دریچے سے دور (اردو ادب سے منتخب افسانہ)

رشید امجد

کبھی وہ زمانہ تھا کہ کہانی شفیق ماں کی طرح اسے لوریاں دیتی تھی۔ اس وقت وہ ورکشاپ میں کام کرتا تھا۔ دن بھر ہتھوڑوں کی آوازوں میں کرچ کرچ ہو کر جب شام کو گھر لوٹتا تو کہانی دبے پاؤں اس کے پیچھے آتی اور کسی سنسان سڑک پر اس کا ہاتھ تھام کر یوں اس کے ساتھ ساتھ چلتی جیسے کوئی محبوبہ۔۔۔ شام کو وہ اپنے جیسے کچھ دوستوں کے ساتھ درمیانے درجے کے ایک چائے خانے میں لفظوں کے چھوٹے چھوٹے غبارے بنا کر دن بھر کی تھکن کو ہوا میں اڑا دیتا۔ رات گئے گھر جاتے ہوئے کہانی اس کے ساتھ ساتھ چلتے اپنی سرمئی انگلیوں سے اس کے بدن کو سہلاتی۔ اس سہلانے میں ماں کی ممتا اور محبوبہ کا لمس ایک ساتھ محسوس ہوتا۔ سونے سے پہلے نیند سے بوجھل آنکھوں کے ساتھ وہ کہانی کو دھیرے دھیرے کاغذ کی سیڑھیوں سے اترتا دیکھتا اور پھر جاگنے اور سونے کے درمیان غنودگی میں کہانی اپنے رنگ برنگے آنچل کو اس کے پورے وجود پر پھیلا دیتی اور وہ نیند کے زینے سے اترتا کسی انجانی دنیا میں داخل ہو جاتا۔

اگلے دن پھر وہی معمول۔۔ صبح آنکھیں ملتے اٹھنا، جلدی جلدی چائے کے کپ میں رَس بھگو کر کھانا، سائیکل نکال کر دوڑتے ہوئے اس پر چڑھنا اور ہوٹر کی آواز کے ساتھ ورکشاپ میں داخل ہو جانا۔ پھر وہی روزانہ کی مشق۔۔ ٹوکن لے کر حاضری لگوانا اور ڈیسک پر بیٹھ کر رجسٹر کھولنا۔۔۔ ان تمام موقعوں پر کہانی اس کے قریب ہی ہوتی اور ایک ہی اشارے پر لپک کر اس کے قریب آ جاتی۔ وہ بڑی بےنیازی سے اس کی انگلی پکڑتا کبھی جھٹک دیتا، لیکن کہانی سائے کی طرح اس کے ساتھ لگی رہتی۔

دن کو جب اس کا افسر کسی معمولی سی بات پر اسے جھاڑتا اور اس کے اندر کوئی چیز ٹوٹنے سی لگتی تو کہانی لپک کر اس کے پاس آتی اور اپنی نرم سرمئی انگلیوں سے سہلاتی۔ چند ہی لمحوں میں اس کے اندر بھڑکتا شعلہ ٹھنڈا پڑ جاتا اور وہ سر جھکا کر رجسٹر پر اندراج کرنے لگتا، کہانی دھیرے دھیرے اپنا سنہری جالا اس کے گرد بُنتی رہتی۔ شام کو گھر آتے ہی وہ اس جال کے ایک ایک تار کو کاغذ کے کھردرے جسم پر پھیلا دیتا۔ شام کو کیفے میں گپ شپ کرتے وہ چہکتا تو ساتھی پوچھتے، ’’لگتا ہے آج کچھ ہاتھ آ گیا ہے؟‘‘

وہ مسکراتا۔۔۔ ’’کہانی نے اپنے خزانے میرے لیے کھول دئیے ہیں۔‘‘

رات گئے گھر لوٹتے، سنسان سڑک پر چلتے چلتے، کہانی اچانک کسی دروازے، فٹ پاتھ یا کسی دکان کے تھڑے سے یوں ابھرتی، جیسے دیہاتی دوشیزہ نہاتے ہوئے اچانک تالاب سے باہر آ جائے۔ وہ لمحہ بھر کے لیے ٹھٹھکتا اور پھر اسے اپنے بازوؤں میں دبوچ لیتا۔۔۔ گھر آتے ہی بغیر کھانا کھائے وہ کاغذوں پر جھک جاتا۔

ماں کہتی۔۔۔ ’’پہلے کھانا تو کھا لو۔‘‘

کہانی اس کے وجود پر اس طرح پھیلی ہوتی کہ اسے جواب دینے کی بھی فرصت نہ ملتی، بس سر ہلا ہلا کر رہ جاتا۔۔۔

ماں کھانا رکھ جاتی، لیکن وہ سر نہ اٹھاتا۔

بہت دیر بعد جب وہ کاغذ کے آخری سرے پر اپنے دستخط کرتا تو کھانا جم چکا ہوتا۔ وہ بے زاری سے سر ہلاتا تو کہانی کھلکھلا کر ہنس پڑتی۔ ہنسی کی پھوار میں ٹھنڈا کھانا بھی اسے کسی بڑی دعوت کی طرح محسوس ہوتا۔

یہ وہ دن تھے، جب اس کی خواہشیں قدم قدم پر دم توڑتی تھیں۔ چیزیں اور لوگ آنکھیں مارتے اس کے پاس سے گزر جاتے تھے لیکن وہ نہ کسی چیز کو لے سکتا تھا نہ چھو سکتا۔ بس دیکھتے رہنا ہی اس کا مقدر تھا۔۔۔ جوان بہنوں کے بوجھ اور بیوہ ماں کی انتظار کرتی کھلی آنکھوں نے اس کے کندھوں کو جھکا دیا تھا۔ وہ کسی کو اپنا دکھ نہیں بتا سکتا تھا۔ بس ایک کہانی تھی، جو دکھ کے ان لمحوں میں اس کی رفیق تھی۔ اس کی رفاقت میں اسے مامتا کی ٹھنڈک محسوس ہوتی۔ کبھی کبھی جب کسی رنگین آنچل کو دیکھ کر اس کے اندر ایک لاوا سا پھیلتا تو کہانی اپنی نرم ٹھنڈی چھاؤں سے شانت کر دیتی، وہ اس سے مکالمہ کرتا۔

’’میری کائنات یہی ہے۔۔۔ یہی بے بسی؟‘‘

کہانی مسکراتی۔۔۔ ’’نہیں۔۔۔ سبھی راستے کھلے ہیں۔‘‘

وہ مایوسی سے سر ہلاتا۔۔۔ ’’لیکن میرے لیے کوئی راستہ نہیں ہے۔ سارے راستے دوسروں کے لیے ہیں۔‘‘

کہانی کہتی۔۔۔ ’’راستے متعصب نہیں ہوتے۔ ان کی بانہیں سب کے لیے کھلی ہوتی ہیں۔ بس کوئی آنا بھی چاہئے۔‘‘

’’لیکن کیسے آئے۔۔۔ کوئی کیسے آئے؟‘‘ وہ چیختا۔

کہانی آہستگی سے اس کا کندھا سہلاتی۔۔۔ ’’اپنے آپ کو قابو میں رکھو۔‘‘

کہانی کے اسی حوصلے نے اسے ہمت دلائی اور وہ کسی کو بتائے بغیر مقابلے کے امتحان میں بیٹھ گیا۔ دھندلاہٹوں، مایوسیوں، امیدوں اور طرح طرح کے خوابوں کے درمیان اس نے امتحان دیا۔ انٹرویو میں گیا اور ایک دن اچانک غیرمتوقع طور پر اسے کامیابی کی اطلاع ملی۔

اس شام وہ اور کہانی خوب کھلکھلا کر ہنسے اور دیر تک ہنستے رہے۔ وہ دونوں کئی صفحوں پر لوٹ پوٹ ہوئے۔ نئی ملازمت کے پہلے دن دفتر جاتے ہوئے اس نے کہانی سے کہا۔۔۔ ’’میرا تمہارا ساتھ اَن مٹ ہے۔‘‘

کہانی مسکرائی۔۔۔

زندگی کا نیا دور شروع ہو گیا۔ نئی ملازمت میں تنخواہ کے علاوہ بھی بہت کچھ تھا۔ چند ہی سالوں میں ماں کی انتظار کرتی تھکی آنکھوں میں نئی چمک آ گئی۔ بہنیں بیاہ کر اپنے گھر چلی گئیں۔ ماں شادی کے لیے کہتی تو وہ انکار میں سر ہلا دیتا اور چپکے سے کہانی سے کہتا، ’’میرے لیے تو سب کچھ تم ہی ہو۔‘‘

لیکن ماں نے اس کی شادی کر دی۔ بیوی اچھی پڑھی لکھی عورت تھی۔ اس کے ساتھ کہانی کا بھی احترام کرتی تھی۔ اسے جو ڈر تھا کہ کہانی اور بیوی ایک ساتھ کیسے رہیں گے، تو ایسا کچھ نہ ہوا۔۔۔ اس نے اطمینان کا سانس لیا۔۔۔ کہانی اب بھی اس کے ساتھ تھی اور بیوی سے محبت کرنے کے باوجود بہت سے جذبے اور باتیں اب بھی ایسی تھیں، جنہیں وہ صرف کہانی ہی سے کہہ سکتا تھا۔ دونوں اب بھی ایک دوسرے کے راز دار تھے۔

یہ راز داری۔۔۔ سرگوشیاں۔۔۔ وقت کے تھال پر دنوں، مہینوں کی گرد جمتی رہی۔ دو بچے ہو گئے۔ اس دوران بہت کچھ بدل گیا۔ اس نے محلہ میں پرانا آبائی مکان بیچ کر ایک نئے علاقہ میں شاندار کوٹھی بنوائی، ملازمت میں ترقی اور نئے گھر میں آنے کے بعد مصروفیات بڑھ گئیں، کہانی سے ملاقات میں وقفہ ہونے لگا۔۔۔ لیکن ان کی سرگوشیاں اور ایک دوسرے میں شرکت قائم رہی۔

کیفے میں جانا ایک عرصہ سے موقوف ہو گیا تھا۔۔۔ اب لوگ خود اس سے ملنے آتے تھے، کہانی کا بھی ذکر ہوتا، لیکن آہستہ آہستہ کہانی اس کے وجود سے کھسکنے سی لگی۔ اب اسے کاغذ پر پھیلاتے، اس کے سرمئی لمس کو محسوس کرتے اسے تھوڑی سی دقت ہوتی۔ وہ دیر تک قلم منہ میں دبائے اس کا انتظار کرتا۔ بڑی مشکلوں سے وہ چند لمحوں کے لیے اس کے پاس آتی اور پھر بہت لمبے عرصے کے لیے کہیں گم ہو جاتی۔

شروع شروع میں اسے کہانی کی اس بے رخی سے صدمہ سا ہوا۔ لیکن بچوں کی کلکاریوں، دفتر کے ہنگاموں اور زندگی کی پر تعیش دبازتوں نے اسے اپنے اندر سمیٹ لیا۔۔ مگر کبھی کبھی جب وہ تنہا ہوتا تو کہانی سے اپنی لمبی رفاقت کا خیال آتا۔

وہ اپنے آپ سے پوچھتا۔۔۔ ’مجھے کیا ہوتا جا رہا ہے؟‘ پھر خود ہی جواب دیتا۔۔۔ ’چیزوں سے میرا رابطہ ٹوٹ گیا ہے، وہ سنسان سڑکیں، لمبی گلیاں اور اَدھ کھلے دروازے، ورکشاپ کے ہتھوڑوں کی شورشیں، ابھرتی ڈوبتی سسکیاں، کیفے کی گرم گرم بحثیں اب میرے راستے کا حصہ نہیں رہیں۔۔۔‘ اور خود ہی تائید میں سر ہلاتا۔۔۔ ’عرصہ ہوا میں نے کوئی کتاب کھول کر بھی نہیں دیکھی۔‘

اس پر ایک اداسی چھا جاتی اور کسی کو بتائے بغیر وہ کسی طرف نکل جاتا۔ ایسی حالت میں کبھی کبھی کسی ویرانے میں یا کسی رونق میں اسے کہانی نظر آ جاتی۔ وہ لپک کر اس کے قریب پہنچتا، لیکن وہ کنی کترا کر نکلنے کی کوشش کرتی۔ بڑے تعاقب، بڑی جستجو کے بعد کہیں ہاتھ آتی۔۔۔ لیکن ایسا کبھی کبھار ہی ہوتا، ورنہ عموماً اسے خالی ہاتھ ہی لوٹنا پڑتا۔۔۔

پھر زندگی کے ہنگامے اور پھیل گئے۔ اپنے آپ کو مطمئن کرنے کے لیے اس نے سوچ لیا۔۔۔ اگر کہانی میرے پاس نہیں تو کیا ہوا، میری عزت میں تو اور اضافہ ہو گیا ہے۔ پہلے لوگ اسے کہانی کی وجہ سے بلاتے تھے، اب اس کے عہدے کی وجہ سے بلانے لگے تھے۔ کسی نے بھول کر بھی نہیں پوچھا تھا کہ اس کی دیرینہ رفیق کہانی اسے کیوں چھوڑ گئی ہے۔۔۔ بس اسی خیال نے اسے پریشان کرنا شروع کر دیا۔ پوچھتے کیوں نہیں، کہانی نے مجھے کیوں چھوڑ دیا ہے۔ اس کا رویہ میرے ساتھ ایسا روکھا کیوں ہو گیا ہے۔ اب تو کہیں سر راہے مل بھی جائے تو یوں آنکھیں پھیر لیتی ہے، جیسے کبھی شناسائی ہی نہ تھی۔ اس کی مامتا، شفقت اور محبوبیت کہاں چلی گئی؟ وہ اپنے آپ سے کہتا ہے۔۔۔ ’’یہ کیا ہے کہ جب چیزیں اور منظر باہر سے ٹوٹے ہوئے ہوتے ہیں تو۔۔۔ اندر ایک چیز سلامت ہوتی ہے، لیکن جب باہر کے منظر اور چیزیں جڑ جاتی ہیں تو اندر کوئی چیز ٹوٹ جاتی ہے۔‘‘

وہ مجھ سے بھی پوچھتا ہے۔۔۔ ’’کہانی مجھ سے کیوں روٹھ گئی ہے۔۔۔؟‘‘

لیکن میرا تو اپنا آپ مجھ سے روٹھ گیا ہے، میں اسے کیا جواب دوں۔۔۔؟

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close