ڈرامہ ’پری زاد‘ سے شہرت کی بلندیوں پر پہنچنے والے احمد علی اکبر کی فلم ’گنجل‘ 15 دسمبر کو سینیما گھروں میں نمائش کے لیے پیش کی جا رہی ہے، جس میں وہ ایک صحافی کا کردار ادا کر رہے ہیں
یہ کہانی بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے اقبال مسیح کی زندگی سے متاثر ہے۔
اس سوال پر کہ سے وہ انٹرویو دینے سے اتنا کتراتے کیوں ہیں، تو احمد علی اکبر کا کہنا تھا کہ اکثر انٹرویو لینے والے کام پر کم بات کرتے ہیں اور ذاتی زندگی پر زیادہ گفتگو کرتے ہیں، اس لیے وہ بچتے ہیں کیونکہ وہ اپنے کام پر ہی توجہ مرکوز رکھنا چاہتے ہیں
طویل عرصے کے بعد فلم میں کام کرنے کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا ’ایک تو فلمیں ہی کم بنتی ہیں، پھر ان میں سے بھی اکثر کی کہانی اتنی اچھی نہیں ہوتی، لیکن گنجل کی کہانی متاثر کن تھی اس لیے ہامی بھرلی۔‘
فلم ’گنجل‘ کے حوالے سے احمد علی اکبر نے بتایا کہ اس کی کہانی بہت اچھی ہے، کردار جاندار ہے، اور ہدایت کار میں توانائی بھری ہوئی ہے اور وہ ایسے نئے افراد کے ساتھ کام کرنے کی خواہش رکھتے ہیں جو کام کرنے کا جوش رکھتے ہوں
انہوں نے بتایا کہ بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے اقبال مسیح کی زندگی سے متاثر ہو کر یہ کہانی بنائی گئی ہے کیونکہ ہمارے ملک میں ہیروز کو سراہا نہیں جاتا۔ بقول ان کے ’مجھے یاد ہی نہیں کہ آخری مرتبہ کسی ہیرو پر فلم کب بنی تھی، اس لیے ہامی بھرنے کی اصل وجہ اقبال مسیح ہیں۔‘
احمد علی اکبر نے بتایا کہ وہ پہلی مرتبہ ایک صحافی کا کردار ادا کر رہے ہیں، اس لیے ان کی خواہش ہے کہ صحافی یہ فلم دیکھیں اور باریک بینی سے دیکھیں
اپنا ذاتی تجربہ بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بہت عرصہ پہلے انہوں نے کسی صحافی کی کسی کام مدد کی تھی، تو اس دوران انہیں اندازہ ہوا تھا کہ صحافی کتنی مشکلات سے گزرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ صحافیوں کی ہمیشہ سے بہت عزت کرتے ہیں، جو وہ کام کرتے ہیں اس کے لیے بہت محنت درکار ہوتی ہے، اس لیے ان کے دل میں ہمدردی بھی ہے
ان کا کہنا تھا کہ صحافی سچ کے لیے لڑتے ہیں اور یہی سب سے ضروری چیز ہوتی ہے
عوام کے اس فلم کے لیے سینیما کی جانب رخ کرنے کے سوال پر ان کا کہنا تھا ’کہانی میں جان ہے اور اتنی پکڑ ہے کہ دیکھنے والا آخر تک اس سے جڑا ہوا رہتا ہے۔ اداکاروں نے اس میں جاندار اداکاری کی ہے، ریشم، خاص طور پر بہت مختلف روپ میں نظر آئیں گی، اس لیے امید ہے کہ عوام اس فلم کے لیے سینیما آئیں گے۔‘
انہوں نے کہا کہ اس فلم میں مصالحہ بھی ہے اور موسیقی بھی بہت اچھی ہے کیونکہ یہ فلم تاریخ کے ایک اہم کردار پر مبنی ہے
کسی بھی کردار کے انتخاب کے حوالے سے احمد علی اکبر نے بتایا کہ وہ اپنے مینیجر سلمان، جو ان کے بیس سال پرانے دوست بھی ہیں، سے مشورہ کرتے ہیں، لیکن اچھی کہانی تو اپنا تعارف خود ہی کروا دیتی ہے
آج کل احمد علی اکبر کا گرین چینل پر ایک ڈراما ’ایڈیٹ‘ نشر ہو رہا ہے، جس میں وہ منشا پاشا کے ساتھ کام کر رہے ہیں
منشا ہی کے ساتھ انہوں نے فلم ’لال کبوتر‘ بھی کی تھی۔ اس بارے میں ان کا کہنا تھا کہ فلم یاد آتی ہے کیونکہ منشا کے ساتھ اسکرین پر اچھا کام کرنے کو ملتا ہے اور ’لال کبوتر‘ بھی ایک اہم فلم تھی
ڈراما ’پری زاد‘ کو یاد کرتے ہوئے احمد علی اکبر نے کہا کہ اس کی شوٹ ایک سال پر مشتمل تھی۔ ’وہ اندر بس چکی ہے اور کبھی نہیں نکلے گی۔ لوگ جگہ جگہ یاد کرواتے رہتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اس ڈرامے میں ایک اکثریت کی نمائندگی کی ہے اور یہی بات اکثر لوگ ان سے کرتے ہیں کہ ’آپ نے تو ہماری نمائندگی کی ہے۔‘
پری زاد کی مقبولیت کے حوالے سے ایک دلچسپ واقعہ شیئر کرتے ہوئے احمد نے بتایا کہ ایک مرتبہ ایک خاتون ان سے ملنے آئیں اور کہنے لگیں ’آپ نے پری زاد میں جو کردار ادا کیا، وہ میرے دل کی آواز تھی۔ وہ خاتون میرے سامنے رونے لگیں، میں بھی رویا۔‘
’کچھ لوگ ایسے بھی آئے جنھوں نے مجھے اتنی زور سے گلے لگایا کہ گردن میں بل پڑ گیا۔ بعض لوگوں نے کہا کہ پری زاد کے کردار نے ہماری زندگی بدل دی۔‘
انہوں نے بتایا کہ انہیں کبھی کسی بھی جانب سے ’پری زاد‘ کے لیے ایک بھی منفی جملہ سننے کو نہیں ملا، البتہ ان کے کام پر ان کے گھر یا خاندان والے تبصرہ کرتے رہتے ہیں۔
احمد علی اکبر دس سال سے ڈراموں میں کام کر رہے ہیں، مگر ان کا مجموعی کام بہت ہی کم ہے۔ اس بارے میں انہوں نے وضاحت دی کہ وہ تو مسلسل کام کرنا چاہتے ہیں اور اس بارے میں انہیں کوئی تامل نہیں ہے، لیکن جو کام ان کے پاس آتا ہے، یہ اس پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ کیا جائے یا نہیں۔
ڈرامہ سیریل ’ایڈیٹ‘ میں بھی احمد ایک غیر روایتی لڑکے ’گلزار‘ کا کردار ادا کر رہے ہیں جو اصولوں کو چیلنج کرتا ہے۔
’گلزار جانوروں سے بہت پیار کرتا ہے اور مجھے ایک جانور کے ساتھ پرفارم کرنا بہت اچھا لگا۔ میں خود بھی ایک مختلف کردار کرنا چاہتا تھا، جو مجھے اور معاشرے دونوں کو چیلنج کرے۔ میرے خیال سے اس کردار نے تھوڑا بہت چیلنج کیا بھی۔ مجھے اس بات کی بہت خوشی ہے کہ بچوں نے اس کردار کو بہت انجوائے کیا۔‘
احمد نے اس بارے میں مزید گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اس کردار میں کچھ واقعات ایسے بھی ہیں جو غیر حقیقی ہیں۔
’میں نے اس کردار کو اُس رُخ پر نبھانے کی کوشش کی کہ اگر کوئی شخص بہت زیادہ سخت اور ضدی ہے تو اس کو زندگی میں جھٹکا لگنا کتنا ضروری ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’زندگی میں بہت سے موڑ آتے ہیں۔ آپ کسی موڑ پر گرتے ہیں، کسی پر آگے بڑھتے ہیں۔ یہ سلسلہ تو ابھی تک جاری ہے۔ مزے کی بات یہ ہے جو کردار ہم سکرین پر ادا کرتے ہیں وہ بھی ہمیں کچھ نہ کچھ سکھاتے ضرور ہیں۔ میں نے اب تک اپنے ہر کردار سے کچھ نہ کچھ سیکھا ہے۔ میں اپنے اس سفر کو بہت اچھے سے انجوائے کر رہا ہوں۔ گذشتہ چند برسوں میں جتنا بھی اُتار چڑھاﺅ آیا، اس سے میں نے بہت سیکھا۔‘
احمد کے فینز بہت جلد انھیں بڑے پردے پر نئی آنے والی فلم ’گنجل‘ میں دیکھیں گے جو 15 دسمبر کو پاکستان بھر میں ریلیز ہو رہی ہے۔
اس فلم کے بارے میں بات کرتے ہوئے احمد کا کہنا تھا کہ جب ڈائریکٹر شعیب سلطان نے انھیں بتایا کہ یہ فلم اقبال مسیح کی کہانی سے متاثر ہے تو اس میں ان کی دلچسپی پیدا ہوئی۔
’مجھے ڈائریکٹر نے بتایا کہ یہ فلم اقبال مسیح کی زندگی، سرگرمیوں اور موت پر مبنی ہے۔ کسی سچی کہانی پر کام کرنے کا میرے لیے اس سے اچھا موقع کوئی اور نہیں تھا۔ بنیادی طور پر جن لوگوں کو اقبال کی کہانی کا نہیں پتا، وہ اس فلم کو دیکھنے ضرور جائیں۔ اقبال نے بچوں کی جبری مشقت کے خلاف آواز بلند کی تھی کیونکہ وہ خود اس چیز کا شکار تھے۔‘
احمد نے بتایا کہ پیرس کے شہر بارسلونا میں اکتوبر میں ’گنجل‘ کی سکریننگ کے بعد لوگوں نے فلم کو بہت سراہا اور پیرس میں اس فلم کو بیسٹ سکرین پلے کا ایوارڈ بھی ملا ہے۔
یاد رہے کہ ’گنجل‘ اگلے ماہ ہونے والے جے پو ر انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں بھی ایوارڈ کے لیے نامزد ہوئی ہے۔
حال میں احمد نے بڑے اور چھوٹے پردے پر جتنے کردار نبھائے وہ کافی سنجیدہ اور حساس نوعیت کے ہیں۔ کیا یہ ان کی اپنی مرضی سے ہے یا وہ ٹائپ کاسٹنگ کا شکار ہیں؟
اس سوال کے جواب میں احمد نے کہا کہ ’یہ تو وقت بتائے گا کہ انڈسٹری ٹائپ کاسٹ کرتی ہے یا نہیں کیونکہ میری توجہ صرف کہانی پر ہوتی ہے، آگے وہ کیسی نکلتی ہے اس پر تو میرا کنٹرول نہیں۔‘
’میں اس عمل کا چھوٹا سا حصہ ہوں۔ کامیڈی میری طاقت ہے لیکن اس کو لکھنا اور اچھے سے سکرین پر ادا کرنا بہت مشکل کام ہے۔ مجھے جب بھی کامیڈی والا سکرپٹ آفر ہو گا تو میں اس کو سکرین پر بہت اچھے سے ادا کرنے کی کوشش کروں گا۔‘