فلسطینی كُوفية: زیتون اور ماہی گیری کے جال میں پنہاں مزاحمت

حسنین جمال

اگر زیتون کے درختوں کو خبر ہوتی
کہ
جن ہاتھوں نے انہیں زمین میں لگایا
ان کا انجام کیا ہوا
تو
ان کے پھلوں سے نکلتا ہوا تیل
آنسوؤں کی صورت برآمد ہوتا

فلسطینی عوام اور زیتون کے درختوں کے تعلق بہت پرانا ہے، گہرائی میں جائیں تو 3600 قبل مسیح تک زیتون کی تجارت اور کاشت، دونوں کی مستند تاریخ موجود ہے۔

محمود درویش نے بھی وہی وابستگی اپنی شاعری میں ڈھال دی، لیکن ایک بڑے سے رومال کی کہانی میں یہ شاعری، فلسطینی شاعر اور زیتون کے درخت کہاں سے آ گئے؟

بتاتا ہوں، پہلے یہ جان لیجیے کہ 2015 تک اسرائیلی فوجیں انفراسٹرکچر، سڑکیں بنانے اور مختلف رہائشی عمارتوں کے چکر میں دس لاکھ سے زیادہ زیتون کے وہ درخت اکھاڑ چکی تھیں، جو کئی سو برس سے فلسطین میں اپنی جگہ پر موجود تھے۔ اس کے بعد کا شمار ہی کوئی نہیں، خود اسرائیلی اخباروں کی چلتی پھرتی گواہی موجود ہے!

اب ’كُوفية‘ پہ نظر ڈالیں، یہ جو ایک میٹر کا اسکارف ہے، اس کے بیرونی حصے پہ آپ کو جو ڈیزائن نظر آتا ہے، وہ زیتون کے پتے ہیں۔

’ہم اپنے وطن سے اس طرح جڑے ہوئے ہیں، جیسے کئی سو برس قدیم زیتون کے درختوں کی جڑیں زمین کے اندر کہیں بہت دور تک پیوست ہوتی ہیں۔‘

یہ جملہ بعینہ ایک فلسطینی سے مجھ تک پہنچا اور میں نے آپ تک پہنچا دیا تاکہ آپ كُوفية اور زیتون کا تعلق سمجھ سکیں۔ فلسطینی اور زیتون کی خوراک اس طرح لازم و ملزوم ہیں، جیسے آپ لوگ روٹی کھاتے ہیں۔

پچھلے پانچ سالوں کے دوران مغربی کنارے میں بہت سے فلسطینیوں کے ملکیتی زیتون کے درخت یہودی بستیوں کی حفاظت کے لیے حفاظتی باڑ لگانے کے نام پر کاٹ دیے گئے ہیں۔ کسان، جنہیں ہر سال صرف چند دنوں کے لیے باڑ کے اندر رہنے کی اجازت ہوتی ہے، کہتے ہیں کہ آباد کار ان کی زیادہ تر فصل ان کے پہنچنے سے پہلے چوری کر لیتے ہیں

تو اسرائیل ان درختوں کو پے در پے جلا کیوں رہا ہے، کاٹ کیوں رہا ہے، اسکارف پر یہ پتے کیوں موجود ہیں اور یہ مزاحمت کی علامت کس طرح ہیں، ان چیزوں کا تعلق اب واضح ہو گیا۔

اس کے بعد كُوفية پر جو تین کالی پٹیاں آپ کو نظر آتی ہیں، یا لائنیں ہیں، جن میں سے درمیان والی موٹی اور باقی دو پتلی ہیں، یہ فلسطین کے پرانے تجارتی راستوں کی نمائندگی کرتی ہیں۔ وہ قدیم سڑکیں جن کی وجہ سے فلسطین علاقائی تجارت کا مرکز ہوا کرتا تھا۔

لیکن فلسطین تجارتی مرکز کیوں تھا؟ یہ بات كُوفية کا تیسرا اور آخری اہم ڈیزائن واضح کرتا ہے، جس کی شکل مچھیروں کے جال جیسی ہے۔

مچھیروں کے جال نما یہ نقش بحیرہ روم کے اطراف میں بسنے والے فلسطینیوں کے اس قدیم ترین تعلق کو ظاہر کرتا ہے جو ازمنہ قدیم سے ان کا اس سمندر کے ساتھ رہا۔ اسے آپ ’من النهر إلى البحر‘ کے نعرے کی مدد سے بھی سمجھ سکتے ہیں۔ انگریزی میں سرچ کرنا ہو تو ’From the river to the sea‘ کا سلوگن ڈھونڈیے۔ اردو سمجھنا ہے تو بسم اللہ؛ ’دریائے اردن سے بحیرہ روم تک، ایک ہی ملک فلسطین۔‘

1960ع سے موجود اس نعرے اور كُوفية کے اس فش نیٹ کا مطلب کیا ہوا؟ یعنی فلسطینی اس رومال کو سر پہ باندھ کر یا گلے میں لٹکا کر اپنی قدیم ترین علاقائی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں، وہ اہمیت جو سمندر کنارے بسے کسی بھی شہر کی ہو سکتی ہے، جیسے سعودی عرب کا جدہ، انڈیا کا ممبئی، آسٹریلیا کا سڈنی، عرب امارات کا دبئی، ترکی کا استنول یا آپ کا کراچی!

قرآن میں زیتون کی قسم کھائی گئی ہے، سات مرتبہ اس کا ذکر موجود ہے، ابنِ ماجہ کی حدیث سامنے ہے کہ اول تو مسجدِ اقصیٰ میں ایک نماز کا ثواب ایک ہزار راتوں کے برابر اور اگر کوئی مسلمان وہاں پہنچ نہ سکے تو اسے چاہیے کہ مسجد کو زیتون کا تیل نذر کرے چونکہ وہاں اس تیل سے دیے جلائے جاتے ہیں اور اس کا ثواب بھی وہاں جانے کے برابر ہے۔

جہاں اتنے سارے حوالے ہوں، مقامی لوگوں کی زیتون کے درختوں سے اپنی اولاد جیسی محبت ہو، کئی گیت اس وابستگی پر ہوں، وہاں مخالف ملک کیا زیتون کا ایک درخت باقی بھی رہنے دے سکتا ہے؟ اُدھر ظاہری بات ہے ماحولیاتی مسئلے بھی کہاں کسی کو یاد آتے ہیں۔ تو یہ جو كُوفية پر زیتون کے پتے ہیں، وہ بس یہ سب کچھ ہے۔

كُوفية کی تاریخ کم از کم تین ہزار سال قبل مسیح تک میسوپوٹیمیا کے ساتھ جا کے ملتی ہے، اسی حوالے سے یہ بھی روایت ہے کہ اس کا نام ’كُوفية‘ عراقی شہر کوفہ ہی کی وجہ سے پڑا۔

موجودہ دور میں یہ اسکارف اس وقت ٹھیک معنوں میں متعارف ہوا، جب انگریزوں کی جانب سے یہودی آبادکاری کے خلاف 1936ع میں فلسطینی جدوجہد شروع ہوئی۔

مختصراً یہ جان لیجے کہ 1933 میں ہٹلر کا دور شروع ہوا تو جرمنی سے یہودیوں کا انخلا پہلے کی نسبت زیادہ تیز ہوا اور یہ سب برطانیہ کے زیرِ انتظام فلسطین کا رخ کر رہے تھے، جہاں پہلی عالمی جنگ کے دوران حمایت کے عوض برطانیہ انہیں جغرافیائی برتری دینے کو تیار تھا۔ تو یہودیوں کی اس تیز تر نقلِ مکانی اور اپنا وطن اپنے پاس رکھنے کی فلسطینی تحریک جب تیز ہوئی تو مزاحمت کاروں کا واحد اور بڑا واضح نشان كُوفية تھا۔

1947ع میں برطانیہ نے صرف برِصغیر ہی کی تقسیم میں ہاتھ نہیں کیے، فلسطین بھی اسی برس برطانوی قبضے سے یہودیوں کے زیر تسلط گیا۔

اقوامِ متحدہ سے قرارداد پاس کروائی گئی کہ فلسطین کو تقسیم کر کے ایک یہودی اور ایک عرب ریاست قائم کی جائے جبکہ بیت المقدس بین الاقوامی شہر ہوگا۔ مئی 1948 میں اسرائیل بنا تو اگلے ہی روز پہلی اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں جہاں عرب ریاست بننا تھی، وہ علاقہ اسرائیل سمیت مختلف ممالک کے قبضے میں پہنچ گیا۔ پھر 1967ع میں جب دوبارہ فلسطینیوں پر جنگ مسلط ہوئی تو جن علاقوں پر اسرائیلی قبضہ ہوا، وہاں غیر قانونی بستیاں تعمیر کی گئیں، جن میں اس وقت لاکھوں یہودی آباد ہیں۔ اسی حملے میں اسرائیل نے بیت المقدس پر بھی ناجائز قبضہ کیا۔

فلسطین کا ہمیشہ یہ مطالبہ رہا ہے کہ اس کی سرحد 1967ع کی جنگ سے قبل کے نقشے پر طے ہونی چاہیے تاہم اسرائیل آج تک ایسی کسی بات کو تسلیم کرنے سے عاری ہے۔

1970ع میں عرب اسرائیل امن مذاکرات شروع ہوئے جن کے متعلق فلسطینی مزاحمت کار لیلیٰ خالد کا ایک جملہ نہ صرف قابل ذکر ہے، بلکہ اب تک مکمل منطبق ہے۔ ’یہ ایک سیاسی عمل ہے، جس میں طاقت کا سارا توازن اسرائیل کے حق میں ہے۔ ان کے پاس کھیلنے کے لیے تمام کارڈ ہیں اور فلسطینیوں کے پاس کوئی ایک آسرا بھی ایسا نہیں، جس پر وہ انحصار کر سکیں۔‘

لیلیٰ خالد نے اوائل عمر سے آج تک كُوفية کو ہمیشہ ایک الگ شناخت دی۔

یاسر عرفات فلسطین کی تاریخ میں ایک اہم رہنما رہے اور كُوفية ہمیشہ ان کے سر پہ موجود دیکھا گیا۔

1930 سے آج تک فلسطین کے مزاحمت کار آپ جہاں بھی دیکھیں گے، كُوفية سب سے پہلی شناخت آپ کو نظر آئے گا۔

اس کے بعد چشمِ فلک نے یہ بھی دیکھا کہ 2021ع میں لوئی وٹاں نے فلسطینی مزاحمت کا نشان كُوفية اپنا برانڈ بنا کے 705 ڈالر میں فروخت کرنا شروع کیا اور ’مہذب‘ ملکوں کی تنقید کے بعد اسے اپنا یہ قدم واپس لینا پڑا۔

2023 میں گوگل ٹرینڈز پہ اکتوبر سے اب تک كُوفية ایک راکٹ جیسا ٹرینڈ کر رہا ہے۔ ذاتی طور پہ مجھ سے پوچھیں تو پہلے سرخ اور سفید، بعد میں بلیک اینڈ وائٹ یہ عرب رومال مجھے مسجدوں میں صرف مولانا حضرات کے کندھوں پہ نظر آتا تھا یا بالی وڈ کی فلموں میں مسلمان کرداروں کو زبردستی پہنایا جاتا تھا۔ اب اس وقت میں دیکھتا ہوں کہ مذہب اور نسل سے قطع نظر كُوفية ہر عمر کے مرد و خواتین نہ صرف گلے میں لپیٹے نظر آ رہے ہیں بلکہ اس ڈیزائن کی قمیصیں اور جرسیاں بھی مارکیٹ میں آ چکی ہیں۔

بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close