چاند بنا قبرستان، امریکی مشن ستر لوگوں کی باقیات چاند پر لے کر جائے گا۔۔

ویب ڈیسک

ہندو دھرم کے پیروکاروں کی طرف سے مرنے والوں کی استھیاں گنگا میں بہانے کے بارے میں تو آپ جانتے ہی ہونگے، لیکن اب امریکہ کے کیپ کیناورل سے ایک راکٹ ایک ایسے منفرد مشن پر روانہ ہو رہا ہے، جو ستر سے زیادہ لوگوں کی باقیات / استھیاں چاند پر لے کر جائے گا

بچپن کی وہ بات بھی آپ کو یاد ہی ہوگی، جب کسی مرنے والے کے بارے میں بات کرتے ہوئے بچوں سے کہا جاتا تھا کہ انسان مرنے کے بعد آسمان کا ستارہ بن جاتا ہے

ایسا ہی کچھ سولہ سالہ لیام آنند کی والدہ ندائن بھی کہتی ہیں، جن کے بیٹے لیام کی باقیات بھی ان ستر مرنے والوں میں شامل ہیں، جو چاند پر لے جائی جائیں گی

ندائن کا کہنا ہے ”جب میں باہر آ کر اوپر دیکھوں گی تو مجھے معلوم ہوگا کہ اس کا جسم چاند پر کہاں ہے۔۔ یہ جادوئی اور جذباتی طور پر تسلی بخش ہوگا“

کینیڈا کے شہر ڈیپے سے تعلق رکھنے والے لیام کی سنہ 2018 میں ایک موٹرسائیکل حادثے میں موت ہو گئی تھی۔ اس وقت لیام کا خاندان ان کی آخری رسومات کے لیے روایتی طریقے سے کچھ مختلف کرنے کا سوچ رہا تھا

ندائن نے وضاحت کرتے ہوئے کہا ”ہم کچھ ایسا چاہتے تھے جو اس کی شخصیت کی نمائندگی کرے“

لیام کے اہلِ خانہ انہیں ایک ایسے پرجوش نوجوان کے طور پر یاد کرتے ہیں، جو ہمیشہ جلدی میں نظر آتا تھا، جب وہ بڑا ہوا تو مریخ کے خلائی مشن کا حصہ بننے کا خواب دیکھنے لگا، یا پھر وہ کان کنی کے کاروبار میں شامل ہونے کا خواہشمند تھا

لیام کی موت کے کئی سال بعد ایک دن دوپہر کے وقت ندائن کو خلا کے ساتھ اس کی محبت یاد آئی اور اس نے آن لائن تلاش شروع کی اور پھر اس کے نتیجے میں انہیں چاند پر ایک میموریل سروس کا پتا چلا

اب لیام کی استھیوں کا ایک حصہ پیریگرین قمری جہاز سے سیٹلائٹ کے ذریعے چاند پر بھیجا جائے گا

ندائن کہتی ہیں کہ ان کے بیٹے کے مشن کا حصہ بننے سے خاندان کو اپنا دکھ کم کرنے میں مدد ملی ہے اور یہ غیر معمولی آرام گاہ انھیں اسے یاد رکھنے کا مستقل وسیلہ فراہم کرے گی

انھوں نے کہا ”وہ خلا میں جانا چاہتا تھا۔ اس طرح ان کا خاندان، اس کے دوست، جو بھی اسے یاد کرتے ہیں، وہ ایسا چاہتے ہیں کہ جب وہ چاند کو دیکھیں تو اسے ہیلو کہہ سکیں۔۔ایسا لگتا ہے کہ ہم اس کا خراجِ تحسین پیش کر رہے ہیں“

چاند پر باقیات پہنچانے کی خدمات فراہم کرنے والی کمپنی کے سی ای او چارلس شیفر کا کہنا ہے کہ ان کے کاروبار کا انسانی پہلو اتنا ہی اہم ہے جتنا ایرو سپیس ٹیکنالوجی

وہ کہتے ہیں ”جب میں نے کمپنی کی بنیاد رکھی تو میں نے سوچا کہ ہم ایک ایرو اسپیس کمپنی بنیں گے، لیکن بہت جلد میں نے محسوس کیا کہ ہم ایک غم کا علاج کرنے والی کمپنی ہیں“

چارلس شیفر نے ایک اسکولی طالب علم کے طور پر چاند پر اپالو مشن کو جاتا دیکھنے کے بعد تجارتی خلائی صنعت میں اپنے کریئر کا آغاز کیا، جس میں پرائویٹ فنڈڈ تجارتی راکٹ لانچ میں تعاون شامل تھا

سنہ 1995 میں انہوں نے سیلسٹس نامی کپنی کی بنیاد رکھی جو کہ ابتدا میں لوگوں کی باقی ماندہ استھیاں ان کے ڈی این اے کے نمونے مدار میں رکھتی تھی۔ اب انسانی باقیات کو چاند پر لے جانے کے لیے ان کی کمپنی نے قمری مشن کے تحت پیریگرین ماڈیول میں جگہ خریدی ہے، جس کا بنیادی مقصد سائنسی تجربات کو چاند پر لے جانا ہے

چارلس شیفر کے مطابق، ان کی اس نئی سروس کی قیمت امریکہ میں روایتی طور پر آخری رسومات منانے کی قیمت کے برابر ہے، یعنی اس پر تیرہ ہزار امریکی ڈالر خرچ آئے گا

سائنس سے محبت ہی انھیں اس صنعت کی طرف لے گئی ہے، لیکن اب انھیں خاندانوں کو ان کے سانحے سے نمٹنے میں مدد فراہم کرنے میں تسلی ہوتی ہے اور انہیں یہ چیز خاص طور پر فائدہ مند محسوس ہوتی ہے کہ ان کی خدمات ان لوگوں کے لیے خوشی کا باعث بن سکتی ہیں، جو شدید بیماریوں میں مبتلا ہیں

شیفر کہتے ہیں کہ انھیں اس بات سے بہت سکون ملتا ہے جب لوگ ان سے یہ کہتے ہیں کہ ’میرے والد اپنے آخری دنوں میں زیادہ تر افسردہ رہتے تھے، لیکن جب میں نے انھیں بتایا کہ ہم ان کے لیے کیا کرنے جا رہے ہیں، تو وہ ایسے مسکرائے جیسے لگا کہ ساری زندگی مسکراتے رہے ہیں‘

شیفر نے کہا ”ایسے بہت ہی کم کام ہیں، جہاں آپ کو اس قسم کا ردعمل ملتا ہو“

 

ایک لاکھ سال

مائیکل کلائیو کے والد کینسر کے مرض میں مبتلا اور سخت بیمار تھے۔ مائیکل کو وہ لمحہ یاد ہے جب انہوں نے اپنے والد ایلن کلائیو کو کہا تھا کہ انہوں نے ان کی کچھ استھیاں چاند پر بھیجنے کا منصوبہ بنایا ہے

انھوں نے کہا ”جب میں نے اپنے والد کو بتایا کہ ہم ان کی استھیاں چاند پر بھیجنے جا رہے ہیں، تو انہوں نے مسکرا کر کہا، ’ٹھیک ہے، یہ بہت اچھا ہے‘۔“

مائیکل کے والد ایلن نے جب سنہ 1950 کی دہائی میں پڑھنا لکھنا شروع کیا تھا تو انہیں سائنس فکشن کی صنف سے جنون کی حد تک محبت تھی، جبکہ مائیکل کو ’سسٹار ٹریک: دی نیکسٹ جنریشن‘ سیریز سے دلچسپی تھی۔ وہ اس فلم کو اپنے اہل خانہ کے ساتھ دیکھتے اور ان کی بہن ایلن کو اس فلم کی ایکشن کی کہانی سناتی جو اس وقت تک اپنی آنکھوں کی روشنی کھو چکے تھے

ان کے والد ان گروپوں میں حصہ لیتے تھے، جو خلا کے بارے میں تعلیم دیتے تھے۔ وہ پلینٹری سوسائٹی اور چیلنجر سنٹر کا بھی حصہ تھے۔ انہی کے ذریعے ایلن کی ملاقات یوجین شومیکر سے ہوئی

اب تک مشہور ماہر فلکیات اور ماہر ارضیات شومیکر ہی وہ واحد شخص ہیں، جن کی استھیاں چاند پر رکھی گئی ہیں۔ وہ سنہ 1997 میں فوت ہو گئے تھے

ان کی باقیات کا کچھ حصہ ناسا کی تحقیقات کے تحت چاند کو روانہ کی جانے والی خلائی گاڑی میں رکھا گیا تھا اور اسے دانستہ طور پر چاند پر گرایا گیا تھا تاکہ سائنسدان اس کے اثرات کا مطالعہ کر سکیں۔

مائیکل کو خوشی ہے کہ ان کے والد کی استھیوں کو ایک نرم، زیادہ روایتی لینڈنگ کے ساتھ چاند پر پہنچایا جائے گا اور یہ کہ چاند کی جراثیم سے پاک، موسم سے پاک سطح کا مطلب ہے کہ وہ ہزاروں سال تک وہاں موجود رہیں گی

ان کا خیال ہے کہ یہ ایک ہزار سالوں تک وہیں پڑی رہیں گی، اور شاید دس سالوں تک وہیں پڑی رہیں یا یہ بھی ممکن ہے کہ ایک لاکھ سالوں تک وہیں رہے۔ وہ کہتے ہیں ”اور ایسا کچھ نہیں ہے جو زمین پر اتنی دیر تک رہ سکے“

وہ یہاں تک امید کرتے ہیں کہ اگر نئی ٹیکنالوجی خلائی سفر کو مزید معمول بناتی ہے تو جب ان کے بچے بڑے ہوں گے تو ممکنہ طور پر ایک دن اپنے دادا سے ملنے کے لیے چاند کا سفر کریں گے

مستقبل قریب میں ندائن اپنے شوہر سنجیو اور لیام کے چار بھائیوں کے ساتھ پیریگرین خلائی جہاز کی لانچنگ دیکھنے کی منتظر ہیں۔

وہ کہتی ہیں ”اگر لیام دیکھ سکتا کہ ہم اس کے لیے کیا کر رہے ہیں، تو وہ خوش ہو جاتا کیونکہ اسے توجہ پسند تھی، اگرچہ بہت زیادہ نہیں“

انھوں نے مزید کہا ”یہ لانچ ہماری جذباتی بحالی کے عمل اور غم کو کم کرنے کا ذریعہ ہوگا۔۔ یہ ایک خوشی کا لمحہ ہوگا۔ میں جانتی ہوں کہ آنسو ضرور ہوں گے، لیکن وہ خوشی کے آنسو ہوں گے۔“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close