برطانیہ کا کیئر ویزا فراڈ، جس کا نشانہ سینکڑوں پاکستانی بنے

سجاد اظہر

فرزانہ خان (فرضی نام) کا تعلق ضلع جہلم سے ہے۔ وہ گذشتہ چھ ماہ سے برطانیہ کے شہر بریڈ فورڈ میں اپنے خاوند کے ساتھ دھکے کھا رہی ہیں۔

ان کے پاس روزگار ہے اور نہ ہی سر چھپانے کی جگہ، گزر اوقات کے لیے وہ مختلف خیراتی اداروں کی محتاج ہو کر رہ گئی ہیں۔

وہ پاکستان میں بھاری قرض لے کر برطانیہ آئیں کہ شاید ان کے دن بدل جائیں مگر یہاں آ کر معلوم ہوا کہ ان کے دن تو اجڑ چکے ہیں۔

فرزانہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو فون پر بتایا کہ ان کی شادی کو چند سال ہوئے ہیں، ان کے خاوند کی اچھی بھلی نوکری چل رہی تھی، گزارا ٹھیک ہو رہا تھا کہ ملکی حالات سے دلبرداشتہ ہو کر میرے خاوند نے ملک چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔

ان کے کسی دوست نے انہیں بتایا کہ وہ کیئر ویزے پر انہیں برطانیہ بھجوا سکتا ہے، جہاں نوکری کے بعد انہیں شہریت بھی مل جائے گی۔

ہم سے 30 لاکھ روپے ایڈوانس اور 20 لاکھ روپے ویزا لگنے کی صورت میں ادا کرنے کا کہا گیا اور ساتھ یہ بھی بتایا کہ لوگوں سے تو کروڑ، کروڑ لے رہے ہیں، آپ سے تعلق کی وجہ سے رعایت کی جا رہی ہے۔

ہم نے جمع پونجی اکٹھی کی، زیور بیچا، کچھ زمین فروخت کی، پیسے دیے اور یہاں آ گئے۔ یہاں آ کر معلوم ہوا کہ ہمارے ساتھ تو فراڈ ہو گیا ہے۔

جس کمپنی کے ذریعے ہمیں ویزا ملا، اس نے کہا کہ نوکری خود تلاش کرو، اتنا ٹیکس بنتا ہے، وہ ماہانہ جمع کرا دیا کرو تو تم لوگوں کا کام چلتا رہے گا۔

اب اس ویزے پر ہم کوئی اور نوکری کر نہیں سکتے اور نہ ہی کوئی دیتا ہے۔ بھاری ٹیکس اگر نہ دیں تو ویزا کینسل، اب جائیں تو کدھر جائیں۔

یہ کہانی صرف فرزانہ کی نہیں بلکہ برطانیہ میں ایسے سینکڑوں، ہزاروں لوگوں کی ہے جنہیں ایجنٹوں اور نوکری دینے والی ایجنسیوں نے باہمی گٹھ جوڑ کے ذریعے برطانیہ لا کر بے آسرا چھوڑ دیا۔

 برطانیہ میں اچانک یہ بحران کیوں پیدا ہوا؟

برطانیہ میں کل 16,726 کیئر ہومز ہیں جن میں 441,479 بزرگ مقیم ہیں، جن کی دیکھ بھال کے لیے 745,392 افراد مامور ہیں۔

اس کے علاوہ ایک بڑی تعداد ان بزرگوں کی بھی ہے، جو کسی کیئر ہوم کی بجائے اپنے اپنے گھروں میں رہائش پذیر ہیں لیکن ان کی دیکھ بھال کے لیے بھی کیئر ورکرز کی ضرورت ہوتی ہے۔

برطانیہ کے دارالعوام کے مطابق بزرگوں کی دیکھ بھال کے شعبے میں کام کرنے والے کل افراد کی تعداد 15 لاکھ 20 ہزار ہے۔

برطانوی ہوم آفس کے مطابق مارچ 2023 تک پچھلے ایک سال میں 170,993 ویزے اسکلڈ ورکز کو جاری ہوئے تھے۔

آکسفورڈ یونیورسٹی کی مائیگریشن آبزرویٹری کے مطابق اس سال مارچ تک ایک سال کے دوران 57,700 کیئر ورکرز کو ویزے جاری ہوئے، جبکہ اس شعبے میں کام کرنے والے لوگ جنہیں کسی ایسے ادارے نے نوکری دلائی ہے جو سپانسر لائسنس رکھتا ہے، ان کی تعداد جو پہلے 10 فیصد تھی اب گذشتہ ایک سال کے دوران بڑھ کر 39 فیصد ہو گئی ہے۔

مارچ 2022 تک کیئر ورکرز ویزا حاصل کرنے والے ممالک میں سر فہرست انڈیا، فلپائن، نائجیریا، گھانا، زمبابوے، کینیا، نیپال، پاکستان اور سری لنکا شامل ہیں۔

 کیئر ویزا کے ذریعے لوگوں کو کیسے بے وقوف بنایا گیا؟

انڈیپنڈنٹ اردو نے ہیلی فیکس میں امیگریشن کے ماہر مسعود اقبال جنجوعہ سے رابطہ کیا جو برطانیہ کے آفس آف دی امیگریشن سروسز کمشنر کے ساتھ گذشتہ 35 سال سے کام کر رہے ہیں اور 30 ہزار سے زائد درخواستوں کو نمٹا چکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کیئر ویزا ایک حالیہ فراڈ ہے، جس کا نشانہ زیادہ تر پنجابی بنے ہیں، چاہے وہ پاکستان کی طرف والے ہوں یا انڈیا کی طرف والے، باقی افریقی ممالک کے لوگ بھی اس کا شکار ہوئے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ برطانیہ کے یورپی یونین سے انخلا کے بعد کیئر ہومز میں افرادی قوت کی شدید قلت سامنے آئی کیونکہ اس سے پہلے رومانیہ اور مشرقی یورپ کے لوگ برطانیہ میں آ کر کیئر ہومز میں بزرگوں کی دیکھ بھال کی نوکریاں کرتے تھے۔

انہیں اس مقصد کے لیے ویزوں کی ضرورت نہیں ہوتی تھی، لیکن جب برطانیہ یورپی یونین سے علیحدہ ہو گیا تو ان ممالک سے لوگوں کا آنا بند ہو گیا، جس کا اثر یہ ہوا کہ برطانیہ میں کیئر ہومز افرادی قوت کی کمی کی وجہ سے ایک وقتی بحران سے دوچار ہو گئے۔

برطانوی حکومت ہر سال ان شعبوں کی ایک فہرست جاری کرتی ہے جن میں برطانیہ کو تربیت یافتہ افراد کی ضرورت پڑتی ہے۔ پہلے اس فہرست میں کیئر ورکرز کی کیٹیگری شامل نہیں تھی مگر برطانیہ میں ان کی شدید کمی کو دیکھتے ہوئے اس شعبے کو بھی عارضی بنیادوں پر شامل کر لیا گیا۔

اب اس کے بعد دو طریقے ہوتے ہیں کہ یا تو کیئر سینٹرز براہ راست ویزے ایشو کروا کر اپنے لیے ورک فورس بھرتی کریں یا پھر وہ یہ کام ان ایجنسیوں کے ذمہ لگا دیں جو ہوم آفس کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں۔

جب پاکستانیوں اور انڈین شہریوں نے دیکھا کہ اس ذریعے سے وہ غیر ہنر مند اور کم پڑھے لکھے لوگوں کو بھی بلا سکتے ہیں، جو صرف بنیادی انگریزی بول سکتے ہیں تو انہوں نے نرسنگ ہومز کے ساتھ مل کر یا برطانوی ویزا نظام میں موجود خامیوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دھڑا دھڑ ویزے ایشو کروا کر پاکستان، انڈیا، بنگلہ دیش، سری لنکا اور افریقی ممالک میں موجود ایجنٹوں کے ذریعے لوگوں کو پھانسنا شروع کر دیا۔

اس ویزے کی فیس صرف دو تین سو پاؤنڈ ہے مگر مارکیٹ میں یہ کئی ملین روپوں میں بیچے گئے۔ جب بڑی تعداد میں لوگ اس ویزے پر برطانیہ آ گئے تو یہاں انہیں فوری طور پر دو طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔

جن کیئر ہومز کے ویزے پر وہ یہاں آئے انہوں نے انہیں یا تو رکھا نہیں یا پھر رکھ کر فارغ کر دیا کہ وہ ان کے معیار پر پورا نہیں اترتے۔

اب ہوم آفس کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ چیک کرے کہ کس کا ٹیکس جمع ہو رہا ہے اور کس کا نہیں۔ جس کا نہیں ہو رہا اس کا ویزا کینسل ہو جاتا ہے اور وہ برطانیہ میں غیر قانونی ہو جاتا ہے۔

ایسی صورت میں یہ لوگ جو بڑی تعداد میں برطانیہ آچکے ہیں انہیں نہایت ہی مخدوش حالات کا سامنا ہے۔ انہیں ایجنٹوں نے جنت دکھا کر مسائل کی ایسی دلدل میں دھکیل دیا، جہاں سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں۔

 پاکستانی قوانین اور پروسیجر میں سقم کہاں ہے؟

ملازمت کے لیے بیرون ملک جانے والوں کی دیکھ بھال کے لیے ایک سرکاری ادارہ بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ موجود ہے، جس کا کام بیرون ملک جانے سے پہلے ان کے کاغذات کی جانچ پڑتال ہے۔

اس دوران یہ تسلی کی جاتی ہے کہ کہیں انسانی سمگلنگ تو نہیں ہو رہی یا ان کے ساتھ ملازمت کے نام پر فراڈ تو نہیں ہو رہا؟

رجسٹریشن کے بعد بیرون ملک ملازمت کے لیے جانے والے کچھ سہولیات کے اہل ہو جاتے ہیں۔ ان میں بیرون ملک قانونی مدد، بیرون ملک سفارت خانوں کے ذریعے ہر طرح کی اشک شوئی، اگر ان کے آجر کی جانب سے کسی معاہدے کی خلاف ورزی کی جا رہی ہو تو اس معاملے پر عدالتی چارہ جوئی یا متعلقہ حکومتوں کے سامنے متاثرین کی وکالت کرنا، اس کے علاوہ زندگی کا بیمہ وغیرہ اور دیگر ان تمام سہولیات جو حکومت بیرون ملک پاکستانیوں کو فراہم کرتی ہے۔

ان میں بیرون ملک کسی بھی مشکل صورت حال میں مالی مدد بھی شامل ہے۔ برطانیہ میں بھی جو پاکستانی کیئر ویزے پر گئے ہیں ان کی رجسٹریشن کی گئی ہے، لیکن پھر ان کے ساتھ فراڈ کیسے ہوا؟

اس حوالے سے اوورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹرز ایسوسی ایشن کے سابق چیئرمین سرفراز ظہور چیمہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہ لوگ ایجنٹوں کے ذریعے گئے ہیں اور ان کا ویزا یہاں کسی رجسٹرڈ ریکروٹنگ ایجنسی یا پھر سرکاری ادارے اوورسیز ایمپلائمنٹ کارپوریشن نے پراسیس نہیں کیا۔

اگر وہ پراسیس کے عمل میں شریک ہوتے تو وہ انہیں بھجوانے سے پہلے ہر حوالے سے تسلی کرتے کہ ان کے ساتھ وہاں کوئی مسئلہ نہ ہو۔ وہاں کی ایجنسیوں نے ویزے ایشو کروائے اور یہاں ایجنٹوں کے ذریعے ان لوگوں کے ویزے لگوائے گئے۔

ایجنٹوں نے ان کو حکومت کے پروٹیکٹر آفس سے سٹکر لگوا دیے۔ اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پروٹیکٹر آفس کہتا کہ آپ کسی رجسٹرڈ ریکروٹنگ ایجنسی کے ذریعے آئیں تاکہ کل کوئی مسئلہ ہو تو حکومت کسی سے پوچھ تو سکے مگر سرکار کے قانون میں سقم موجود ہے اور وہ انفرادی طور پر بھی سٹکر لگا دیتے ہیں۔

اس حوالے سے جب بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ کے ایک ذمہ دار افسر سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ایسا قانون میں کسی سقم کے تحت نہیں بلکہ ایک سہولت کے تحت کیا جاتا ہے کیونکہ بہت سے لوگوں کو ویزے ذاتی کوشش سے براہ راست ملتے ہیں۔

جب وہ چلے جاتے ہیں تو وہ کسی بھی مسئلے میں مدد کے لیے پاکستان کے بیرون ملک سفارت خانوں سے رابطہ کر سکتے ہیں۔

جب تک حکومت اور اس کے کرتا دھرتا حرکت میں آ کر یہ سقم دور نہیں کرتے، تب تک فرزانہ خان جیسے پاکستانی اس فراڈ اسکیم کا نشانہ بنتے رہیں گے۔

بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close