وہ گھر میں اکیلا اور بیزار بیٹھا تھا۔
کبھی کبھی تنہا رہنا کتنا اذیت ناک ہوتا ہے۔ اکیلے بیٹھے بلاوجہ گھر کی ایک ایک چیز کو گھورتے رہنا۔۔
سوچنے کے لیے کوئی خیال یا موضوع بھی تو نہیں ہے کہ اسی کے بارے میں غور کیا جائے۔
عجیب و غریب خیالات و موضوعات ذہن میں آتے ہیں، جن پر غور کر کے کچھ بھی حاصل نہیں ہو سکتا۔
اس نے اپنا سر جھٹک کر سر اُٹھانے والے ان لایعنی خیالوں کو ذہن سے نکالا اور چھت کو گھورنے لگا۔
سفید دودھ کی سی چھت، بے داغ چھت، جس کے چاروں کونوں پر چار دودھیا بلب لگے تھے اور درمیان میں ایک فانوس لٹک رہا تھا۔ گذشتہ دنوں وہ یہ جھومر مدراس سے لایا تھا۔ اس کی قیمت پورے تیس ہزار روپیہ تھی۔
ایک فانوس تیس ہزار روپیہ قیمت۔۔! سوچ کر وہ خود ہی ہنس پڑا، گھر میں ایسی کئی چیزیں تھیں، جن کی قیمت لاکھوں تک ہوتی اور اس کے علاوہ پورا مکان؟
ایک کروڑ کا نہیں تو چالیس پچاس لاکھ کا ضرور ہوگا۔۔ اور اس کے سامنے چالیس پچاس لاکھ روپیہ کے مکان کی چھت تھی، جسے وہ اس وقت گھور رہا تھا۔
دس بیس سالوں قبل اس نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ اس کے سر پر چالیس پچاس لاکھ روپیوں کی چھت ہوگی۔ آج اس کی یہ حالت ہے۔
لیکن کبھی اس کے ایسے حالات تھے کہ اسے ٹوٹی چھت کے مکان میں رہنا پڑتا تھا۔
کیا وہ اس کو بھول سکتا ہے، نہیں۔۔ کبھی نہیں۔۔۔۔
انسان کو جس طرح اپنے اچھے دن ہمیشہ یاد رہتے ہیں، اسی طرح وہ اپنے برے دن بھی کبھی نہیں بھولتا۔۔ اور اس نے تو اس ٹوٹی ہوئی چھت کے نیچے پورے دوسال نکالے تھی، تب کہیں جا کر وہ ٹوٹی چھت بن سکی تھی۔ اس ٹوٹی چھت کے نیچے، اس کے خاندان نے کتنی تکلیفیں سہی تھیں۔ ان تکلیفوں اور اذیتوں کو وہ کبھی نہیں بھول سکتا۔
مکان، مکان کی چھت کس لیے ہوتی ہے؟
سردی، گرمی، بارش، دھوپ، ہوا سے انسان کی حفاظت۔۔۔۔۔ مکان میں رہنے کی یہی تو وجہ ہوتی ہے ۔
لیکن جس مکان کی چھت ہی ٹوٹی ہوئی ہو، اس میں رہنا کیا معنی؟ بارش کے دنوں میں پانی گھر کو جل تھل کر دیتا ہو اور اس طرح بہتا ہو، جیسے سڑک پر پانی بہہ رہا ہو۔
دھوپ سات بجے سویرے سے ہی گھر میں گھس کر جسم میں سوئیاں چبھونے لگتی ہو، دن ہو یا رات سردی جسم میں کپکپی پیدا کرتی ہو۔ تو اس چھت کے کیا معنی؟ ایسے میں کھلی سڑک پر آسمان کی چھت کے نیچے رہنا اچھا لگتا ہے، اس ٹوٹی چھت کے مکان میں رہنے کے مقابلے میں۔۔
چھت ٹوٹ گئی تھی، چھت کے ٹوٹنے پر ان کا کوئی بس نہیں تھا۔ مکان کافی پرانا ہو گیا تھا۔ داداجی کہتے تھے ’میرے دادا نے یہ مکان بنایا تھا۔‘
گھر کی چھت اور جن لکڑیوں پر وہ چھت ٹکی تھی، سینکڑوں گرمیاں، سردیاں، بارشیں دیکھ چکی تھیں۔ آخر اس کی قوتِ برداشت جواب دے گئی۔ ایک دن جب گھر میں کوئی نہیں تھا، سب کسی نہ کسی کام سے گھر کے باہر گئے تھے، چھت گر گئی۔کوئی جانی نقصان تو نہیں ہوا لیکن ان کا سارا سنسار منوں مٹی کے نیچے دب گیا۔
بڑی محنت اور مشکل سے ماں باپ، سب بھائی بہنوں نے مل کر اس سنسار کی ایک ایک چیز کو مٹی سے باہر نکالا تھا۔ مٹی نکال کر آنگن میں ڈھیر لگایا گیا۔ گلی سڑی لکڑیوں کا ایک طرف ڈھیر لگایا گیا اور گھر کی صاف صفائی کر کے مکان کو رہنے کے قابل بنایا گیا۔
اس کے بعد دو سالوں تک اس مکان کی چھت نہیں بن سکی۔ چھت کی مٹی برسات میں بہتی رہی اور گرمی سردی سے دب کر زمین پر مسطح ہو گئی۔
ساری لکڑیاں ایندھن کے طور پر استعمال ہو گئیں، اور گھر میں اس کے خاندان کے افراد کے ساتھ گرمی، سردی، بارش کا بسیرا ہو گیا۔
پتاجی کی اتنی آمدنی نہیں تھی کہ چھت بنائی جا سکتی۔ جو کچھ کماتے تھے، اس میں مشکل سے ان کا گھر چلتا تھا اور ان کی تعلیم کے اخراجات پورے ہو پاتے تھے۔
یہ جان کر ہی گھر کے ہر فرد نے اس ٹوٹی چھت کے ساتھ سمجھوتہ کر لیا تھا اور چاردیواری میں رہ کر بھی بے گھر ہونے کی ہر اذیت کو چپ چاپ برداشت کر رہے تھے۔ اس کے بعد وہ ٹوٹی چھت اس وقت بن پائی، جب پتاجی نے اپنی زمین کا ایک ٹکڑا بیچ ڈالا۔
آج جب وہ اس بارے میں سوچتا ہے تو اسے ایسا لگتا ہے شاید بھگوان نے اس ٹوٹی ہوئی چھت کے نیچے صبر سے رہنے، کسی طرح کی کوئی شکایت و گلہ نہ کرنے کا صلہ اسے اس چھت کی شکل میں دیا۔ اگر وہ شہر کے کسی بھی فرد کو بتاتے کہ وہ شہر کے کس حصے میں اور کس عمارت میں رہتا ہے تو وہ اس کے نصیب سے حسد کرنے لگتا۔
اس علاقے میں بنی عمارتوں میں رہنے کا لوگ صرف خواب دیکھتے رہتے تھے لیکن وہ وہاں رہ رہا تھا۔ ایک ایسی چھت کے نیچے، جس کا نام سُن کر ہی ہر شخص آسانی سے اس کے رتبہ اور حیثیت کا پتہ لگا لیتا ہے ۔
وہ چھت جو اسے اور اس گھر کے افراد کو گرمی، سردی، بارش سے بچاتی ہے ۔بچاتی کیا ہے۔۔ یہ موسم اس مکان میں داخل ہونے سے رہا۔اس کے گھر کے اپنے موسم، جن پر اس کا، اس کے گھر والوں کا اختیار ہے، یہ ان کے بس میں ہیں۔۔ موسموں کا گھر پر کوئی بس نہیں ہے ۔
باہر شدید گرمی ہے اندر ائر کنڈیشنر چل رہا ہے اور کشمیر سا موسم چھایا ہوا ہے ۔
باہر سردی ہے، لیکن پورا مکان اپنے اندر میٹھی میٹھی تپش لیے ہوئے ہے۔
ہوائیں اپنے بس میں ہیں۔
ہر چیز پر اپنا اختیار ہے ۔
دروازے پر آٹومیٹک تالا ہے، گھر کے افراد کے لمس کے بنا نہیں کھل سکتا۔
فرش پہ ایرانی قالین بچھا ہے۔ ڈرائینگ روم ایک منی تھیٹر کی طرح ہے، جہاں ڈسکوری چینل کوئی ٢١ فٹ کے پردے پر دکھائی دیتا ہے۔
پوری بلڈنگ میں با حیثیت لوگ رہتے ہیں بلکہ کچھ تو اس سے بڑھ کر ہیں۔ گپتاجی کا ایکسپورٹ کا بزنس ہے۔
متل جی ایک چھوٹے سے انڈسٹریل گروپ کے مالک ہیں ۔
شاہ شہر کا ایک نامی گرامی فینانسر ہے۔
نگم ایک بہت بڑا سرکاری آفیسر ہے۔
ہر کوئی ایک دوسرے سے بڑھ کر ہے۔
یہ الگ بات ہے کہ وہ ایک دوسرے کو کتنا جانتے ہیں یا ایک دوسرے کے لئے کتنے اجنبی ہیں، یہ تو وہ لوگ بھی نہیں بتا سکتے۔ جب ان کے گھر موقع بے موقع کوئی پارٹی ہو تو وہ ایک دوسرے کے گھر جا کر اس بات سے واقف ہوتے ہیں کہ ان کے گھر میں کیا کیا نئی چیزیں آئی ہیں، جو اب تک ان کے گھروں میں نہیں آ پائی ہیں۔۔ اور پھر وہ چیز سب سے پہلے لانے کے لئے رسہ کشی شروع ہو جاتی اور کچھ دنوں کے بعد ہر گھر کے لئے وہ چیز عام سی شے بن جاتی۔
سیڑھیاں چڑھتے ہوئے، سیڑھیاں اترتے ہوئے یا لفٹ میں کوئی مل جاتا ہے تو وہ اخلاقاً اس سے بات کر لیتے۔
ان کی خوشیاں تو اجتماعی ہوتی ہیں، ایک دوسرے کی خوشیوں میں سبھی شامل ہوتے ہیں، لیکن ان کے غم ان کے اپنے ہوتے ہیں۔ غموں میں دکھوں میں کوئی بھی کسی کو تسلی دینے بھی نہیں جاتا۔ اپنے دکھ انہیں خود ہی جھیلنے ہوتے ہیں۔ وہ دس دنوں تک اسپتال میں رہا تو بھی کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہو سکی۔ نہ تو اس کے گھر والوں نے کسی کو بتایا کہ شاہ کہاں ہے اور نہ اتنے دنوں تک شاہ کی کمی محسوس ہوئی۔ اگر معلوم ہو بھی جاتا تو وہ کیا کر لیتے؟
اخلاقاً اسپتال جا کر شاہ کی خیریت پوچھ آتے اور آنے جانے میں جو قیمتی وقت برباد ہوتا، اس کے لئے بھی شاہ کو کوستے۔
اس بات کو ہر کوئی جانتا اور سمجھتا تھا کہ ہر کسی کا وقت قیمتی ہے، اس لئے ایک دوسرے کو اپنی ایسی باتوں کا پتہ لگنے ہی نہیں دیتے تھے، نہ خبر کرتے تھے، جس سے دوسروں کا قیمتی وقت برباد ہو۔
متل پر حملہ کر کے غنڈوں نے اس کا سوٹ کیس چھین لیا، جس میں تقریباً دس لاکھ روپے تھے۔ یہ خبر بھی انہیں دو دن بعد معلوم ہوئی جب انہوں نے اخبار میں اس کے متعلق پڑھا۔ دو دنوں تک متل نے بھی کسی کو یہ بات بتانے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔
گپتاجی کا اکسیڈینٹ ہو گیا، انہیں کافی چوٹیں آئیں۔ دس دنوں تک وہ اسپتال میں رہے اور انہیں پانچ دنوں بعد گپتا کے ساتھ ہونے والے حادثے کا پتہ چلا۔
وہ دس منزلہ اونچی عمارت تھی۔ ہر فلور پر ایک خاندان اور کہیں کہیں دو تین خاندان آباد تھے، مگر برسوں بعد پتہ چلتا تھا کہ پانچویں فلور پر کوئی نئی فیملی رہنے کے لئے آئی ہے۔ پانچویں فلور کا سنہا کب فلیٹ چھوڑ گیا، معلوم ہی نہیں ہو سکا۔ ہر کسی کی زندگی، گھر، خاندان زیادہ سے زیادہ ان کے فلور تک محدود تھا۔
ا س کے بعد اپنا بزنس، دنیا بس اتنی ہی تھی۔۔ بس انہی دو نقطوں تک محدود تھی۔۔۔ باہر کی دنیا سے انہیں کچھ لینا دینا نہیں تھا۔
اچانک وہ حادثہ ہو گیا۔۔!
شاہ کے گھر ڈاکا پڑا۔ لٹیرے شاہ کا بہت کچھ لوٹ کر لے گئے۔ اس کی بیوی اور بیٹی کا قتل کر دیا۔ شاہ کو مار مار کر ادھ موا کر دیا۔ جس کی وجہ سے وہ کوما میں چلا گیا۔
دو نوکروں کو بھی مار ڈالا، واچ مین کو زخمی کر دیا اور لفٹ مین کے سر پر ایسی چوٹ لگی کہ وہ پاگل ہو گیا۔
اتنا سب ہو گیا لیکن پھر بھی کسی کو کچھ پتا نہیں چل سکا۔
سویرے جب واچ مین کو ہوش آیا تو اس نے شور مچایا کہ رات کچھ لٹیرے آئے تھے اور انہوں نے اسے مار کر زخمی کر دیا۔
لفٹ مین لفٹ میں بے ہوش ملا اور شاہ کا گھر کھلا تھا۔ اندر گئے تو زخمی شاہ اور اس کے خاندان والوں کی لاشیں ان کا انتظار کر رہی تھیں۔
تفتیش کے لئے پولیس کو بلایا گیا تو پولیس کی ایک پوری بٹالین آئی اور اس نے پوری بلڈنگ کو اپنے گھیرے میں لے لیا۔ پہلے بلڈنگ کے ہر فرد کو بلا کر پوچھ تاچھ کی جانے لگی۔
جب یہ واقعہ پیش آیا تو آپ کیا کر رہے تھے؟ اس واقعے کا پتہ آپ کو کب چلا؟ آپ کے پڑوس میں آپ کی بلڈنگ میں اتنی بڑی واردات ہو گئی اور آپ کو پتہ تک نہ چل سکا؟ آپ کے شاہ سے کیسے تعلقات تھے؟ کیا کسی نے شاہ کے گھر کی مخبری کی ہے؟ بنا مخبری کے لٹیرے گھر میں گھس کر چوری کرنے کی جرأت کر ہی نہیں سکتے۔
گھر کے بڑے لوگوں سے پوچھ تاچھ کر کے بھی پولیس کی تسلی نہیں ہوئی تو ہر گھر میں گھس کر گھر کے ہر چھوٹے بڑے، بوڑھے بچے، عورت مرد سے پوچھ تاچھ کرنے لگی اور گھر کی ایک ایک چیز کو الٹ پلٹ کر کے دیکھنے لگی۔
اس کے بعد بلڈنگ کے ہر فرد میں سے ایک دو کو پولیس چوکی پر بلا کر اسے ایک دو گھنٹے پولس چوکی میں بٹھایا جاتا اور اس سے عجیب و غریب سوالات کئے جاتے۔ کبھی کبھی بھیانک شکل و صورت والے چور بدمعاشوں کے سامنے لے جا کر کھڑا کر دیا جاتا اور پوچھا جاتا، ”کیا انہیں پہچانتے ہو، انہیں کبھی بلڈنگ کے آس پاس دیکھا ہے؟“
کبھی کبھی ان بدمعاشوں کو لے کر پولیس خود گھر پہنچ جاتی اور گھر کی عورتوں، بوڑھوں اور بچوں کو انہیں دکھا کر ان سے الٹے سیدھے سوالات کرتی۔ جب رات وہ آفس سے واپس آتے تو خوفزدہ عورتیں اور بچے انہیں پولیس کی آمد کی اطلاع دیتے۔ ایک دن پولیس کا ایک دوسرا دستہ دندناتا ہوا بلڈنگ میں گھس آیا اور ہر گھر کی تلاشی لینے لگا۔
”ہمیں شک ہے کہ اس واردات میں اسی عمارت میں رہنے والے کسی فرد کا ہاتھ ہے اور چرایا گیا سامان اسی عمارت میں ہے، اس لیے ہم پوری عمارت کی تلاشی کا وارنٹ لے کر آئے ہیں۔“
پولیس کے پاس سرچ وارنٹ تھا۔
ہر کوئی بے بس تھا۔ پولیس سرچ کے نام پر ان کا قیمتی سامان توڑ پھوڑ رہی تھی اور ہر چیز کے بارے میں طرح طرح کے سوالات کر رہی تھی۔ تلاشی کے بعد بھی پولیس مطمئن نہیں ہوئی۔
ہر منزل کے ایک ایک دو دو آدمی کو بیان لینے کے نام پر پولیس اسٹیشن لے گئی اور بلاوجہ چار چار پانچ پانچ گھنٹے انہیں تھانے میں بٹھائے رکھا۔
کیا کیا سامان چوری ہوا ہے، اس بارے میں تو پولیس بھی ابھی تک طے نہیں کر پائی تھی۔
اس بارے میں معلومات دینے والا شاہ کوما میں تھا۔
اس کی بیوی، بیٹی اور نوکر مر چکے تھے۔ دو بیٹے جو الگ رہ رہے تھے، اس بارے میں یقین سے کچھ بتا نہیں پاتے تھے۔
عمارت کے باہر پولیس کا سخت پہرہ بٹھا دیا گیا چارسپاہی ہمیشہ ڈیوٹی پر رہتے۔ رات کو وہ کبھی بھی بیل بجا کر دہشت زدہ کر دیتے۔ دروازہ کھولنے پر صرف اتنا پوچھتے، ”سب ٹھیک ہے نا؟“
”ہاں ٹھیک ہے۔“ جواب سن کر وہ آگے بڑھ جاتے مگر رات کی میٹھی نیند خراب کر دیتے۔
کوئی کچھ نہیں بول پاتا تھا۔ چپ چاپ سب برداشت کر لیتے، پولیس اپنا فرض جو ادا کر رہی تھی۔
ہر کوئی اس نئی مصیبت سے پریشان تھا۔ ہر کوئی عزت دار، رسوخ والا آدمی تھا۔
یہ طے کیا گیا کہ ایک وفد پولیس کمشنر سے بات کرے کہ وہ وہاں سے پولیس کا پہرہ ہٹا لے، اور پولیس کو حکم دیں کہ وہ انہیں اس طرح وقت بے وقت تنگ نہ کریں ، یعنی نہ انہیں پولیس اسٹیشن لائیں نہ ان کے گھر آئیں۔
سبھی اس کے لئے تیار ہو گئے، کیونکہ ان باتوں سے ہر کوئی پریشان تھا۔
کمشنر سے ملنا اتنا آسان نہیں تھا، لیکن متل نے کسی طرح انتظام کر ہی دیا، اُنہوں نے اپنے مسائل کمشنر کے سامنے رکھے۔ وہ چپ چاپ ہر کسی کی بات سُنتا رہا۔ جب اس کی باری آئی تو ان پر بھڑک اُٹھا۔
”آپ شہر کے عزت دار، شریف اور دولت مند لوگ مجھ سے کہہ رہے ہیں کہ میں پولیس کے کاموں میں دخل دوں۔ آپ معاملے کی سنگینی کو سمجھتے نہیں پورے چار قتل ہوئے ہیں، چار قتل۔۔ اور لٹیرے کیا کیا چرا لے گئے، ابھی تک پوری طرح معلوم نہیں ہو سکا۔ چاروں طرف پولیس کی بدنامی ہو رہی ہے، الزامات کی بھرمار ہے۔ ہر ایرا غیرا آ کر پوچھتا ہے کہ شاہ ڈکیتی کے معاملے میں پولیس نے کیا اقدام اٹھائے ہیں۔۔ اور تفتیش کہاں تک پہنچی ہے۔ ہر کسی کو جواب دینا پڑتا ہے۔ اخباروں نے تو معاملے کو اتنا اُچھالا ہے کہ وزیرِ اعظم بھی پوچھ رہے ہیں کہ شاہ ڈکیتی کے مجرم ابھی تک گرفتار کیوں نہیں ہوئے ہیں۔ اس لیے پولیس اپنے طور پر جو کچھ کر رہی ہے یہ اس کا فرض اور طریقہ کار ہے۔ پولیس اپنے طور پر مجرموں تک پہنچنے کی پوری کوشش کر رہی ہے، اور آپ کہہ رہے ہیں کہ میں پولیس کو اپنا کام کرنے سے روکوں؟ آپ ملک کے عزّت دار، با اخلاق شہری ہیں، پولیس کی مدد کرنا آپ کا فرض ہے۔۔ اور آپ لوگ پولیس کے کاموں میں دخل دینا چاہتے ہیں۔۔ سوچئے کیا یہ درست ہے؟ میرا آپ کو مشورہ ہے، آپ جائیے پولیس کی مدد کیجئے اور پولیس کو اپنے طور پر کام کرنے دیں اس کی تحقیقات میں ٹانگ نہ اڑائیں۔“
سب اپنا سا منہ لے کر اپنے اپنے گھر آ گئے۔
شام کو پھر بلڈنگ میں پولیس آئی۔
انسپکٹر کا پارہ ساتویں آسمان پر تھا۔
”ہماری شکایت لے کر پولیس کمشنر صاحب کے پاس گئے تھے؟ ہم نے تم لوگوں کے ساتھ کیا کیا، جو تم نے کمشنر سے ہماری شکایت کی۔ تم لوگوں کو ہم شریف لوگ سمجھ کر شرافت سے پیش آ رہے تھے، ورنہ اگر ہم نے پولیس کا اصلی روپ دکھایا تو تم لوگ اپنی زندگی سے پناہ مانگو گے۔ میں اس معاملے میں سب کو اندر کر سکتا ہوں۔ قانون کو ہاتھ میں لینے کی کوشش مت کرو۔ قانون کے ہاتھ بہت لمبے ہوتے ہیں۔“
وہ انسپکٹر کی ان باتوں کا کیا جواب دے سکتے تھے۔ چپ چاپ اس کی باتیں سن گئے اور اپنی بے عزتی سہہ گئے۔
پولیس کی اپنے طور پر تفتیش شروع ہوئی۔
وہ اس بار پوچھ تاچھ کچھ اس طرح کر رہے تھے، جیسے عادی مجرموں کے ساتھ تفتیش کر رہے ہوں۔
خون کا گھونٹ پی کر وہ پولیس کی زیادتیوں کو برداشت کرتے۔ جہاں ان سے کوئی غلطی ہوتی، پولیس والے انہیں گندی گندی، فحش، بھدی گالیاں دینے لگتے۔
آدھی رات کو دروازہ، کھٹکھٹا کر گھر میں گھس کر ہر چیز کا جائزہ لینا پولیس کا معمول تھا۔
گیٹ کے پاس کھڑے سپاہی ہر چیز کو شک کی نظروں سے دیکھتے اور بلاوجہ ہر چیز کی تلاشی لے کر ان کے بارے میں اُلٹے سیدھے سوالات کرتے۔
بلڈنگ کی لڑکیوں اور عورتوں کو ہوسناک نظروں سے دیکھتے۔ انہیں دیکھ کر فقرے کستے اور انہیں متوجہ کرنے کے لیے آپس میں فحش باتیں کرنے لگتے۔
فحش کتابیں پڑھتے رہتے اور ان کی گندی تصویروں کو اس انداز میں پکڑے رہتے کہ بلڈنگ کی عورتوں کی نظریں ان پر پڑ جائیں۔
یہ سب جیسے زندگی کا معمول بن گیا تھا۔
رات کے بارہ بج رہے تھے۔ دروازے پر دستک دے کر پولیس جاچکی تھی۔۔ لیکن پھر بھی اس کی آنکھوں میں نیند نہیں تھی۔
اسے اندازہ تھا پوری بلڈنگ میں ہر گھر کا کوئی نہ کوئی فرد اسی کی طرح جاگ رہا ہو گا۔۔ بے خوابی کا شکار ہوگا۔۔
سب کی حالت اس کی سی تھی۔
بار بار اس کی نظریں چھت کی طرف اُٹھ جاتی تھیں۔۔
کیا اس چھت کے نیچے وہ محفوظ ہیں؟
اسی طرح کی ایک چھت کے نیچے شاہ کا خاندان کہاں محفوظ رہ سکا۔۔ پھر آنکھوں کے سامنے اپنی ٹوٹی چھت کا مکان گھوم جاتا تھا۔ اس چھت کے نیچے سردی میں ٹھٹھر کر، بارش میں بھیگ کر، ہواؤں کے تھپیڑے سہہ کر بھی وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ گہری میٹھی نیند سوجاتا تھا۔
لیکن اس چھت کے نیچے۔۔۔۔۔!؟