حال ہی میں کیمبرج یونیورسٹی کے سائنسدانوں کو اپنی تحقیق سے معلوم ہوا کہ شیر خوار بچے نرسری کی نظموں یا گانوں میں استعمال ہونے والی تال اور لے کی طرز والی معلومات سے زبانیں سیکھتے ہیں
اسہ تناظر میں ماہرین نے مشورہ دیا ہے کہ اگر والدین بچوں سے گانے کے انداز میں بات کریں تو انہیں زبان سیکھنے میں مدد ملتی ہے
انہوں نے یہ بھی دریافت کیا کہ بچے سات ماہ کی عمر تک صوتی معلومات یعنی کسی جملے کی سب سے چھوٹی آواز، پر ردعمل ظاہر نہیں کرتے
سائنسی جریدے ’نیچر کمیونیکیشنز‘ میں شائع ہونے والی اس تحقیق کے نتائج پرانے نظریے کو چیلنج کرتے ہیں کہ صوتی معلومات، جو عام طور پر حروف تہجی سے ظاہر ہوتی ہیں، زبان سیکھنے کے لیے اہم ہوتے ہیں
انہوں نے کہا کہ اس تحقیق سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ڈیسلیکسیا اور ڈیولپمنٹل لینگویج ڈس آرڈر جیسے مسائل صوتی معلومات کی پروسیسنگ میں مشکلات کی بجائے تال اور لے سے وابستہ ہو سکتے ہیں
یونیورسٹی آف کیمبرج میں نیورو سائنسدان اور اس مطالعے کی مصنفہ پروفیسر اوشا گوسوامی کہتی ہیں ”ہماری تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ بچے جملوں کی انفرادی آوازوں کو تقریباً سات ماہ تک قابل اعتماد طریقے سے پروسیس نہیں کر پاتے حالانکہ زیادہ تر شیر خوار بچے اس وقت تک ’بوتل‘ جیسے مانوس الفاظ کو پہچان سکتے ہیں“
ان کے مطابق ”اس کے بعد سے انفرادی جملوں کی آوازیں سست روی سے شامل کی جاتی ہیں جو زبان کی بنیاد بنانے کے لیے بہت کم رفتار ہے“
پروفیسر اوشا گوسوامی کا مزید کہنا تھا ”ہم سمجھتے ہیں کہ جملوں کی لے اور تال والی معلومات اچھی طرح سے کام کرنے والے زبان کے نظام کی نشوونما کے لیے ایک پوشیدہ راز ہے۔ والدین کو اپنے بچوں سے زیادہ سے زیادہ بات کرنی چاہیے اور گانا چاہیے یا بچوں کی نرسری رائمز کا استعمال کرنا چاہیے کیونکہ اس سے زبان سیکھنے کے نتائج میں فرق پڑے گا“
واضح رہے کہ عام تاثر یہ رہا ہے کہ بچے چھوٹے چھوٹے صوتی عناصر سیکھتے ہیں اور انہیں الفاظ بنانے کے لیے جوڑ دیتے ہیں
یہ سمجھنے کے لیے کہ آیا ایسا ہی تھا، محققین نے چار، سات اور گیارہ ماہ کی عمر میں پچاس شیر خوار بچوں کی دماغی سرگرمی کو ریکارڈ کیا جب انہیں پرائمری اسکول ٹیچر کی اٹھارہ نرسری نظمیں گاتے ہوئے ویڈیوز دکھائی گئیں
مطالعے میں شامل ٹیم نے اس بات کی تشریح کرنے کے لیے خصوصی الگورتھم کا استعمال کیا کہ بچے کس طرح دماغ میں اس معلومات کو اَن کوڈ کر رہے تھے
سائنسدانوں کو معلوم ہوا ہے کہ بچوں میں فونیٹک اَن کوڈنگ زندگی کے پہلے سال میں بتدریج ابھرتی ہے جس کی شروعات دانتوں کی آوازوں سے ہوتی ہے جیسے ’ڈیڈی‘ کے لیے ’ڈی‘ اور نوزل ساؤنڈ سے ممی کے لیے ’ایم‘ کی آوازیں نکالنا
پروفیسر گوسوامی نے کہا ”بچے سکیفولڈ اور سکیلٹن جیسی صوتی معلومات کو شامل کرنے کے لیے تال اور لے والی معلومات کا استعمال کر سکتے ہیں
مثال کے طور پر وہ سیکھ سکتے ہیں کہ انگریزی الفاظ کے تال کا پیٹرن عام طور پر مضبوط کمزور حصوں پر مشتمل ہوتا ہے، جیسا کہ ’ڈیڈی‘ یا ’ممی‘ میں، پہلے حرف پر زیادہ زور اور دوسرے پر کم زور دینے کی ضرورت ہوتی ہے
ان کے بقول: ”وہ اس تال کے پیٹرن کا استعمال کرتے ہوئے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ فطری جملے سنتے وقت ایک لفظ کہاں ختم ہوتا ہے اور دوسرا کہاں شروع ہوتا ہے“
انہوں نے کہا کہ تال ہر زبان کا ایک آفاقی پہلو ہے، جس کا تمام بچوں کو سامنا کرنا ہوتا ہے یعنی ایک مضبوط بیٹ اسٹکچر کے ساتھ ایک سیکنڈ میں دو بار ایک مضبوط حرف کے ساتھ
پروفیسر گوسوامی نے مزید کہا: ”ہم بچوں سے بات کرتے وقت قدرتی طور پر ایسے ہی بات کرتے ہیں“
یہ مطالعہ پروفیسر گوسوامی کی سربراہی میں ’بے بی ردھم‘ پروجیکٹ کا حصہ ہے، جو ڈسلیکسیا اور ڈیولپمنٹل لینگویج ڈس آرڈر جیسے مسائل میں زبان کے تعلق پر تحقیقات کر رہے ہیں
انہوں نے کہا کہ انہیں صوتی مسائل کے طور پر بیان کرنے کی کوشش کی ایک طویل تاریخ ہے، لیکن ثبوت سے ایسا ثابت نہیں ہوتا کیوں کہ بچوں کی زبان سیکھنے کی مہارتوں میں انفرادی فرق تال اور لے سے پیدا ہو سکتا ہے۔