اپنے عزیزوں، پیاروں اور دوستوں کے درمیان ملاقات سے زیادہ خوبصورت کوئی چیز نہیں ہے۔ یہ ایک ایسا لمحہ ہے، جس کا ہم بے صبری اور لامحدود آرزو کے ساتھ انتظار کرتے ہیں۔۔ ملاقات کے لیے جاتے ہوئے دوستی ہماری روحوں کو گلے لگا لیتی ہے، ہم جانتے ہیں کہ دوست زندگی کی مٹھاس اور حسن ہیں، اس لیے ان کے دلوں کے لیے ایک دوسرے کو دیکھ کر اور ہنسی خوشی اور جذباتی گفتگو کرنا کتنا خوبصورت ہے
لیکن یہ صرف جذباتی حوالے سے خوبصورت ہی نہیں، جسمانی طور پر بہت زیادہ مفید بھی ہے۔۔ جی ہاں، سائنسدانوں نے دریافت کیا ہے کہ مہینے میں کم از کم ایک بار دوستوں اور اہل خانہ کے ساتھ ملاقات آپ کی زندگی کو بڑھا سکتی ہے
یونیورسٹی آف گلاسگو کی بائیو میڈ سینٹرل میڈیسن نامی جریدے میں شائع ہونے والی تازہ تحقیق کے مطابق محققین نے دریافت کیا ہے کہ کسی شخص کو ان کے اہل خانہ اور دوست کتنی بار ملنے جاتے ہیں اور اس بات اور ان کی متوقع عمر کے درمیان تعلق پایا جاتا ہے
ایسے لوگ، جن سے ان کے اہلِ خانہ کبھی نہیں ملتے ان میں مبینہ طور پر موت کا خطرہ زیادہ پایا گیا۔ قبل ازیں تنہائی کی جاری وبا کے دوران محققین نے سماجی تنہائی کا تعلق عمر میں کمی کے ساتھ جوڑا تھا
تازہ ترین مطالعے میں یہ سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے کہ مختلف قسم کے سماجی میل جول ہمارے معیارِ زندگی پر کیا اثر ڈالتے ہیں
دوستوں اور اہلِ خانہ کے گھر آنے، ہفتہ وار گروپ سرگرمی میں حصہ لینے اور اکیلے نہ رہنے سے مبینہ طور پر برطانیہ میں 45 لاکھ 58 ہزار 146 افراد پر مشتمل شرکا کے گروپ پر بہت زیادہ فرق پڑا
سروے کے لیے منتخب شرکا کی عمریں 37 سے 73 سال کے درمیان اور اوسط عمر 56 سال تھی۔ یہ اعداد و شمار 2006 اور 2010 کے درمیان جمع کیے گئے
محققین نے شرکا سے سماجی میل جول کی پانچ مختلف صورتوں کے بارے میں سوالات پوچھے۔ مثلاً: انہوں نے کتنی بار کسی قریبی شخص سے دل کی بات کی؟ انہوں نے کتنی بار تنہائی محسوس کی؟ وہ کتنی بار دوستوں اور اہلِ خانہ سے ملنے جاتے تھے؟ وہ کتنی بار ہفتہ وار گروپ سرگرمی میں حصہ لیتے رہے اور آیا وہ اکیلے رہے یا نہیں؟
یونیورسٹی آف گلاسگو کے کلینیکل ریسرچ فیلو ڈاکٹر ہمیش فوسٹر نے جریدے ’انسائیڈر‘ کو بتایا، ”ہم نے ان بہت سے دیگر عوامل کو بھی مدنظر رکھنے کی کوشش کی جو نتائج کی وضاحت کر سکتے ہیں، جیسے کہ لوگوں کی عمر کتنی تھی، ان کی جنس، ان کی سماجی و مالی حیثیت، کیا وہ تمباکو نوشی کرتے تھے وغیرہ وغیرہ؟ اور ان عوامل کو نکالنے کے بعد بھی یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سماجی روابط موت کے خطرے کے لیے اہم تھے“
اس بات پر انحصار کرتے ہوئے کہ شرکا کو کب منتخب کیا گیا، محققین نے شرکا کے ساتھ کیے گئے سوالات کا اندازاً ساڑھے بارہ سال بعد دوبارہ جائزہ لیا
جس سے انہیں معلوم ہوا کہ ان برسوں میں 33135 یا 7.2 فیصد شرکا کی موت واقع ہو گئی۔ ان لوگوں میں سے 5112 یا 1.1 فیصد دل کے امراض کا شکار ہو کر موت کے منہ میں گئے
تحقیق میں یہ حیرت انگیز بات بھی سامنے آئی کہ ہفتہ وار گروپ سرگرمی یا جسمانی صلاحیت سے قطع نظر وہ افراد جو اکیلے بھی رہتے تھے اور کوئی دوست یا خاندان کا رکن ان سے ملنے کے لیے نہیں آیا۔ ان میں موت کا خطرہ 77 فیصد زیادہ تھا
تاہم ڈاکٹر فوسٹر نے متنبہ کیا ہے کہ یہ مطالعہ انسانی معاشرتی میل جول کی پیچیدگی اور معیار دونوں کو مدنظر رکھنے سے قاصر ہے
فوسٹر کہتے ہیں ”انسان واقعی پیچیدہ ہوتے ہیں اور اسی طرح ہمارا ملنا جلنا بھی ہے اور اس مطالعے میں ہمارے اقدامات انسانی صلاحیتوں کے مقابلے میں خاصے خام ہیں، لیکن یہ مطالعہ تب بھی بہت تفصیلی ہے اور اس بات پر غور کا آغاز کر رہا ہے کہ مختلف قسم کے رابطے کس طرح اہم ہوتے ہیں“
انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا ”مطالعہ یہ ثابت نہیں کر سکتا کہ کم سماجی ہونا موت کا سبب بنتا ہے، لیکن اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ تنہائی اور الگ تھلگ رہنا نہ صرف خراب ذہنی صحت بلکہ خراب جسمانی صحت کا باعث بھی بن سکتا ہے“
فوسٹر نے مزید کہا ”ہمیں لوگوں کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑنے کے لیے وسیع تر معاشرتی سطح پر مزید کوششیں کرنی ہوں گی۔۔ مثال کے طور پر کمیونٹی سینٹرز، پارک اور ایسی سرگرمیاں ہو سکتی ہیں، جن کی بدولت لوگ ایک دوسرے کے ساتھ آسانی سے مل کر مضبوط تعلق قائم کر سکتے ہیں“
ڈاکٹر فوسٹر اور ان کی محققین کی ٹیم کی جانب سے طویل عمر اور فعال سماجی زندگی کے درمیان نقطوں کو جوڑنے والی تحقیق کوئی پہلی کوشش نہیں
لائیو اسٹریمنگ سروس نیٹ فلکس نے حال ہی میں اپنی دستاویزی سیریز میں مشہور بلیو زونز یعنی ان مقامات کو نمایاں کیا ہے، جہاں خاص طور پر ان لوگوں کی تعداد زیادہ ہے، جن کی عمر سو سال ہے۔ اس دستاویزی سیریز کا عنوان ’لائیو ٹو 100: سیکرٹس آف دی بلیو میں‘ ہے
یونانی جزیرے اکاریا، یونان یا اوکیناوا، جاپان جیسے بلیو زونز سماجی میل جول کو برادری کی سطح پر ترجیح دی جاتی ہے، بجائے اس کے کہ اسے معاشی یا انفرادی مقاصد کی خاطر پس پشت ڈال دیا جائے
ڈجیٹل دور اور کرونا وبا کی وجہ سے سماجی تنہائی میں اضافہ ہوا۔ ڈاکٹر فوسٹر نے زور دیا ہے کہ جوان لوگوں کے لیے یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ وہ اپنی سماجی زندگیوں کو پروان چڑھائیں اور برادری کی سطح پر سرگرمیوں میں حصہ لیں۔