’ہم جیسوں کے دن آتے ہیں تو موت بیچ میں ٹپک پڑتی ہے‘ بلال پاشا: غربت سے سی ایس ایس میں کامیابی تک کا سفر اور اچانک موت۔۔

ویب ڈیسک

دیہاڑی دار مزدور کا بیٹا، مشکل حالات میں تعلیم کا حصول، سی ایس ایس میں کامیابی اور پھر خودکشی۔۔ یہ المناک کہانی ہے خیبرپختونخوا کے ضلع بنوں کے کنٹونمنٹ بورڈ میں چیف ایگزیکٹو آفیسر کے طور پر کام کرنے والے نوجوان بلال پاشا کی، جن کا نام سوشل میڈیا پر ٹرینڈ کر رہا ہے، جس کی وجہ ان کی اچانک موت کی خبر ہے، جس نے سب کو ہلا کر رکھ دیا ہے

بلال پاشا کا تعلق خانیوال کے علاقہ عبدالحکیم سے تھا۔ مالی مشکلات سے بھرپور ان کا تعلیمی سفر مدرسے میں پرائمری تعلیم سے شروع ہوا۔ رکاوٹوں کے باوجود، بلال کا عزم انہیں انٹرمیڈیٹ کی تعلیم کے لیے ایمرسن کالج ملتان اور یونیورسٹی آف فیصل آباد تک لے گیا، جہاں انہوں نے زراعت میں ڈگری حاصل کی

بلال پاشا ایک غریب گھر میں پیدا ہوئے، لیکن اپنے والدین کا خواب پورا کرنے کے لیے انہوں نے دن رات محنت کی اور پھر 2019 میں سی ایس ایس افسر بن کر وہ کر دکھایا، جس کا لاکھوں کروڑوں نوجوان خواب ہی دیکھتے رہ جاتے ہیں

گذشتہ روز سے بلال پاشا کا نام سوشل میڈیا پر ٹرینڈ کر رہا ہے، لیکن اس بار اس کی وجہ ان کی اچانک موت کی خبر ہے، جس نے سب کو ہلا کر رکھ دیا اور کئی سوالات کو بھی جنم دیا ہے

ریسکیو 1122 کے مطابق بلال پاشا پیر (27 نومبر) کو بنوں میں اپنی رہائش گاہ پر مردہ حالت میں پائے گئے تھے، جن کی نماز جنازہ کے بعد ان کی میت ان کے آبائی علاقے منتقل کر دی گئی

پولیس کے مطابق بلال پاشا نے مبینہ طور پر خود کو گولی مار کر خودکشی کی ہے۔ پیر کو واقعے کی اطلاع ملنے پر پولیس اہلکار جائے وقوعہ پر پہنچے اور بلال پاشا کو سی ایم ایچ ہسپتال منتقل کیا، جہاں مقامی ڈاکٹرز نے ان کی موت کی تصدیق کی

ڈی ایس پی کینٹ عظمت خان نے تصدیق کی ہے کہ سی ای او کنٹونمنٹ بورڈ بلال پاشا کئی دنوں سے ذہنی دباؤ کا شکار تھے اور ان کی موت خودکشی سے ہوئی

ایکس پر کئی لوگ یہ لکھنے پر مجبور ہو گئے کہ ’جب غریبوں کے دن آتے ہیں تو موت بیچ میں ٹپک پڑتی ہے۔‘

بلال نے پرائمری تعلیم خانیوال کے ایک مکتب اسکول/ مدرسے سے حاصل کی اور اس کے بعد اسی علاقے کے ایک سرکاری اسکول سے میٹرک کیا۔ ایم فل کے لیے انہوں نے یونیورسٹی آف ایگریکلچر، فیصل آباد کا انتخاب کیا

اس کے بعد وہ پولیس میں سب انسپکٹر بھرتی ہوئے اور مختلف سرکاری اداروں میں 16ویں اور 17ویں اسکیل کی ملازمت کرتے ہوئے 2018 میں سی ایس ایس کا امتحان پاس کرنے میں کامیاب ہو گئے

قابل ذکر بات یہ ہے کہ بلال نے انتہائی مسابقتی سول سروس آف پاکستان کے امتحان میں 47 واں رینک حاصل کیا تھا۔ بلال نے اپنے کیریئر کا آغاز ایک پرائیویٹ نوکری سے کیا مگر اپنے والد کی خواہش پر گورنمنٹ سروس میں قدم رکھا

جہاں دنیا اپنا ماضی چھپاتی ہے، وہیں بلال نے ایک دیہاڑی دار مزدور کا بیٹا ہونے پر فخر محسوس کیا اور نوجوانوں کو پیغام دیا کہ زندگی میں کچھ بھی حاصل کرنا ہو تو اس کے لیے امیر ہونا لازم نہیں

بلال نے سی ایس ایس پاس کر کے ان نوجوانوں کو بھی ہمت دلائی جن کا خیال تھا کہ یہ سروس صرف مالی استطاعت رکھنے والے طبقے کے لیے ہے

ایکس پر بلال پاشا کی کئی وڈیوز زیر گردش ہیں، جن میں سے ایک وڈیو وہ ہے، جس میں وہ اپنے منہ بولے والد بشیر احمد کے ساتھ کھڑے اپنی سی ایس ایس میں کامیابی حاصل کرنے کی کہانی لوگوں کو سنا رہے ہیں

اس وڈیو میں بلال پاشا کا کہنا تھا کہ وہ پرائیویٹ سیکٹر میں کام کر رہے تھے لیکن ان کے والد کی خواہش تھی کہ وہ گورنمنٹ سیکٹر میں شمولیت اختیار کریں۔ انہوں نے کہا کہ ان کے والد ایک دیہاڑی دار مزدور ہیں اور انہیں فخر ہے کہ وہ ایک مزدور کے بیٹے ہیں

انہوں نے اس وڈیو میں نوجوانوں کو یہ بھی بتایا کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ سی ایس ایس کے لیے بہت پیسہ یا ایلیٹ کلاس کا ہونا ضروری ہے یا آپ کی فیملی میں کوئی بیوروکیٹ ہونا چاہیے، آپ میں بس جذبہ ہونا چاہیے

انہوں نے اپنی کامیابی کی کہانی میں یہ بھی بتایا کہ ان کے خاندان میں بس دو تین لوگوں نے ہی میٹرک کر رکھا ہے اور انٹر تک بھی کوئی نہیں پہنچ سکا

بلال پاشا نے 2019 میں ہم نیوز کے ایک مارننگ شو میں بطور مہمان شرکت کی تھی، جس کا کلپ اس وقت سوشل میڈیا پر وائرل ہے

اس انٹرویو کے دوران اپنی والدہ کو یاد کرتے ہوئے وہ انتہائی جذباتی دکھائی دیے۔ بلال نے بتایا کہ انہوں نے اپنے اس سی ایس ایس کے سفر میں اپنی والدہ کو کھو دیا، اور وہ ان کی اس کامیابی کو نہیں دیکھ سکیں

مارننگ شو میں اپنی کامیابی کا کریڈٹ اپنی والدہ کو دیتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا ”آج میں جو کچھ بھی ہوں اپنی ماں کی وجہ سے ہوں۔ انہوں نے جاتے ہوئے کہا تھا کہ ’بلال تمہیں بہت بڑا آفیسر بننا ہے۔“

اسی پروگرام کے آخر میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ کامیابی کے بعد “میں سب سے پہلے ان (والدہ) کی قبر پر گیا اور سیلوٹ کیا۔ اگر آج وہ زندہ ہوتیں تو بتاتیں کہ میں نے جو بیج بویا تھا، وہ آج تناور درخت بن گیا ہے“

بابا! میرا دل چاہتا ہے کہ نوکری چھوڑ کر گھر آ جاؤں اور دل بھر کر سو سکوں

بلال پاشا کے والد احمد یار نے بلال سے اُن کی آخری مرتبہ فون پر ہونے والی بات چیت کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا ”بلال سے میری ہفتے کو بات ہوئی تو وہ بتا رہا تھا کہ اس کا تبادلہ ہو گیا ہے“

احمد یار نے روتے ہوئے بتایا ”آٹھ دس روز پہلے ایک دن فون پر بلال کہہ رہا تھا کہ بابا میرا دل چاہتا ہے کہ نوکری چھوڑ کر گھر آ جاؤں یا کچھ دنوں کی چھٹی لے لوں تاکہ دل بھر کر سو سکوں۔ اب راولپنڈی جا کر چھٹی کی درخواست دے کر گھر آتا ہوں“

احمد یار نے بتایا کہ اُن کے پانچ بیٹے تھے، جن میں بلال سب سے چھوٹا تھا۔ احمد یار کے ایک بھائی بشیر احمد کی اولاد نہیں تھی، اس لیے انہوں نے اپنے بھتیجے بلال کو گود لے لیا تھا اور جوائنٹ فیملی ہونے کے باعث بلال کی پرورش دونوں خاندانوں نے مل کر کی

احمد یار نے اتوار اور پیر کے روز کی روداد بتاتے ہوئے کہا ”اتوار کے روز فجر کی نماز کے وقت مجھے بلال کا فون آیا تھا، میں حیران تھا کہ اس وقت تو وہ فون نہیں کرتا، معلوم نہیں کیوں فون کیا ہوگا“

انہوں نے کہا ”اس کے بعد بلال کی بات اپنے دوست سے ہوئی تھی اور وہ یہی بتا رہا تھا کہ وہ اسلام آباد جا رہا ہے، اگر کسی چیز کی ضرورت ہو تو بتاؤ۔ اس کے بعد جب میں نے بلال کو فون کیا تو بات نہیں ہو سکی کیونکہ بلال نے فون نہیں اٹھایا، میں یہی سمجھا کہ شاید سو گیا ہوگا۔۔ اسی طرح پھر گیارہ بجے اور ساڑھے بارہ بجے میں نے دوبارہ کالز کیں لیکن بلال نے فون نہیں اٹھایا۔ مجھے فکر لاحق تھی لیکن یہی سوچتا رہا کہ بلال سویا ہوا ہوگا“

والد کے مطابق ”وہ رات دیر گئے بھی مسجد میں بیٹھ کر بلال کو فون کرتے رہے لیکن رابطہ نہیں ہو سکا۔ پھر میں نے یہی سوچا کہ بلال اٹھے گا تو یہ دیکھے گا کہ بابا نے اتنی کالیں کی ہیں تو خود فون کرے گا، لیکن بلال کا فون نہیں آیا۔۔“

احمد یار نے بتایا ”پیر کے روز صبح میں نے بلال کے ایک دوست کو فون کیا، جس نے کمرے میں جا کر دیکھا تو اندر سے دروازہ بند تھا۔۔دوست نے مجھے بتایا کہ جب وہ دروازہ توڑ کر اندر داخل ہوئے تو بلال زندہ نہیں تھا۔ ہمیں نہیں معلوم کہ کیا ہوا ہے، ہم سے اس نے کوئی ایسی بات بھی نہیں کی کہ جس سے کوئی پریشانی ظاہر ہوتی ہو“

ان کے مطابق بلال پاشا نے دو، تین سال پہلے شادی کی تھی لیکن کچھ عرصہ بعد ان کی علیحدگی ہو گئی تھی

انہوں نے کہا ”بلال میرا بیٹا تو تھا ہی لیکن ساتھ ساتھ بہت اچھا دوست بھی تھا۔ وہ اکثر اپنے دل کی باتیں میرے ساتھ کیا کرتا تھا“

بلال انتہائی خوش مزاج لڑکا تھا، ہر محفل کی جان ہوتا تھا

دوسری جانب اسسٹنٹ کمشنر بنوں اور بلال کے دوست سید ابرار علی شاہ بتاتے ہیں ”بلال نے مجھ سے کبھی کوئی ایسی بات نہیں کہی، جس سے گمان ہو کہ وہ ذہنی دباؤ کا شکار ہیں۔ بالکل بھی نہیں۔ کبھی ایسا گمان بھی نہیں ہوا، کچھ سمجھ نہیں آ رہی کہ یہ کیسے ہو گیا۔ وہ تو راولپنڈی جانے کی بات کر رہا تھا، پیر کو اس نے چارج ہینڈ اوور کر کے پنڈی جانا تھا“

ابرار اور بلال سول سروسز اکیڈمی کے دوران ہی دوست بنے تھے

ابرار کے مطابق ”بلال انتہائی خوش مزاج لڑکا تھا، ہر محفل کی جان ہوتا تھا اور اس کا رویہ ہر وقت ہی دوستانہ رہتا تھا“

بلال پاشا بنوں میں کنٹونمنٹ بورڈ کے چیف ایگزیکٹو کی ذمہ داریاں نبھانے کے ساتھ ساتھ ’لرن ود بلال پاشا‘ کے نام سے یوٹیوب چینل بھی چلاتے تھے، جس میں وہ نوجوانوں کو سی ایس ایس کے حوالے سے بتاتے تھے

بلال پاشا انسٹاگرام پر 39 ہزار سے زیادہ فالوورز کے ساتھ سوشل میڈیا پر بھی کافی مقبول تھے۔ بلال کی نجی لیکن بااثر آن لائن موجودگی نے ان کے ساتھیوں اور مداحوں کی طرف سے یکساں خراج تحسین وصول کیا ہے

وہ ٹک ٹاک پر وڈیوز بھی بناتے تھے اور اپنی روز مرہ زندگی اور خیالات کے بارے میں بھی لوگوں کو آگاہ رکھتے تھے۔ ان میں سے کئی وڈیوز اس وقت ایکس پر وائرل ہیں

ان ہی میں سے ایک وڈیو میں بلال یہ بھی کہتے نظر آئے کہ ان کے پاس سب کچھ ہے، لیکن پھر بھی وہ اپنے آفس میں بیٹھ کر کبھی روتے ہیں کیونکہ ان کا دل کرتا ہے کہ ان کی والدہ ان کے سر پر ہاتھ پھیر کر کہیں کہ ’چل بیٹا تیری خیر ہو‘

ان کی کلاس یعنی 47 کامن کی شانزا فائق نے سوشل میڈیا سائٹ ایکس پر لکھا ”میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ میں اپنے کلاس فیلو کے بارے میں ایسی خبر کبھی پوسٹ کروں گی لیکن یہ بتاتے ہوئے میرا دل ٹوٹ رہا ہے کہ میرے کلاس فیلو اور دوست کی المناک موت ہو گئی ہے“

ان کے ایک اور بیچ میٹ منہاج مہدی نے لکھا ”وہ انتہائی نرم مزاج تھے اور ایک بہترین افسر تھے“

بلال پاشا کی موت پر گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور نے بھی ایکس پر بلال پاشا کی ایک تصویر شیئر کی اور ساتھ میں ایک شعر لکھا:
یہ کس مقام پہ سوجھی تجھے بچھڑنے کی،
کہ اب تو جا کے کہیں دن سنورنے والے تھے

ان کی اچانک موت کی خبر نے ان کے دوستوں، ساتھیوں اور شاگردوں سمیت اُن کی زندگی کی جدوجہد پر مبنی کہانی سے متاثر ہونے والوں کو غمگین کر دیا ہے

اس المناک خبر نے اکثر افراد کو نہ صرف اس لیے بھی چونکا دیا کیونکہ یہ ایک جوان موت تھی بلکہ اس لیے بھی کہ ان کی جدوجہد کی کہانی نے انہیں سول سروسز کا امتحان دینے والوں کے لیے مشعلِ راہ بنا دیا تھا

نوجوان سی ایس پی افسر بلال پاشا کی اچانک موت نے جہاں سب کو اداس کیا، وہیں یہ سوال بھی کھڑا کر دیا کہ خوشی اور اطمینان کا کامیابی سے کوئی تعلق ہے بھی یا نہیں؟

بلال کی موت کی خبر نے سب کو ہی غمگین کر دیا ہے۔ سوشل میڈیا پر صارفین افسوس کا اظہار کر رہے ہیں۔
جہاں بلال نے زندگی کی تلخیوں کا سامنا کرتے ہوئے اپنے لیے ایک مقام بنایا، وہیں ڈپریشن اور ذہنی دباؤ نے ان کی جان لے لی۔ سوشل میڈیا پر ڈپریشن لفظ ٹاپ ٹرینڈ بن چکا ہے اور لوگ اس کی سنگینی کا اندازہ اپنی پوسٹس کے ذریعے کروا رہے ہیں

ایکس کی ایک صارف نے بلال پاشا کی تصویر کے ساتھ لکھا: ”کیا آپ کو لگتا ہے کہ زندگی آپ کو کئی موقع دیتی ہے؟ تو اس کا جواب ہے نہیں“

فہد چشتی نامی شخص نے اپنی پوسٹ میں لکھا ”ڈپریشن ایک عام اور سنگین طبی بیماری ہے، جو منفی طور پر انسان کے احساسات اور سوچنے کی صلاحیت کو متاثر کرتی ہے۔ ڈپریشن مختلف قسم کے جذباتی اور جسمانی مسائل کا باعث بن سکتا ہے اور آفس یا گھر پر کام کرنے کی آپ کی صلاحیت کو کم کر سکتا ہے“

صدیق رحمان نامی سوشل میڈیا صارف نے اپنی ٹویٹ میں لکھا ”عرفان خان نے کیا زبردست جملہ بولا تھا کہ جب ہم جیسوں کے دن آتے ہیں تو موت بیچ میں ٹپک پڑتی ہے۔“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close