گولڈن ایپل اور ٹرائے کی جنگ

عبد الحمید

اولمپین دیوتاؤں کے صدر مقام اولمپیا میں جشن کا سماں تھا۔ مرمیڈنز Myrmidons کے فانی بادشاہ پیلیوس Peleus اور سمندر کی دیوی تھیٹس Thetis کی شادی کی خوشی میں زیوس نے ایک شاندار ضیافت کا بندوبست کیا تھا، کیونکہ یہ ضیافت سب سے طاقتور دیوتا زیوس کی جانب سے تھی، اس لیے تمام دیوتا، دیویاں اور بڑے بڑے ہیروز اس میں شریک تھے مگر ایک دیوی کو شرکت کی دعوت نہیں دی گئی تھی۔

ایرس Eris جھگڑے اور شورش کی دیوی تھی۔ اسے اس ضیافت میں اس خدشے کے پیشِ نظر نہیں بلایا گیا تھا کہ کہیں وہ یہاں بھی جھگڑا نہ کھڑا کر دے۔

ایرس نے اس کو اپنی سبکی جانا اور بن بلائے فنکشن میں پہنچ گئی۔ ایک ایسے وقت میں کہ جب ہر کوئی ضیافت میں مگن تھا، ایرس نے چپکے سے ایک گولڈن ایپل بینکوئٹ ہال کے فرش پر لڑھکا دیا۔گولڈن ایپل پر لکھا تھا For the most Beautiful یعنی یہ گولڈن سیب ضیافت میں شامل سب سے خوبصورت کے لیے ہے۔

اس سے پہلے آئرش کہانیوں اور سیکنڈے نیوین فوک لورز میں بھی سونے کے سیب کے ساتھ کئی طلسماتی واقعات جڑے ہوئے تھے لیکن سب سے مشہور واقعہ وہی ہے، جس کی وجہ سے ایجین (یونانی) بادشاہ ایگامیمنن Aegamemnon کو اپنے زیرِ اثر تمام علاقوں سے ایک ہزار بحری جنگی جہازوں کے ساتھ موجودہ ترکی کے ساحل پر واقع ٹرائے کی سلطنت پر حملہ آور ہونا پڑا۔ایگامیمنن کی فوجوں نے 9 سال تک ٹرائے کا محاصرہ کیے رکھا، تب کہیں جا کر دسویں سال انھیں غیر متوقع طور پر کامیابی نصیب ہو گئی۔

یہ جنگ مغربی ادب میں ایک لاثانی شاہکار تخلیق کرنے کا باعث بنی، جسے ہومر نے لکھا اور یہ عظیم رزمیہ نظم Illiad کی صورت میں صفحۂ شہود پر نمودار ہوئی۔ آج کے کالم میں ہم صرف اس حصے کو دیکھیں گے، جس میں گولڈن ایپل کی وجہ سے اس جھگڑے کی بنیاد پڑی۔

ایرس کے گولڈن ایپل پھینکتے ہی تمام دیویاں اس کو پانے کے لیے بے تاب ہونے لگیں۔کسی کو بھی ضیافت کا خیال نہ رہا۔ دیویوں میں ہیرا Hera ہیرا بھی تھی، جو سب سے بڑے دیوتا زیوس کی ملکہ تھی۔ ہیرا گولڈن ایپل پانے کے لیے سب سے زیادہ مشتاق تھی۔

ایتھینا Athena، جو کہ ایتھنز کی گارڈین دیوی اور عقل و فہم و فراست کی دیوی تھی، اس کا خیال تھا کہ وہ سب سے خوبصورت ہے اور یہ گولڈن ایپل اس کا ہونا چاہیے۔ اسی طرح ایفروڈائٹ Aphrodite جسے رومن وینس کہتے تھے، وہ بھی گولڈن ایپل پانے کے لیے بے صبری دکھا رہی تھی۔ ایفروڈائٹ حسن و عشق کی دیوی تھی۔

اس نے چاہا کہ گولڈن ایپل اسے ملنا چاہیے کیونکہ حُسن تو دَین ہی اس کی ہے۔ جب گولڈن ایپل کی ملکیت طے نہ ہوئی تو یہ مسئلہ چیف دیوتا زیوس کے پاس لے جایا گیا۔ ہر دیوی نے زیوس کے سامنے التجا کی کہ گولڈن ایپل اسے بخش دیا جائے۔

زیوس کسی کی بھی طرف داری نہیں کرنا چاہتا تھا اس لیے اس نے حکم دیا کہ اس معاملے کو ٹرائے کے خوبصورت ترین شہزادے پیرس کے سامنے پیش کیا جائے۔ زیوس اس سے پہلے بھی کئی معاملات فیصلے کے لیے پیرس کے پاس بھیج چکا تھا اور اسے پیرس کے فیصلوں پر بہت اطمینان تھا۔

زیوس نے شہزادہ پیرس کے پاس اپنے پیغام لے جانے والے دیوتا ہرمیس Hermes کو بھیج کر اسے پیشگی آگاہ کر دیا۔ پیرس کو یہ بھی بتا دیا گیا کہ اس کا فیصلہ ہر ایک پر بائنڈنگ ہوگا، جس کے خلاف کوئی بات نہیں سنی جائے گی۔

جب دیویاں پیرس کے پاس پہنچیں تو وہ ایک شاہی چراہ گاہ میں گلہ بانی کر رہا تھا۔پہلے وقتوں میں بھیڑ بکریاں، مال مویشی ہی سب سے اہم متاع ہوتی تھی اور جس کے پاس جتنے زیادہ مویشی ہوتے تھے، اتنا ہی وہ مالدار تصور ہوتا تھا۔ ان دیویوں نے پیرس کے سامنے اپنے خوبصورت جسموں کی نمائش کی تاکہ پیرس کو اپنی طرف متوجہ کر سکیں اور اپنے حق میں فیصلہ لے سکیں۔

تینوں دیویوں نے پیرس کو رشوت بھی پیش کی۔ ہیرا چونکہ ان میں سب سے طاقتور دیوی تھی۔ اس کی حیثیت ملکہ جیسی تھی۔ ہیرا نے پیرس کو پیش کش کی کہ اگر گولڈن ایپل اسے دے دیا جائے تو وہ پیرس کو سارے جنوبی یورپ، شمالی افریقہ اور شمال مغربی ایشیا کی حکومت سونپ دے گی۔دیکھنے میں یہ سب سے بڑی پیش کش تھی۔

ایتھینا چونکہ عقل و فہم و فراست کی دیوی ہونے کے ساتھ ایتھنز کی گارڈین دیوی تھی، اس لیے ایتھینا نے پیش کش کی کہ اگر یہ سیب اسے دے دیا جائے تو وہ پیرس کو دنیا کا سب سے عقل مند فرد بنا دے گی۔ یہی نہیں بلکہ وہ پیرس کو ایتھنز بھی سونپ دے گی۔

ایفروڈائٹ خوبصورتی اور محبت کی دیوی تھی، اس نے پیش کش کی کہ اگر یہ گولڈن ایپل اسے دے دیا جائے تو وہ دنیا کی سب سے خوبصورت عورت ہیلن Helen کو پیرس کی محبت میں مبتلا کر دے گی۔

پیرس نے چند لمحے توقف کیا۔ تینوں آپشنز کو تولا۔ اس نے دل میں کہا کہ میں ٹرائے کی شاندار سلطنت کا شہزادہ ہوں۔ ہماری سلطنت کی دور دور تک دھوم ہے۔ میں خود بہت وجیہہ ہوں، میں سلطنت لے کر یا فہم و فراست لے کر کیا کروں گا لیکن دنیا کی سب سے خوبصورت عورت کو پانا میرے لیے بہت بڑا انعام ہوگا۔ یہ سوچ کر پیرس نے فیصلہ ایفروڈائٹ یا وینس کے حق میں دے دیا۔

گولڈن ایپل کا فیصلہ حسن کی دیوی کے حق میں ہو گیا تو تینوں دیویاں چلی گئیں۔ اصل میں گولڈن ایپل اپنے آپ میں اتنا بڑا پرائز نہیں تھا، جتنا بڑا پرائز اس کے اوپر کنندہ عبارت نے اسے بنا دیا تھا۔ چونکہ لکھا تھا کہ ’یہ دنیا میں سب سے خوبصورت کے لیے ہے‘ اس لیے ہر دیوی کی خواہش تھی کہ یہ اعزاز اسے حاصل ہو۔ خوبصورت ترین کہلایا جانا بہت فطری ہے۔

ایفروڈائٹ تو خوش ہو گئی لیکن ہیرا اور ایتھینا کے دل میں پیرس اور اس کے شاہی خاندان کے خلاف ہمیشہ کے لیے گرہ پڑ گئی۔ گولڈن ایپل کے واقعے کے کچھ عرصے بعد پیرس نے اپنے ملک کے سفارتی نمایندے کے طور پر سپارٹا کی ریاست کا دورہ کیا۔

پیرس جب سپارٹا پہنچا تو عجیب اتفاق یہ ہوا کہ سپارٹا کا حکمران اور ایگامیمنن کا بھائی مینیلوس Meneleus اپنے ملک سے باہر تھا۔ پیرس کو اپنے کام نمٹانے کے لیے کچھ عرصہ رکنا تھا۔ چونکہ وہ ٹرائے کی مضبوط اور خوش حال ریاست کا نمایندہ تھا، اس لیے اس کی خوب آؤ بھگت ہوئی۔

سپارٹا کے حکمران کی غیر موجودگی میں سپارٹن ملکہ ہیلن نے پیرس کے تمام پروٹوکول اور آرام کا خیال رکھا۔ پیرس کے اعزاز میں ایک اسٹیٹ ضیافت کا اہتمام بھی کیا گیا۔ پیرس جب ضیافت میں شرکت کے لیے ہال Banquet پہنچا تو ہیلن نے آگے بڑھ کر اس کا استقبال کیا۔ پیرس خوبصورتی اور مردانہ وجاہت کا ایک پیکر تھا۔ فرانس کا دارالحکومت اسی کے نام سے موسوم ہے۔

ایک تو پیرس میں جاذبیت بہت تھی، اوپر سے حسن کی دیوی ایفروڈائٹ اپنے وعدے کے مطابق ہیلن کے دل پر کام کر رہی تھی۔

ہیلن پیرس کو دیکھتے ہی دل ہار بیٹھی۔ پیرس جتنا عرصہ سپارٹا میں رہا، دونوں ملتے رہے اور محبت پروان چڑھتی رہی۔ہیلن نے اس دوران فیصلہ کر لیا کہ وہ پیرس کی ہو کر رہے گی۔ پیرس جب اپنے وطن واپس لوٹا تو ہیلن بھی اس کے ساتھ تھی۔

سپارٹا کے سربراہ کی غیر موجودگی میں سپارٹن ملکہ کا مہمان کے ساتھ بھاگ جانا بین الاقوامی تعلقات میں ایک بہت بری پیش رفت تھی، جس سے ساری ایجین دنیا میں بھونچال آ گیا۔ ٹرائے کے بادشاہ کو بھی پیرس اور ہیلن کا یہ اقدام برا لگا اور کوشش کی گئی کہ ہیلن کو واپس کر دیا جائے لیکن ہیلن اور پیرس جدائی کے لیے راضی نہ ہوئے۔

ایجین سربراہ ایگامیمنن نے اپنے بھائی مینیلوس کی بیوی کو واپس لانے کے لیے ایک ہزار جنگی بحری جہازوں کا بیڑہ تیار کیا اور ٹرائے پر حملہ کر دیا۔

بلینک ورس کے پہلے لکھاری کرسٹوفر مارلو نے اسی واقعے کی نسبت سے مشہور لائن Is this the face that launched a thousand ships لکھی۔ یہ تھی وہ بیک گراؤنڈ جس میں دنیائے ادب کے پہلے پہلے شاہکار ایلیاڈ Iliad کو لکھا گیا۔

بشکریہ: ایکسپریس نیوز
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close