بیٹھے اور دادو کو چل دیئے ہیں۔ آج کے ’عمر کوٹ‘ اور ماضی کے ’امر کوٹ‘ کا تذکرہ برصغیر کی تاریخ کا اہم حصہ ہے اس کا ذکر نہ کرنا اس سفرنامے سے ناانصافی ہوگی اور یہ داستان ادھوری رہے گی۔

عمر کوٹ کی کہانی داستان گو کی زبانی: ”عمر کوٹ وہ مقام ہے، جہاں بادشاہ ہمایوں اور ملکہ حمیدہ بیگم کے ہاں ایک اور بادشاہ ’جلال الدین محمد اکبر‘ نے14 اکتوبر 1542ء کو جنم لیا اور تاریخ کے اوراق میں یہ بچہ ’اکبر اعظم‘ کے نام سے جانا گیا ہے۔ اکبر کے دور میں اقتدار میں عمر کوٹ دہلی کے تابع تھا۔ عمر کوٹ قلعہ کے پاس ہی اکبر کی جائے پیدائش کے حوالے سے ایک یادگار بھی موجود ہے لیکن اب یہ دونوں تاریخی جگہوں کی حالت دیکھ کر یہی کہا جا سکتا ہے کہ ہم نے تاریخی ورثہ کو نہ سنبھالنے کی قسم کھا رکھی ہے۔

عمر کوٹ کے قلعے کے درمیان ایک مچان ہے اس کی سیڑھیوں کے دائیں جانب ایک کتبہ نصب ہے، جس پر قلعہ کی تاریخ درج ہے۔ اس قلعہ نے مختلف حکمرانوں کے عروج و زوال کو دیکھا ہے۔ عمر کوٹ کا شہر سومرو گھرانے کے ایک فرد ’عمر سومرو‘ نے 1050ء کے لگ بھگ آباد کیا تھا اور یہی یہاں کا پہلا حکمران تھا۔ تیرھویں صدی میں ایک راجپوت خاندان ’مارسوڈھا‘ نے اس شہر پر اپنا تسلط قائم کیا اور اسی کی اولاد میں ایک حکمران ’رانا پرشاد‘ نے 1541ء میں ہمایوں بادشاہ جو شیر شاہ سوری سے شکست کھا کر یہاں پہنچا تھا، اس کو خوش آمدید کہا اور اپنی پناہ میں لے لیا تھا۔ یہی راجپوت خاندان آج یہاں کا سب سے معزز خاندان ہے۔“

عمر کوٹ کی اہمیت 3 وجہ سے ہی ہے۔ پہلی جائے پیدائش اکبر اعظم، دوسری راناز آف عمر کوٹ اور تیسری عمر ماروی کی داستان۔ اول الذکر ہندوستان کا بادشاہ اور موخر الذکر یہاں کا سابق حکمران خاندان اور تیسری ”عمر ماروی“ کی داستان سندھ کی ثقافت کا اہم جزو ہے۔ کچھ تاریخ دانوں کے مطابق عمر کوٹ کا قلعہ ’عمر سومرو‘ نے تعمیر کروایا تھا۔ اسی دور میں عمر اور ماروی کی داستان مشہور ہوئی۔ روایت کے مطابق عمر بادشاہ نے شہر سے 200 میل دور ایک گاؤں ’گوٹھ بھالوا‘ کی لڑکی کو اغواء کر کے عمر کوٹ کے قلعے میں قید کر دیا۔ عمر اس لڑکی سے شادی کا خواہشمند تھا۔ عمر کی تمام تر کوششوں کے باوجود ماروی شادی کے لئے تیار نہ ہوئی۔ ماروی کسی اور سے محبت کرتی تھی۔ آخر ماروی نے عمر کو بھائی کہہ کر شادی سے انکار کر دیا۔ عمر نے دل شکستہ ہو کر اُس کو رہا کر کے اس کے آبائی گوٹھ بھالوا پہنچا دیا۔ انتقال کے بعد ماروی سندھی ثقافت میں ایک مافوق الفطرت کردار بن کر ابھری ہے۔ ماروی کے آبائی گاؤں میں ہر سال ”ماروی میلہ“ لگتا ہے۔ صحرائے تھر کی اس مشہور لوک داستان کا محور اور مرکز بھی عمر کوٹ کا قلعہ ہی ہے۔ وقت اور تاریخ نے اُسے محبت اور دھرم پر قائم رہنے کی وجہ سے محبت کی دیوی کے طور پر یاد رکھا ہے۔ میں تاریخ کے ان اوراق میں اتنا گم تھا کہ پتہ ہی نہیں چلا کہ کب عمر کوٹ پہنچے۔ باس نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا؛ ”یہ دیکھو کتنی شاندار عمارت ہے۔“

او خدایا۔۔ یاد آیا، یہ عمر کوٹ کا قلعہ ہے جسے گیارہویں صدی عیسوی میں یہاں کے راجپوت حکمران ’رانا امر سنگھ‘ نے تعمیر کیا تھا۔ کہتے ہیں امر کوٹ کی بستی بھی رانا امر سنگھ نے ہی بسائی تھی۔ آج بھی اس خاندان کی جاگیر اس علاقے میں ہے۔ یہیں انگریزوں نے عمر کوٹ کے حکمران ’رانا رتن سنگھ‘ کو تختہ دار پر چڑھایا کہ وہ سندھیوں کے حقوق کی بات کرتا تھا۔ ہندو یہاں اکثریت میں آباد ہیں۔ ٹھاکر راجپوت یہاں کا معزز قبیلہ ہے جس کے سربراہ ’رانا چندر سنگھ‘ کا شمار پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی اراکین اور ذولفقار علی بھٹو کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا تھا۔ مقامی زبان ”ڈھاٹکی“ ہے جو راجستھانی زبان کی شاخ اور ملواڑی سے ملتی جلتی ہے۔ عمر کوٹ قلعہ آج بھی اس دھرتی پر کھڑا وقت اور زمانے کا تنہا مقابلہ کرتے کرتے اجڑنے لگا ہے۔

آج کے عمر کوٹ کی آبادی تقریباً 2 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ یہاں سے کچھ آگے ’چھور‘ کا علاقہ ہے جو فوجی چھاؤنی بھی ہے۔ چھور سے راستہ ’ڈھورو نارو‘ کی طرف جاتا ہے اور سندھ کا یہ صحرائی علاقہ پاک بھارت سرحد کو تقسیم کرتا ہے۔ ’کھوکھراپار مونا باؤ‘ کی راہداری یہیں واقع ہے۔ کھوکھرا پار پاکستان کا اسٹیشن ہے اور مونا باؤ بھارت کا۔ تھر کا یہ صحرائی علاقہ تاریخ کے ساتھ ساتھ سندھ کی ثقافت کا بھی عظیم حصہ دار ہے۔

جب تک آپ عمر کوٹ کا تذکرہ پڑھیں گے ہم دادو پہنچنے والے ہیں۔ دادو پرانے دور میں کلہوڑوں کا دارالحکومت رہا ہے۔ منچھر جھیل بھی یہاں سے زیادہ دور نہیں ہے۔ لاڑکانہ۔۔ دادو کا درمیانی فاصلہ ستائیس (27) کلو میٹر ہے۔ ہم سندھو کے مغربی کنارے واقع شہر ”دادو“ پہنچے ہیں۔۔

سندھو نے سرگوشی کی، ”اب آگے کی میری کہانی سنو۔۔ دادو ماضی میں ’تالپور‘ اور ’کلہوڑا‘ خاندان کا دارالحکومت رہا ہے۔ ان کی سلطنت کے مختلف حصوں میں پھیلے شاندار محلات اور عمارتیں اس دور کی یاد دلاتی ہیں لیکن افسوس کی بات ہے کہ موئن جو دڑو کی طرح یہ سب دلکش عمارات سندھ کی حکومت کی غفلت اور نا اہلی کے سبب اپنے ماضی کی روایا ت کھو بیٹھی ہیں۔ کلہوڑا اور تالپور خاندان کی بہت سی روایات آج کے سندھ میں بڑی اہمیت کی حامل ہیں۔ کلہوڑا خاندان کے آباؤ اجداد ہندو تھے اور بعد میں یہ مسلمان ہوئے۔ ان کی پرانی روایات کی چھاپ آج بھی سندھی ثقافت میں محسوس کی جاتی ہیں۔ اس کے برعکس تالپور بلوچ تھے۔ مغل سلطنت کے زوال کے بعد سندھ میں بلوچوں کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہوتا گیا۔انہی دونوں خاندانوں کے افراد نے پاکستان اور خاص طور پر سندھ کی سیاست میں بھی غیر معمولی کردار ادا کیا ہے۔ کلہوڑا صوفی درویشوں سے نسبت رکھتے ہیں جن کے مزارات سندھ کی دھرتی پر تھوڑے تھوڑے فاصلے پر ہیں جبکہ تالپور اہل تشیع اور سنی دونوں فرقوں میں بٹے ہیں۔“

وہ بات جاری رکھے ہے؛ ”انگریز کے دور حکومت میں سندھ میں آباد تاجروں کو امن و امان کی بہتر صورت حال سے بہت فائدہ ہوا۔ ان کا سرمایہ محفوظ ہوا، کمائی میں اضافہ ہوا اور وہ امیر سے امیر تر ہوتے چلے گئے۔ سڑکیں تعمیر ہوئیں۔ ریلوے کا نظام متعارف ہوا اور سندھ کی عمومی صورت میں بہتری آئی۔ جناب! کراچی نے بھی بہت ترقی کی اور اس شہر کو اونچا مقام دلوانے میں کھو جا، بوہری، میمن اور پارسی برادریوں کا اہم کردار رہا ہے۔1936 ء تک یہ بمبئی ریذیڈنسی کا حصہ تھا۔ شاید اس شہر کی قسمت پہلی جنگ عظیم کے بعد بدلنا شروع ہوئی جب اسے ہندوستانی فوج کی دوسرے ممالک نقل و حمل کے لئے کراچی کو مرکزی حیثیت حاصل ہوئی۔ اس شہر کا پاکستان بننے سے پہلے اور بعد میں مذھبی، لسانی اور فرقہ بندی کے حوالے سے کردار بھی باقی سندھ کے مقابلے مختلف تھا اور آج بھی مختلف ہی ہے۔ سب سے اہم کراچی بڑا تجارتی مرکز بن کر ابھرا اور اس کی اہمیت میں روز بروز اضافہ ہوا۔ پاکستان کی معاشیات میں اس کا مرکزی کردار ہے۔“

مجھے ایک سندھی دوست ایاز سومرو نے بتایا؛ ”جناب! مچھلی کی تجارت پر پلنے والے اس شہر کی آبادی کبھی چند ہزار نفوس پر مشتمل تھی آج اس کا شمار دنیا کے گنجان ترین شہروں میں ہوتا ہے۔ یہ شہر عروس البلاد کہلایا پھر اس کی روشنیوں اور چکا چوند کو کسی کی نظر لگ گئی۔ ’مہاجر قومی موومنٹ‘ تشکیل پائی اور آنے والی اگلی چند دہائیوں میں ظلم، بربریت، تشدد، بھتہ خوری، قتل و غارت کی خوف ناک فضا نے کراچی میں جنم لیا۔ اس شہر کا امن و امان دوبارہ قائم کرنے میں بڑی جانوں کا نذرانہ شامل ہے۔“ (جاری ہے)

نوٹ: یہ کتاب ’بُک ہوم‘ نے شائع کی ہے، جسے ادارے اور مصنف کے شکریے کے ساتھ سنگت میگ میں قسط وار شائع کیا جا رہا ہے. سنگت میگ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close