6 سال قبل لاپتہ ہونے والے غلام یٰسین بگٹی کو اس بار رہائی تو ملی لیکن زندگی کی قید سے

ویب ڈیسک

ڈیرہ بگٹی سے تعلق رکھنے والے غلام رسول بگٹی، جن کے چھوٹے بھائی غلام یٰسین بگٹی چھ سال قبل لاپتہ ہو گئے تھے، کو امید تھی کہ ان کے بھائی کسی دن رہا کر دیا جائے گا

انہوں نے کہا ”ہمیں امید تھی کہ ہمارے بھائی کو اسی طرح چھوڑ دیا جائے گا جس طرح سنہ 2012ع میں انہیں لاپتہ کرنے کے بعد چھوڑ دیا گیا تھا، مگر ایسا نہیں ہو سکا کیونکہ وہ زندہ ہمارے پاس واپس نہیں آئے بلکہ ہمیں ان کی تشدد زدہ لاش ملی“

غلام رسول بگٹی کے چھوٹے بھائی غلام یٰسین بگٹی کو اس بار رہائی تو ملی، لیکن زندگی کی قید سے۔۔ ان کی لاش اتوار کو افغانستان سے متصل بلوچستان کے سرحدی شہر چمن سے ملی

غلام یٰسین اپنے آبائی علاقے ڈیرہ بگٹی میں سرکاری ملازم تھے، جنہیں ان کے بھائی کے مطابق، دو مرتبہ جبری طور پر لاپتہ کیا گیا

غلام رسول بگٹی بتاتے ہیں ”دوسری مرتبہ گمشدگی کے بعد نہ صرف کوئٹہ میں ایف آئی آر درج کرائی گئی بلکہ ان کا کیس جبری گمشدگیوں سے متعلق حکومتی کمیشن میں بھی زیر سماعت تھا“

سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ غلام یٰسین بگٹی کی لاش کی برآمدگی کا مقدمہ چمن میں درج کیا گیا ہے اور اس سلسلے میں تحقیقات جاری ہیں

غلام یٰسین بگٹی کا تعلق بلوچستان کے ضلع ڈیرہ بگٹی سے تھا۔ ان کی عمر چالیس سال کے لگ بھگ تھی۔ انہوں نے ایف ایس سی تک تعلیم حاصل کی تھی جس کے بعد ڈیرہ بگٹی میں ہی محکمہ صحت میں بطور ڈسپینسر ملازمت اختیار کر لی تھی

غلام یٰسین بگٹی شادی شدہ تھے اور ان کے چار بیٹے ہیں۔ ان کے چار بیٹوں میں سب سے بڑے بیٹے کی عمر اب بارہ سال ہے۔ کوئٹہ میں گھر ہونے کے باعث ان کی رہائش کوئٹہ میں ہی تھی

غلام رسول بگٹی نے بتایا کہ غلام یٰسین کو دو مرتبہ جبری طور پر لاپتہ کیا گیا، پہلے سنہ 2012ع میں ان کو لاپتہ کیا گیا لیکن بیس پچیس دن بعد ان کو منظر عام پر لایا گیا اور اس وقت ان کے خلاف تین مقدمات قائم کیے گئے تھے

انہوں نے کہا کہ ان میں سے ایک مقدمہ دھماکہ خیز مواد کی برآمدگی تھا، جس میں انسداد دہشت گردی کوئٹہ کی عدالت نے انہیں بری کیا تھا جبکہ دو دیگر کیسز سیشن کورٹ میں زیر سماعت تھے

ان کا کہنا تھا ”اگرچہ میرے بھائی کے خلاف دو کیسز زیر سماعت تھے لیکن ان کو رہا کر دیا گیا تھا مگر ان کو جنوری سنہ 2016 میں دوبارہ جبری طور پر لاپتہ کیا گیا“

دوسری مرتبہ جبری گمشدگی کی ایف آئی آر بھی سریاب تھانے میں درج کی گئی، جس کے مطابق غلام یٰسین کو قمبرانی روڈ پر ایک کالونی سے رات کو ساڑھے تین بجے اس وقت اٹھا لیا گیا، جب وہ اپنے ایک دوست کے گھر میں سو رہے تھے

ایف آئی آر کے مطابق غلام یٰسین بگٹی کو پولیس اور سیکیورٹی فورسز کے اہلکار اٹھا کر لے گئے تھے

غلام رسول بگٹی نے بتایا کہ دوسری مرتبہ اٹھائے جانے کے بعد ہم نے ان کا پتہ لگانے کی ہرممکن کوشش کی، لیکن ہمیں ان کا سراغ لگانے میں کامیابی نہیں ملی

ان کا کہنا تھا ”اس کے بعد ہم نے ان کی بازیابی کے لیے متعدد فورمز سے رجوع کیا، جن میں جبری گمشدگیوں سے متعلق حکومتی کمیشن بھی شامل تھا۔ بھائی کی جبری گمشدگی کے حوالے سے نہ صرف کمیشن میں دائر درخواست کی سماعت ہوتی رہی بلکہ محکمہ داخلہ حکومت بلوچستان کی جانب سے ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بھی قائم کی گئی تھی“

غلام رسول بگٹی کا کہنا ہے ”بھائی کے خلاف سیشن کورٹ کوئٹہ میں جو دو کیسز زیر سماعت تھے، ان میں سنہ 2015ع میں ان کی آخری پیشی بھی ہوئی اور وہ عدالت میں پیش بھی ہوئے لیکن اس کے بعد ان کو لاپتہ کیا گیا“

دوسری جانب بلوچستان سے لاپتہ افراد کے رشتہ داروں کی تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین نصراللہ بلوچ نے بتایا کہ تنظیم کی جانب سے سنہ 2019ع اور اس کے بعد بلوچستان حکومت کے علاوہ وفاقی حکومت کو جن لاپتہ افراد کی فہرستیں پیش کی گئیں ان میں غلام یٰسین بگٹی کا نام بھی شامل تھا

انہوں نے الزام عائد کیا کہ اس سے قبل بھی جبری طور پر لاپتہ ہونے والے افراد کی تشدد زدہ لاشیں ملتی رہی ہیں

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق غلام یٰسین کی اہلیہ اور ان کے بچوں سے فون پر بات کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن غلام رسول بگٹی نے بتایا کہ ان کی اہلیہ کی حالت ایسی نہیں کہ وہ اس وقت بات کر سکے جبکہ ان کے بچے ابھی تک بہت چھوٹے ہیں

غلام رسول نے کہا کہ بھائی کی جبری گمشدگی کے دوران ہم نے اپنے طور پر معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہے

’ہمیں بھائی کی جانب سے پیغامات بھی ملتے رہے کہ وہ زیر حراست ہیں اور کبھی کبھار اچھی خبریں بھی ملتی رہیں کہ وہ بازیاب ہوجائیں گے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ پہلے بھی بھائی کو جبری گمشدگی کے بعد منظر عام پر لایا گیا تھا اور دوسری مرتبہ جبری گمشدگی کے بعد ان کی بازیابی اور رہائی کے حوالے سے اچھی خبریں ملنے کے بعد ہمیں یہ توقع تھی کہ وہ بازیاب ہو جائیں گے اور اپنے چھوٹے بچوں کا سہارا بنیں گے مگر ایسا نہیں ہوسکا بلکہ گزشتہ اتوار کو انھیں ڈیرہ بگٹی سے یہ اطلاع ملی کہ چمن شہر کے قریب سے ان کی تشدد زدہ لاش ملی ہے

انہوں نے بتایا کہ بھائی کی جیب میں ان کا سروس کارڈ تھا جس پر درج پتے کی مدد سے لیویز فورس چمن کے اہلکاروں نے ڈیرہ بگٹی میں لیویز فورس کواطلاع دی، پھر ڈیرہ بگٹی سے ہمیں اس بارے میں بتایا گیا

غلام رسول بگٹی نے بتایا کہ بھائی کی لاش کے بارے میں اطلاع کے بعد اسے لینے کے لیے ہم کوئٹہ سے چمن گئے تو وہاں ہم نے لاش کو شناخت کیا

ان کا کہنا تھا ”ان کے جسم پر تشدد کے نشانات تو تھے لیکن کسی گولی کا کوئی زخم ان کے جسم پر نہیں تھا۔ ہم نے ان کے جسم کو دیکھا۔ ہمارے اندازے کے مطابق ان کو کرنٹ دیا گیا تھا یا گلا گھونٹ کر ہلاک کیا گیا تھا“

اس سوال پر کہ لاش کا پوسٹ مارٹم کرایا گیا یا نہیں، تو غلام رسول کا کہنا تھا ”ہم نے لاش کا پوسٹ مارٹم نہیں کرایا، کیونکہ اس کا کوئی فائدہ نہیں، اس لیے ہم لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے کوئٹہ کے ہسپتال نہیں لے گئے بلکہ اپنے گھر لائے“

غلام یٰسین بگٹی کی لاش کی برآمدگی کے حوالے سے جب ڈپٹی کمشنر چمن یاسر خان بازئی سے فون پر رابطہ کیا گیا تو انہوں نے چمن شہر کے قریب بائی پاس کے علاقے سے ان کی لاش کی برآمدگی کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ لاش کا ابتدائی پوسٹ مارٹم ہوا ہے لیکن جو تفصیلی پوسٹ مارٹم ہوتا ہے وہ نہیں ہوا کیونکہ چمن میں اس کی سہولت نہیں ہے

ان کا کہنا تھا کہ بائی پاس سے لاش کی برآمدگی کے بعد انتظامیہ نے اپنے طور پر اس حوالے سے مقدمہ بھی درج کیا ہے

انہوں نے کہا ”ہمارے لیے اس وقت یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ اس شخص کو کس نے مارا اور کیوں مارا اور پھر اس کی لاش یہاں کیوں پھینکی؟ اس سلسلے میں تحقیقات ہو رہی ہیں، جس کے بعد ہی یہ معلوم ہو سکے گا کہ مقتول کو ہلاک کرنے کے محرکات کیا تھے“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close