امریکی خانہ جنگی

ڈاکٹر مبارک علی

خانہ جنگی آپس کے تضادات کی وجہ سے ہوتی ہے۔ جب اس کا پر امن حل نہ ہو تو طاقتور کمزور حریف کو شکست دے کر اس سے اپنی شرائط منواتا ہے۔ امریکی خانہ جنگی میں یونین کو قائم رکھنا اور غلامی کو ختم کرنا اہم مسائل تھے

امریکہ کی خانہ جنگی میں شمال اور جنوب کی ریاستوں کے مختلف نظریات تھے۔ دونوں ریاستوں کے معاشرے مختلف روایات کے تحت قائم ہوئے اور ایک دوسرے کے مخالف ہوتے چلے گئے

شمال کی ریاستوں میں سرمایہ دارانہ نظام تھا۔ فیکٹریاں تھیں، جن میں مزدور تیرہ چودہ گھنٹے مشقت کر کے سرمایہ داروں کو منافع فراہم کرتے تھے۔ ان کو کسی قسم کی آزادی نہ تھی۔ کارکنوں میں بچے بھی شامل ہوتے تھے اور نوجوان لڑکیاں بھی، جن کا جنسی استحصال کیا جاتا تھا

یہاں افریقی غلاموں کی بہت کم تعداد تھی، لیکن سفید فام نسل پرستی کا تعصب پوری طرح پھیلا ہوا تھا۔ سیاسی طور پر یہ ریاستیں اپنے مفادات کے لیے سرگرم تھیں

ان کے مقابلے میں جنوب کی ریاستوں میں فیوڈل نظام تھا۔ یہاں ابتدا میں آنے والوں میں، جن کا تعلق انگریزی اُمراء کے طبقے سے تھا، زمینوں پر قبضہ کر کے بڑے پیمانے پر کھیتی باڑی شروع کی۔ زمینوں پر کام کے لیے انگلستان سے بیروزگار اور غریب لوگوں کو یہاں لا کر آباد کیا۔ زمینوں پر قبضے کا سلسلہ جاری رہا۔

مقامی ریڈ-انڈینز کو بے دخل کر کے ان کی زمینوں پر قبضہ کر لیا گیا، اس لیے یہاں زیادہ مزدوروں کی ضرورت تھی، لہٰذا اس مقصد کے لیے افریقہ سے بڑی تعداد میں غلاموں کو درآمد کیا گیا

یہ غلام مالک کی جائیداد ہوتے تھے، اور یہ بڑے بڑے کھیتوں میں صبح سے شام تک محنت مزدوری کرتے تھے۔ ان کے کام کی Overseer نگرانی کرتا تھا، اور ان کی ننگی پیٹھ پر کوڑے مارتا تھا۔

ساؤتھ کے اُمراء جن فصلوں سے منافع کماتے تھے، ان میں تمباکو، کپاس اور چاول تھے۔ کپاس کی مانگ پورے یورپ میں تھی۔ یہاں صنعتی انقلاب کے بعد ٹیکسٹائل انڈسٹری کو فروغ ہوا تھا۔

ان حالات میں غلامی کا ادارہ جنوب کی ریاستوں کے لیے بے انتہا منافع بخش ہو گیا تھا۔ وہ غلامی کو جائز قرار دینے کے لیے مختلف دلیلیں پیش کرتے تھے۔ مثلاً ایک دلیل یہ تھی کہ یہ ادارہ بہت قدیم ہے۔ یونان، رومی سلطنت اور ایران میں بھی یہ ادارہ موجود تھا۔ یہ اس کی تاریخی حقیقت ہے۔

مذہبی طور پر بھی اس کو جائز قرار دیا گیا کہ نوح کے بیٹے حام نے جب باپ کی مخالفت کی تو خدا نے اس کی جِلد کو کالا کر دیا اور اسے کم تر مخلوق بنا دیا، لہٰذا غلامی اس کا مقدر ہے۔ مذہبی راہنماؤں نے بھی بائبل کے ذریعے غلامی کو جائز قرار دیا، اور یہ مثال دی کہ پال نے کئی جگہ کہا ہے کہ خادم کو آقا کی اطاعت کرنی چاہیے۔

ان دلائل کے ساتھ ساؤتھ کی جانب سے یہ بھی کہا گیا کہ اس میں غلاموں کو بڑی سہولتیں دی گئیں ہیں۔ وہ دن بھر کام کر کے جب اپنی آرام گاہ میں جاتے ہیں تو پیٹ بھر کر کھانا کھاتے، پھر موسیقی اور رقص سے محظوظ ہوتے۔ اس لیے ان کی زندگی شمال کے مزدوروں سے بہت بہتر ہے، جب کہ حقیقت اس کے برخلاف تھی۔ غلاموں کو کام کے دوران کھانے کا مختصر وقفہ دیا جاتا تھا اور سزاؤں کے ذریعے انہیں خوفزدہ رکھا جاتا تھا۔

جنوب کی ریاست میں غلاموں کی وجہ سے ایک تضاد یہ پیدا ہوا کہ غریب سفید فام مزدوروں کے لیے کام کی کمی ہو گئی، کیونکہ زمینوں پر غلّہ پیدا نہ کرنے سے مہنگائی ہو گئی اور غریب لوگ غلاموں کو اپنا مخالف سمجھنے لگے، جس نے نسلی تعصب کو ہوا دی۔

سن 1861 کے انتخابات میں لِنکن امریکی صدر کے منتخب ہوا تو اس وقت جنوب کی ریاستوں میں علیحدہ ہونے کا منصوبہ بن رہا تھا۔ لِنکن نے اس پر زور دیا کہ وہ ہر حالت میں یونین کو قائم رکھے گا، اور ساتھ ہی یہ بھی اعلان کیا کہ وہ غلامی کا خاتمہ کرے گا۔ چونکہ اس ادارے کی وجہ سے جنوب کی ریاستیں طاقتور ہو گئیں تھیں

لیکن جہاں تک عام لوگوں کا تعلق تھا، وہ جنگ کے حامی نہیں تھے۔ شمال کی ریاستوں میں اینٹی وار جماعتیں قائم ہوئیں، جب کہ جنوب میں امن تحریکیں اٹھیں، لیکن جب جنگ کی ابتدا ہوئی تو شمال اور جنوب دونوں ریاستوں میں نوجوانوں کو زبردستی فوج میں بھرتی کیا گیا۔

لِنکن نے شمال کی ریاستوں میں سیاسی آزادی کو ختم کر دیا، تاکہ کوئی جنگ کی مخالفت نہ کرے۔ جو لوگ فوج میں شامل ہوئے، ان کے بیوی بچے تنہا رہ گئے اور ان کی آمدنی کا بھی کوئی ذریعہ نہ رہا۔ عام فوجیوں نے شکایت کی کہ فوج میں افسروں کو سہولتیں دی جاتیں ہیں، انہیں اچھا کھانا دیا جاتا ہے، بیمار ہونے کی صورت میں علاج معالجہ ہوتا ہے، جب کہ عام فوجی ان سہولتوں سے محروم رہتے ہیں۔

ابھی غلامی کے خاتمے کا اعلان نہیں ہوا تھا کہ جنوب میں افریقی غلاموں کی بغاوتیں شروع ہو گئیں، وہ غلام جو غیر شادی شدہ تھے، بڑی تعداد میں فرار ہونے لگے۔ کچھ سفید فام افراد ایسے تھے، جنہوں نے ان کی مدد کی لیکن شمال کی ریاستوں میں انہیں پناہ لینے کی اجازت نہ تھی۔

غلاموں کی بغاوتوں کے نتیجے میں کئی سفید فام مالک قتل بھی ہوئے۔ وہ غلام جو کھیتوں میں کام کرتے تھے، انہوں نے کام میں سستی کی اور فصل کو بگاڑا، لہٰذا غلامی کا وہ ادارہ، جس کی بنیاد پر اشرافیہ کا کلچر تھا، اس کا خاتمہ ہوا۔

اس خانہ جنگی کے حالات میں یونین کی فوجیں کامیاب ہوئیں اور ساؤتھ کی ریاستوں کو شکست ہوئی۔ غلاموں کو آزاد کر دیا گیا۔ لیکن نسلی تعصب کسی نہ کسی شکل میں قائم رہا۔ اس خانہ جنگی میں عام لوگوں نے مصیبتیں اٹھائیں، فوجی لڑتے ہوئے مارے گئے۔

لیکن تاریخ میں سیاستدانوں اور جنرلوں کو فاتح قرار دے کر عام لوگوں کی قربانیوں کو نظر انداز کیا گیا۔ جنگ کسی بھی شکل میں ہو، عام شہری سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ غذائی قلت کی وجہ سے عام لوگ فاقے کا شکار ہوتے ہیں، جب کہ حکمراں طبقہ جنگ میں بھی منافع کما کر اور زیادہ امیر ہو جاتا ہے۔

مزید تفصیل کے لیے دیکھیے ڈیوڈ ولیم کی کتاب "A People’s History of The Civil War”

بشکریہ: ڈی ڈبلیو اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close