جناب کونیکا اور اس کا جانشین (افسانہ)

گیبریل میرو (ترجمہ: عقلیہ منصور جدون)

ٹرین اوریولا کے باغات کی ہموار زمین سے گزر رہی تھی۔ ٹرین سے باہر کے مناظر یکے بعد دیگرے تبدیل ہو رہے تھے۔ لمبے، گھنے، گہرے پٹ سن کے پودوں کو پیچھے چھوڑتے ہوئے شاندار مالٹوں کے درخت ان کی جگہ لے چکے تھے۔۔ اور اب سرسبز ٹیلوں کے درمیان چھوٹے چھوٹے رستے کھردری پیوند زدہ سفیدی بھری جھونپڑیوں کو جگہ دے رہے تھے، جن کی چھتیں ناتراشیدہ لکڑی کے تختوں سے بنائی گئی تھیں، جن میں زندہ درختوں کی ناہمواری موجود تھی اور ان کی خوبصورتی میں اضافے کا باعث تھی۔۔ اب تنگ سڑکیں اور دور کچھ فاصلے پر سبزی سے لدی پھندی گاڑی نظر آنے لگی۔جنگلی درخت کے سائے میں دو گائیں گوبر کی غلاظت کے ساتھ زمین پر بیٹھی مکئی کے نرم ڈنٹھلوں کی جگالی میں مصروف تھیں۔ ان سے آگے بنجر پہاڑی چوٹیاں، جن کی ننگی پسلی نما چٹانیں نرم گیلی زمین میں دبی، پھلوں کے درختوں تک پھیلی ہوئی تھیں۔ دریا کے نشانات، بطخوں میں گھری پرانی پن چکی بھی ٹرین سے نظر آنے والے مناظر میں شامل تھی۔ تھوڑا آگے سیاہ پاپولر اور شہتوت کے درختوں کا جھنڈ، اکلوتا پام، پھر ایک خانقاہ، جس کے مخروطی تکونی حصے پر نذر کا کراس لٹکا ہوا تھا، دکھائی دیے۔ افق پر پھیلا نیلا دھواں، ایک تنگ نہر، ایپرن پہنے دو مالی پٹ سن کو موگری سے پیٹتے نظر آئے۔ دریا پھر نظر آنے لگا۔۔ پسِ منظر میں پہاڑوں کے پیچھے سفید میناروں والا بے ترتیب سا بچوں کا مدرسہ نظر آ رہا تھا۔اس سے نیچے پہاڑ کے ساتھ شہر شروع ہو جاتا تھا۔ جس کے سرخ، سفید، نیلے اور براؤن مینار، مقامی چرچ کی محرابیں اور بڑے گرجا گھر اور خانقاہوں کے گنبد چمک رہے تھے۔داہنی طرف پہاڑی سلسلے کے اوپر تنہا، گہرا جسیم، متشکل میزاب، کھڑکیاں، بالائی کمرے، چوکور مینار سے مشابہ گھنٹہ گھر والا سانتو ڈومنگو کا مسیحی مدرسہ دھندلا دھندلا نظر آنے لگا۔
باغات ، دریا اور شہر کے اوپر ایک باریک چھدرا سا بادل پھیلا ہوا تھا ۔اس سارے ہیت ارضی میں گوبر اور اصطبل کی بدبو، آبپاشی کی تازہ مہک، نرم گیلی پٹ سن کے جوہڑوں کی تیز بدبودار سڑاند اور مخروطی ڈھیروں کی شکل میں خشک ہونے کے لیے رکھی گئی پٹ سن کی ناخوشگوار بو پھیلی ہوئی تھی۔

سیگوینزا اس سہہ پہر اداس سوچوں میں غرق رہا۔ وہ بہت اداس اور بور تھا۔ اداسی اتنی تلخ اور اتنی شدید تھی کہ یہ محض وقتی نہیں تھی بلکہ بذاتِ خود ایک حقیقت تھی، اس کی روح سے زیادہ مضبوط اور طاقت ور۔۔یہ ہر اس چیز پر، جو وہ دیکھتا، چھا رہی تھی۔۔ دھویں، درختوں، وادی، پہاڑ اور آسمان، ہر شے اداسی کا روپ دھارے ہوئے تھی۔۔

یہی اداسی بچپن میں بھی اس پر ظلم ڈھاتی تھی، جب وہ اسکول یونیفارم پہنے چھوٹے بچوں کے ساتھ انہی رستوں پر مارچ کرتا ٹرین کے گزرنے کا انتظار کرتا تھا۔

اب ٹرین میں بیٹھے ہوئے اس کی وہ یادیں واپس آ گئیں اور وہ پہلے سے بھی زیادہ اداس ہو گیا۔ اس سارے ہیت ارضی اور سانتو ڈومنگو کے کالج واپسی نے بھی اداسی میں اضافہ کر دیا تھا۔

سیگوینزا اپنے ساتھی مسافر، جو اپنے بیٹے کو مسیحی اسکول میں داخل کروانے آیا تھا، کی طرف متوجہ ہوا اور اسے اس اسکول میں بطور طالب علم اپنی یادیں بتانے لگا

ساتھی مسافر نے اسے ٹوکتے ہوئے پوچھا ”تو کیا آپ ان بیتے سالوں سے نجات چاہتے ہیں؟ کیا آپ نہیں سمجھتے کہ ان دنوں کا دکھ بھی کتنی خوشگوار یاد ہے؟ آپ نہیں چاہتے؟ مگر کیوں؟ اگر آپ کے بیٹے ہیں تو کیا آپ انہیں اسی اسکول میں، جہاں آپ تھے، نہیں بھیجیں گے؟“

سیگوینزا نے جواب دیا کہ وہ اپنے بیٹوں کو ہرگز اس اسکول میں نہیں بھیجے گا، اگر ماضی کے وہ دکھ خوشگوار ہیں تو اس وقت بالغان کے لئے ہیں۔بچوں کے لیے خشک اور ٹھٹھرا دینے والے ہوتے ہیں۔ اس وقت ان میں وہ خوشبو نہیں ہوتی، جو وقت اسے بعد میں عطا کر دیتا ہے۔

جب وہ سانتو ڈومنگو میں تھا تو وہ گاؤں کے لوہار کی زندگی پر رشک کرتا تھا، جس کے گانوں اور ہتھوڑے کی ضربات کی آواز تمام کھڑکیوں سے خوشگوار احساس لیے آتی اور مطالعے کے اوقات کی بوجھل خاموشی کو توڑتی۔

اس وقت وہ ایک چاکلیٹ فروش جناب ریبولو پر بھی رشک کرتا، جب سارے لڑکے اس کی دکان کے سامنے سے گزرتے ہوئے اسے حیرانی سے دیکھتے۔ وہ اس کے بیلنوں کی آواز کے شور اور گرم ناریل کی مہک سے خوش ہوتے

وہ دریا کنارے بیٹھے سگریٹ پیتے اور لہروں سے بنتے بلبلوں کو دیکھتے شخص پر بھی رشک کرتا۔۔ وہ اس کوچوان سے بھی حسد کرتا، جو اسٹیشن آتے جاتے اپنا کوڑا لہراتا، یہاں تک کہ اس میں سے چھٹیوں میں کی گئی ہوائی آتش بازی جیسی آواز آنے لگتی۔ساتھ ہی کوچوان دیہاتی عورتوں پر نازیبا فقرے کستا۔ بچپن میں سیگوینزا اس کوچوان کو ہر گھر کے مقدس جذبات کا ترجمان سمجھتا، کیونکہ اس کی گاڑی میں عموماً سارے طلباء کے والدین اسکول آتے تھے۔ وہ کوچوان کو ’پن آپ روٹر‘ کہتے تھے۔ یہ شاندار افسانوی لقب اس پر، اس کی گاڑی کے دروازے پر کی گئی بھاری سرخ نقاشی اور آرائشی شکل جو کسی شاخ سے لٹکتے بندر جیسی تھی، کی وجہ سے پڑ گیا تھا۔ رات کے وقت جب سیگوینزا Aeneid/ اینیڈ (ودجل کی رزمیہ نظم) کے مصرعوں کا ترجمہ کر رہا ہوتا، تو پن آپ روٹر ایسے جاہ و جلال سے گزرتا، جیسے وہ سیر گاہ سے گزرنے والا کوئی سیاح ہو۔۔ یا کوئی برگزیدہ بندہ، جو اس کی کتاب کے صفحات کو دلکش، خوشبودار، سحر زدہ قدیم صنوبر کے باغ میں تبدیل کر دے۔

”تو اس سب کا کیا مطلب ہوا؟ اور اس کی اہمیت بھی کیا ہے؟“ ہمسفر نے سوال کیا ”ان سب چیزوں کا بچوں کی پرورش اور تعلیم سے کیا تعلق؟ تمہارے کتنے بچے ہیں؟ او ہو۔۔ تو تمہاری بیٹیاں ہیں؟ میں معافی چاہتا ہوں۔۔ پھر بھی میرا یہی خیال ہے کہ تم انہیں کسی اسکول میں داخل کروا دو“

”تاکہ ان کی بری پرورش ہو!؟“ یہ سیگوینزا کا جواب تھا ”تم یہ کیسے کہہ سکتے ہو۔۔ خدا کی پناہ!“

ہاں شاید سیگوینزا اپنی بچیوں کی درست پرورش نہیں کر رہا تھا۔یا پھر بعض کے نقطہ نظر سے بظاہر ایسا ہی لگ رہا تھا۔

اسے ہر وہ لمحہ یاد تھا کہ جب بھی اس نے اپنی بچیوں کی انہونی خواہشات پر انہیں تنبیہ کے لیے سخت الفاظ استعمال کیے تو وہ پچھتایا اور اپنے آپ سے وعدہ کیا کہ آئندہ ایسا نہیں ہوگا

”یہی تو!“ ساتھی مسافر چلایا، ”اگر تم انہیں کسی سخت نظم و ضبط والے اسکول میں بھیج دو، تو سب کچھ درست ہو جائے گا“

“اقامتی مدرسہ!؟ کبھی نہیں!“

اس جواب پر اپنے بچے کو اسکول داخلے کے لیے لے جانے والا باپ اتنا برہم ہوا کہ اس کا گول چہرہ سرخ ہو گیا۔
اس کے بعد وہ اوریولا پہنچے اور بذریعہ کوچ سرائے تک پہنچے۔ اکٹھے کھانا کھایا اور اسی موضوع پر گفتگو کرتے رہے

”اگر تم سینور / جناب کیونیکا کو جانتے ہوتے۔۔۔!“ سیگوینزا نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے اپنے ہم سفر سے کہا

”کیوں۔۔۔ وہ شخص کون ہے؟“

”عیسائی مدرسے میں ان کا طرزِ تخاطب بہت ملائم اور شائستہ اور مہذب ہے۔ وہ ہر طالبِ علم کو، حتیٰ کہ چھوٹے سے بچے کو بھی ’جناب‘ یا ’صاحب‘ کہہ کر پکارتے ہیں۔ جب میں سانتو ڈومنگو میں داخل ہوا تھا تو آٹھ سال کا تھا، تو اپنے لیے اتنے بڑے عالم کے منہ سے لفظ ’جناب‘ سن کر دنگ ہی رہ گیا۔ لیکن اس سے بھی زیادہ حیرانی اس وقت ہوئی، جب میرے ساتھ کھڑے چھوٹے سے بچے کو بھی انہوں نے جناب کہہ کر بلایا۔۔ میں لمبا پاجامہ پہنے ہوئے تھا لیکن وہ نیکر پہنے ہوئے تھا۔ اس نے جرابیں پہن رکھی تھیں۔ وہ مجھ سے کافی چھوٹا تھا۔ وہ نازک اور زرد تھا۔ ہر وقت خواب کی سی کیفیت میں رہتا۔ اس کے چھوٹے چھوٹے ہاتھ سیاہی سے داغدار رہتے۔ اس کی نیکر کی ڈوریاں اور جوتوں کے تسمے ہمیشہ کھلے اور لٹکتے رہتے۔ اس کا نام کیونیکا تھا لیکن وہ اسے ’جناب کیونیکا بلاتے تھے۔معائنے والے بھائی اپنی خشک حاکمانہ آواز سے سے چیختے، ’جناب کیونیکا!‘ میں اپنے ساتھی پر نگاہ ڈالتا، اس کا سر ڈیسک پر رکھے اس کے بازوؤں میں چھپا ہوتا۔ ناظر بھائی بڑبڑاتا، ’جناب سیگوینزا! کیونیکا صاحب سو گئے ہیں، انہیں جھنجھوڑ کر جگا دیں‘ میں اسے جگاتا۔ وہ اپنی بڑی بڑی نیند سے مخمور آنکھیں کھولتا، حیرانی سے مجھے دیکھتا، انگڑائی لیتا، معافی طلب مسکراہٹ اس کے چہرے پر پھیل جاتی۔ ناظر بھائی کی آواز گونجتی ’کیونیکا صاحب‘ وہ کندھے اچکاتے ’بھائی کیا کہہ رہے ہیں؟‘ .. ’وہ تمہیں گھٹنوں پر جھکنے کا کہ رہے ہیں‘ … ’گھٹنوں پر مگر کیوں؟‘ کیونیکا صاحب جھک جاتے۔ ’کیونیکا صاحب! کیونیکا صاحب! میں تمہیں صفائی میں بہت برے نمبر دوں گا۔ تمھیں دکھائی نہیں دیتا کہ تمہاری جرابیں نیچے گر رہی ہیں۔‘ ۔۔۔ تقریباً ہر دفعہ میں انہیں اوپر کھینچتا۔ وہ موٹی سفید اونی جرابیں تھیں جو لامنچہ میں واقع اس کے گھر میں موجود اس کی نرس نے بُنیں تھیں۔ اسے موزہ بند کا استعمال نہیں آتا تھا۔ جناب کیونیکا کے ساتھ میں اپنے آپ کو بڑا آدمی اور اس کا محافظ سمجھتا۔ اور اسے والدین والی مسکراہٹ سے دیکھتا۔
پھر مقدس توبہ کا ہفتہ آ گیا۔ یہ ہفتہ ہمیں خاموش رہ کر گزارنا تھا۔ اپنے ضمیر کا معائنہ کرنا تھا اور گناہ، موت، دوزخ اور نجات پر وعظ سننے تھے۔ اس عرصے میں گرجے کی زیادہ تر کھڑکیاں بند کر دی گئیں اور قربان گاہ پر کالے پردے پھیلا دئے گئے۔جب ہم ’یا خدا معاف کرنا‘ گاتے تو گلا پھاڑ کر چلاتے، اس لئے نہیں کہ ہم حقیقتاً خدا کے فضل و کرم کے خواہشمند تھے، بلکہ جو طویل خاموشی ہم پر مسلط کی گئی تھی، اس کے خلاف احتجاجاً چینختے اور چلاتے۔۔لیکن کیونیکا گاتا نہیں تھا۔ وہ اپنی آنکھیں بند کر لیتا۔۔ اپنا سر میرے بائیں کندھے پر ٹکا لیتا۔۔میں اسے کہتا ’میں تمہیں بتا رہا ہوں وہ ہم دونوں کو سزا دیں گے‘ میری طرف دیکھے بغیر وہ مسکراتا۔ وہ بلکل سفید پڑ گیا تھا۔ ہونٹوں کے پاس دو جھریاں پڑ گئی تھیں، جیسے کہ وہ ابھی زارو قطار رونا شروع کر دے گا۔۔ ’میرا سر درد سے پھٹا جا رہا ہے‘ وہ بڑ بڑاتا۔۔ ہفتہ توبہ کے آخری دن کیونیکا صاحب کی بجائے کوئی اور لڑکا میرے ساتھ موجود تھا۔ موٹا، سرخ پُر سکون اور دیندار۔۔ میں نے اس سے کیونیکا کے بارے میں استفسار کیا۔ لیکن اس نے مجھے کوئی جواب نہیں دیا۔ میں نے ناظر بھائی سے اپنے دوست سے بات کرنے کی اجازت مانگی، لیکن اس نے انکار کر دیا۔ بالآخر ’ہفتہ خاموشی‘ اختتام کو پہنچا، سب لڑکوں نے مل کر خوشی سے بھرپور آزادی کا نعرہ لگایا۔ میں ناظر کے پاس دوڑ کر گیا اور کیونیکا کے بارے میں پوچھا ۔ ’کیا تمہیں نہیں معلوم کہ سوال پوچھنا کتنا بڑا عیب ہے۔۔ دوبارہ یہ غلطی نہ دہرانا‘ اس نے مجھے متنبہ کیا۔۔ ذلت کا احساس لئے میں واپس آ گیا۔۔ میرے دماغ پر صرف اور صرف کیونیکث کا تصور چھایا ہوا تھا۔۔ کہ وہ زرد رو بچہ ہمارے درمیان کیوں نہیں ہے۔۔پیارا، اداس چھوٹا۔۔۔ جب مسکراتا تھا تو زیادہ قابلِ رحم محسوس ہوتا تھا، بہ نسبت، جب وہ روتا تھا۔۔ میرا چھوٹا ساتھی اپنی زردی مائل سبز نیکر، سفید نرم شکن زدہ جرابیں جنہیں اپنی جگہ رکھنا نہیں آتا تھا ، جو کسی ماں یا آیا کے ہاتھوں کی محتاج تھیں کے ساتھ کہاں جا سکتا ہے….؟ دو دن گزر گئے۔۔۔تب سہہ پہر کے پڑھائی سے وقفے کے بعد ہم اسٹڈی ہال میں جانے کی بجائے اپنے رہائشی کمروں میں بھیج دئے گئے ۔ جوں ہی ہم کمروں میں داخل ہوئے ، ناظر نے چھٹیوں کے کپڑے ، اوور کوٹ اور ٹوپیاں پہننے کا حکم دیا۔۔
ہم حیران و پریشان حکم کی تعمیل میں لگ گئے۔۔ ’کیا ہونے لگا ہے؟ کیا قابل احترام صوبائی آرچ بشپ تو نہیں آ رہے؟‘ ۔۔۔ ’ضرور ضرور وہی آ رہے ہوں گے۔ ان کی عزت افزائی میں ہمیں چھٹی ملے گی۔ پکنک منائیں گے ۔ لیکن جناب کیونیکا کہاں غائب ہے ۔اس کے بغیر کیا مزہ آۓ گا ۔لیکن وہ ہے کہاں؟‘ ۔۔۔ ہم چرچ میں داخل ہوئے۔۔ میں خوف سے کانپنے لگا۔۔ میرے بال اور پیشانی ٹھنڈے پسینے سے شرابور تھی۔۔۔ صدر کلیسا میں موم بتیوں میں گھرا ایک تنگ سفید کفن پڑا تھا۔۔ بکس کے اندر مجھے کیونیکا دکھائی دیا۔۔ بہت لمبا اور بہت پتلا۔۔میری طرف مسکرا کر دیکھتا ہوا۔۔ میں حلفاً کہتا ہوں وہ مجھے دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔۔وہ ایسے مسکرا رہا تھا جیسے وہ مجھے اپنی چھٹیوں کے یونیفارم کا لمبا پاجامہ دکھا رہا ہو۔“

ہم سفر، جو اپنے بیٹے کو عیسائی اسکول میں داخل کروانے آیا تھا، نے سگار سلگایا، اپنے آپ کو دھویں کے مرغولے میں لپیٹا، ہلکا سا کھانستے ہوے اکھڑ پن سے بولا ”یہ سب کچھ دیکھ بھال کے فقدان کا نتیجہ تھا۔۔۔ ۔یہ۔۔۔ (اپنی ٹھوڑی سے اپنے بیٹے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) اس نے کبھی تسموں والے جوتے نہیں پہنے بلکہ ہمیشہ دوسری طرح کے، جو پورے کے پورے ایک ہی ٹکڑے سے بنے ہوتے ہیں۔۔ اور نہ ہی جرابیں، موزہ بند اور بٹن والی نیکر۔۔۔ ایسا ہی ہے نا؟ میرے بیٹے!؟“


مصنف کا تعارف:
گیبریل میرو (Gabriel Miro) 28 جولائی 1879ع میں اسپین کے شہر ایلی کانٹے میں پیدا ہوا۔ ابتدائی تعلیم سانتو ڈومنگو اوریولا کے عیسائی اسکول سے حاصل کی۔ یہ افسانہ اسی دور کی یادوں پر مبنی ہے۔ 1892ع میں غرناطہ یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کی۔ 1901ع میں شادی کی۔ 1914 میں بارسلونا کی صوبائی کونسل میں کام کیا۔1920ع میں میڈرڈ میں منسٹری آف لاء میں کام کیا۔ 1925ع میں Mariano de cavia / ماریانو ڈی کاویا پرائز جیتا۔ ہسپانوی ادب کے مؤرخین اسے ماہر فن اور صاحب ذوق قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کی نثر میں اس کے مقامی علاقائی شوخ رنگ موجود ہیں۔ اس کا سب سے مشہور ناول ’چیری قبرستان‘ ہے۔ وہ 22 مئی 1930 میں میڈرڈ اسپین میں فوت ہوا۔


Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close