آؤ ربڑ اکٹھا کرنے چلیں۔۔
یہ جملہ امازون کے کنارے سال کے چند مخصوص مہینوں میں سننے کو ملتا ہے۔ مرد کھیتی چھوڑ دیتے ہیں، عورتیں گھر کے کام کاج بھول جاتی ہیں اور لڑکیاں پھول چننا موقوف کر دیتی ہیں۔ یہ جملہ ہر ایک کی زبان پر ہوتا ہے۔ یہ جملہ ایک تیوہار، ایک ہیجان کا نقطہ آغاز ہے۔
٭٭
یہ ایک چھوٹے سے، دل کش سے قصبے کا ایک چھوٹا سا گھر ہے۔ جو پھولوں اور درختوں میں گھرا ہوا ہے۔ اس گھر کے گر د پھول اتنے روشن رنگ بکھیر رہے ہیں کہ یہ منظر اک تصویر نظر آتا ہے۔ خوب صورت پھول جن کا تاج دلہنیں سر پر سجاتی ہیں۔ تو دوسری طرف پھل دار درختوں کی ٹہنیاں پھلوں کے بوجھ سے جھکی ہوئی ہیں۔ گھر کے سامنے، زمین پر اور لکڑی کے بنے فرش پر ٹوکریوں، مٹی کے گملوں اور لوہے کے برتنوں میں پھول ہی پھول نظر آرہے ہیں۔ گلاب، گیندے، یاسمین اور مختلف رنگوں کے گلِ داؤدی، فضا میں ہر طرف خوشبو اور رنگ بکھیر رہے ہیں۔ درختوں سے پرندوں کے چہچہانے کی آوازیں آرہی ہیں اور مرغیاں گھر کے باہر دانا دنکا چگ رہی ہیں۔ گھر کے پاس آکر خوشی، زندگی، ترنگ اور خوش حالی کا تاثر ملتا ہے۔
٭٭
بالسا درخت کی لکڑی کی بنی ہوئی کشتی دریا پر بنے پل کے ایک ستون سے بندھی ہوئی ہے۔ کشتی بہت اچھی حالت میں ہے اور اس پر ابھی ابھی رنگ کیا گیا ہے۔ کشتی کے پاس گھر بھر کا سامان ڈھیر ہے۔ لوہے کا صندوق جس کا رنگ سبز ہے، کپڑوں کی گٹھریاں، سفری بستر، خالی ٹوکریاں، لوہے کے کچھ اوزار اور ایک ٹین کا چھوٹا ڈبا جس میں سلائی کڑھائی کا سامان ہے۔ ان کے پاس ہتھیار بھی ہیں، چھوٹی تلواریں، چھریاں، کلہاڑیاں، درانتیاں اور لمبی نال والی بندوقیں۔ وہ اپنے ساتھ مکئی کا آٹا، جنگلی بھینسے کا نمک لگا گوشت، عمدہ مچھلی اور ریو پریسٹو کا مشہور خوش بو دار تمباکو لے کر جا رہے ہیں۔
وہ ربڑ جمع کرنے جا رہے ہیں۔
گھر کا سربراہ اپنا گھر دوبارہ تعمیر کرے گا، اس کی بیوی زیورات خریدے گی، اس کی لڑکیاں عمدہ پوشاکیں پہنا کریں گی اور اس کے لڑکے نئے کھلونے خریدیں گے۔ واپسی پر وہ کسی بڑے شہر میں چھٹیاں گزاریں گے۔ باپ کے پاس اتنا پیسہ ہوگا کہ وہ دل کھول کر خرچ کر سکے، ماں خوب خریداری کرے گی اور یہ خاندان اپنی لڑکیوں کے لیے اچھے بر تلاش کرنے میں کام یاب ہو جائے گا۔ آخر وہ ربڑ جمع کرنے جارہے ہیں۔ وہ دولت جمع کرنے جارہے ہیں۔
٭٭
اس خاندان میں دو مرد اور تین عورتیں ہیں۔ دو آدمی؛ ایک باپ ہے دوسرا بیٹا۔ باپ جس کی عمر پچاس برس ہے امازون کے کناروں کا باسی، ایک مچھیرا اور کسان ہے۔ وہ تھوڑی کھیتی باڑی کرتا ہے اور امازون سے عمدہ مچھلیاں پکڑتا ہے۔ بیٹا بیس برس کا ہے اور اپنے باپ کا مددگار ہے۔ ایک دن وہ اپنے باپ کی جگہ گھر کا سربراہ بنے گا۔
گھر میں تین عورتیں ہیں؛ ایک ماں اور دو بیٹیاں۔ ماں چالیس برس کی ہے، فربہ، تندرست اور خوش شکل۔ دونوں لڑکیاں چودہ اور پندرہ سال کی ہیں۔ بالکل گلاب کے پھولوں کی طرح، نرم و نازک، گھر بھر کی جان۔۔ وہ جب کھڑکی سے باہر جھانکتی ہیں تو منظر اور بھی بھلا لگتا ہے۔ باپ نے ان سے نئے کپڑوں اور زیوروں کا وعدہ کیا ہے۔ انھیں پتا ہے کہ ان کا باپ انھیں مایوس نہیں کرے گا۔ یہ خاندان ربڑ جمع کرنا چاہتا ہے۔دولت جمع کرنا چاہتا ہے۔
٭٭
ایک شام باپ اپنے کھیت سے واپس آ کر سگار پی رہا تھا۔ بیٹا دریا پر مچھلیاں پکڑنے گیا تھا۔ ماں تھوڑے سے جَو پیس رہی تھی۔ لڑکیاں کچھ کاڑھ رہی تھیں۔ سورج کی شعاعیں آہستہ آہستہ مدھم ہوتی جا رہی تھیں۔ فضا میں ایک سکون کا سا احساس تھا۔ اچانک دریا کنارے کسی کشتی کی چپڑ چپڑ سنائی دی۔ کتوں نے ہلکا ہلکا غرانا شروع کر دیا۔ کنارے سے آواز آئی، ”کوئی ہے!“
”ہاں! اندر آجاؤ۔“
لڑکیوں نے کڑھائی چھوڑی اور گھر کے دروازے کی طرف دیکھنے لگیں۔
٭٭
وہ ایک جوان شخص تھا۔ سپید رنگت، نیلی آنکھوں اور بھوری مونچھوں والا۔ اس کے چہرے کے خطوط ایسے تھے کہ اس کے مزاج کا اندازہ نہیں ہو پاتا تھا۔ ٹیڑھی کھیر! اس کا لباس قیمتی کپڑے کا تھا اور وہ ایک بڑا سا ہیٹ پہنے ہوئے تھا۔ اس نے ایک سگریٹ سلگائی اور دروازے پر کھنکارا۔ باپ نے گھر والوں کو بتایا کہ آنے والا ایک تاجر ہے۔ لڑکیاں اپنے باپ کا منہ دیکھنے لگیں، تاجر کوئی چیز ہے یا انسان؟ تاجر اندر داخل ہوا۔ آنے وال اتاجر ہے بھی اور نہیں بھی۔ وہ ایک قذاق ہے جو کشتی پر مختلف قصبوں میں گھومتا پھرتا رہتا ہے۔ اس کی نرم آواز میں بہت سے طوفان چھپے ہیں۔ وہ بظاہر ایک فاختہ کی طرح معصوم دکھائی دیتا ہے مگر عقاب کی طرح پنجے تولے جھپٹنے کے لیے ہمہ دم تیار رہتا ہے۔ وہ انسانی روپ میں ایک عفریت ہے۔ ایک بے چین اور شیطان صفت عفریت۔۔
٭٭
اس نے سب کو سلام کیا اور باپ سے گفتگو شروع کر دی۔ ادھر ادھر کی باتوں کے بعد اس نے سوال کیا: ”کیا تم ربڑ جمع کرنے نہیں جارہے؟“
”نہیں!“
”کیوں؟“
باپ نے اپنی وجوہات بیان کیں۔ اس کے پاس نہ اوزار تھے نہ راشن۔ وہ ابھی نارجیل Cocoa کاشت کرنے لگا تھا۔
”چھوڑو! نارجیل میں کیا رکھا ہے؟“ تاجر نے ہر طرح کا سامان مہیا کرنے کا ذمہ لے لیا۔ بڑی چھریاں، لوہے کے برتن، راشن۔۔
”مگر میرے پاس سرِدست کوئی رقم نہیں ہے۔“ باپ نے صاف گوئی سے کام لیا۔
”کوئی بات نہیں، جب تم ربڑ جمع کر لو تو مجھے ادائیگی کر دینا۔ اس سال تو ربڑ کی پیداوار پچھلے کئی سالوں سے زیادہ ہوگی۔ تم تو میرا شکریہ ادا کرتے ہوئے نہیں تھکو گے اور رقم تو میں وصول کر ہی لوں گا۔“ آخری جملہ اس نے نیچی اور کرخت آواز میں کہا۔ اس وقت اس کی نظریں دونوں لڑکیوں پر جمی تھیں۔
ان کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔ تاجر نے انھیں حسبِ وعدہ سامان مہیا کر دیا۔ اس سب کے بدلے انھوں نے تاجر کو ربڑ دینا تھا۔ بہت سے سپنے سجائے ان کا سفر شروع ہوا۔
٭٭
کشتی بھر چکی تھی۔ ان کا سامان کشتی کے پچھلے حصے میں تھا۔ سب سے آگے بیٹا کھڑا تھا۔ مستول کے پاس، بادبان کھولنے کے لیے اپنے باپ کے اشارے کا منتظر۔ اس کے بعد اس کی ماں تھی۔ اطمینان سے نیم دراز۔ درمیان میں دونوں لڑکیاں براجمان تھیں۔ سب سے آخر میں باپ دونوں ہاتھوں میں چپو لیے کھڑا تھا۔ اس نے آواز لگائی: ”کھول دو!“
بیٹے نے بادبان کھول دیے۔ باپ کے طاقت ور ہاتھوں نےکشتی کھینا شروع کی۔ ہوا سازگار تھی اور دونوں ہاتھ مسلسل چل رہے تھے۔ کشتی جھیل پر ایسے تیر رہی تھی جیسے جنگلی بطخ ۔ کسی نے اپنے گھر کی طرف دیکھنے کی زحمت نہ کی۔ جلد ہی پانی نہ ملنے کی وجہ سے تمام پھول اور درخت سوکھ جائیں گے۔ آنے والی بارشیں ان کے گھر کا کیا حال کریں گی؟ ان سب سے بے نیاز ، کشتی آگے بڑھ رہی تھی۔ سب کی آنکھوں میں خوشی تھی، چمک تھی! ہوا تیز ہوتی جارہی تھی۔ کشتی تیزی سے آگے بڑھ رہی تھی! آخر کاروہ ربڑ اکٹھا کرنے جا رہے تھے۔
٭٭
کئی مہینے گزر گئے۔ ربڑ کے درخت اس عورت کی طرح ہو گئے تھے، جس کی چھاتیوں میں دودھ سوکھ گیا ہو۔ ان درختوں کی شاخیں ہوا میں ایسے جھول رہی تھیں جیسے ہاتھ اٹھا کر دہائی دے رہی ہوں۔ ربڑ جمع کرنے والے اس کے تنے میں سوراخ کرتے اور مٹی کے برتن سوراخ کے ساتھ لگا کر ربڑ نکلنے کا انتظار کرتے، جو ان سبھوں کے لیے امرت تھا۔ وہ بار بار مختلف حصوں میں سوراخ کرتے مگر بے سود! ان درختوں کا سارا امرت نچوڑ لیا گیا تھا! وہ خاندان بہت دیر سے وہاں پہنچا تھا۔ ان کے خواب ادھورے رہ گئے تھے۔ وہ خاندان بھی ادھورا رہ گیا تھا۔ واپسی کے سفر کی تیاریاں ہونے لگیں۔
٭٭
واپسی کا سفر شروع ہوا۔ ناؤ میں صرف باپ، ماں اور ایک بیٹی سفر کر رہی تھی۔۔ اور ہاں، اس لڑکی کا ایک نوزائیدہ بچہ بھی۔ اس کا بیٹا اس سفری بستی میں قرض کی ادائیگی کے لیے محنت مزدوری کر رہا تھا ۔ اور اس کی ایک لڑکی؛ اس کا کچھ پتا نہ تھا کہ وہ کہاں ہے۔ ماں کے چہرے پر صدیوں کی تھکن ہے اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہ رہے ہیں۔ باپ ویران آنکھوں سے مستول پر نظریں جمائے کھڑا ہے۔ لڑکی کھنکاری اور باپ نے خود ہی بادبان کھول کر آہستہ آہستہ چپو چلانا شروع کر دیا۔ واپسی کا سفر شروع ہو چکا تھا۔
٭٭
ان کے اس بستی میں آنے کے تین مہینے بعد تاجر آیا۔ اپنے عمدہ لباس میں، بڑا سا ہیٹ پہنے، اسی سپاٹ چہرے کے ساتھ، ہاتھ میں سگریٹ سلگائے وہ ان کے خیمے میں داخل ہوا۔ سلام دعا کے بعد پوچھا، ”ہمارا کام کیسا جا رہا ہے؟“
ب”ہت برا! ہم یہاں دیر سے پہنچے۔ ربڑ اکٹھا کرنا بے حد کٹھن ہوتا جارہا ہے۔“
تاجر کو اندازہ ہو گیا کہ اس کا مقروض آدھا قرض بھی ادا نہیں کر سکتا مگر اس کی مسکراہٹ کم نہ ہوئی، ”اس کا مطلب ہے کہ تم کچھ بھی جمع نہ کرسکے!“
ماں نے اس کا جملہ کاٹ کر کہاکہ کسی نے ان درختوں پر جادو کر دیا ہے۔
تاجر کسی سوچ میں پڑ گیا اور بولا: ”دیکھو تم مجھے بے حد عزیز ہو۔ کوئی بات نہیں میں کسی اور سے اپنا نقصان پورا کر لوں گا۔ آج رات ہم ایک اجتماعی دعا کا اہتمام کر رہے ہیں۔ تم سب اس میں ضرور شرکت کرو۔ پورے خاندان نے آنا ہے۔“
پھر اس نے خاص طور پر لڑکیوں کو مخاطب کیا، ”تم ضرور آنا! دعا کے بعد کھانا اور پھر ایک ڈانس پارٹی ہوگی۔“
یہ کہہ کر وہ وہاں سے چل دیا۔ باہر نکلتے نکلتے اس نے لڑکیوں پر ایک نگاہ ڈالی۔ویسی جیسے کوبرا اپنے شکار پر ڈالتا ہے۔
٭٭
اس تقریب کو اجتماعی دعا کی بجائے اس خاندان کی تقریبِ بربادی کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ دعائیہ تقریب کے بعد شراب نوشی شروع ہوئی۔ باپ اور بیٹا تقریباً مدہوش ہو گئے اور ماں اپنی عمر کی عورتوں کے ساتھ باتوں میں مشغول ہو گئی۔ دونوں لڑکیوں کو تاجر اور اس کا ایک ساتھی اپنے ساتھ لے گئے۔ کئی ہفتوں کے بعد ایک رات ان کے خیمے کے باہر ایک لڑکی کی آواز سنائی دی۔ ماں باپ بے چینی سے باہر نکلے۔
”تمھاری بہن کہاں ہے؟“
”پتا نہیں! وہ تاجر کے ساتھی کے ساتھ تھی۔ مجھے کچھ نہیں پتا۔ تاجر مجھے کنارے پر اُتار گیا ہے۔“
اپنی اس بے حرمتی پر وہ خاندان کیا کر سکتا تھا! وہ بس روتے رہے! تاجر دوبارہ وہاں دکھائی نہ دیا اور نہ ہی ان کی دوسری لڑکی۔ باپ نے ربڑ اکٹھا کرنے کی سعی لاحاصل دوبارہ شروع کر دی۔ اسی طرح کئی ماہ گزر گئے۔ ان کے خاندان میں ایک نئے وجود کا اضافہ ہو گیا۔
٭٭
آخر کار اپنے بیٹے کو گروی رکھ کر انھوں نے واپسی کا سفر شروع کر دیا۔ اسی گھر کی طرف جو ایک سال سے ان کا منتظر تھا۔ اس گھر کے تمام درخت اور پھول سوکھ چکے تھے۔ بارشوں سے گھر تقریباََ ڈھے چکا تھا۔ ان کا کھیت جہاں باپ نے نارجیل کاشت کرنی تھی، وہ ایک جنگل کا سماں پیش کر رہا تھا۔ شاید ان کا گھر بھی ان کی حالتِ زار پر ماتم کنا ں تھا۔
٭٭
اس تباہ حال گھر میں ابھی وہ پوری طرح آباد بھی نہیں ہوئے تھے کہ تاجر آ گیا۔ اپنے عمدہ لباس میں، چہرے پر مسکان سجائے۔ لڑکی کے دل میں ایک امید جاگی کہ شاید وہ اسے لینے آیا ہے۔ پھر ایک خدشہ جاگا کہ کہیں وہ اس کا بچہ نہ لے جائے۔ باپ کے دل میں اندیشے سر اٹھانے لگے کہ پتا نہیں اب وہ کیا کرے گا؟ تاجر نے سپاٹ لہجے میں بتایا کہ وہ اپنی رقم وصول کرنے آیا ہے۔ دونوں لڑکیوں کی حرمت بھی اس خاندان کا قرض نہیں اتار سکی تھی۔ لڑکی نے ہمت مجتمع کی اور اپنا بچہ اس کی طرف بڑھا کر بولی، ”خدارا اس پر تو رحم کرو! یہ تمھار ا بچہ ہے۔“
”میں یہ بات نہ جانے کتنی لڑکیوں سے سن چکا ہوں۔۔“ لہجہ اسی طرح سپاٹ رہا۔
اس نے لڑکی کے باپ کو مخاطب کیا، ”میں تمھاری کشتی لے رہا ہوں۔ اس سے میری پوری رقم تو وصول نہیں ہوگی تاہم کچھ نہ کچھ بھرپائی ہو ہی جائے گی۔“
باپ صرف صدمے کی حالت میں اس کی طرف دیکھتا رہ گیا۔ تاجر نے ان کی کشتی اپنی کشتی کے ساتھ باندھی اور وہاں سے چل دیا۔ دیکھتے دیکھتے دونوں کشتیاں وہاں سے دور ہوتی گئیں۔۔
وہ چھوٹا سا گھر، جو کبھی ایک خوش نما منظر کی طرح تھا، اب وہاں دکھ اور درماندگی تھی۔۔دائمی دکھ اور ابدی درماندگی۔۔