کسی کو بھی تکلیف ہو تو دردمند افراد خود بھی تکلیف میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ دوسرے کا آنسو ان کی آنکھ میں بھی آنسو لے آتا ہے۔
ملک بھی ایک خاندان کی مانند ہوتا ہے، اس لیے جب کسی ایک حصے میں تکلیف ہو تو درد سب محسوس کرتے ہیں۔ پر یہ بات صرف درد مند لوگوں پر پوری اترتی ہے، سفاک لوگ یا ظلم کرنے والے کسی کا دکھ محسوس نہیں کرتے۔ ملک کو دھرتی ماں کہا جاتا ہے، اس لیے اس میں بسنے والے بھی ایک لڑی میں پروئے ہوئے ہیں، ایک کا درد، دوسرے کا دکھ بن جاتا ہے۔
بہت عرصے تک ہم پنجاب میں بسنے والے بہت سے لوگ بلوچستان کے دکھ نہیں سمجھ سکے۔ وہاں غم کے سائے گہرے کیوں ہیں، وہاں دہشت گردی کیوں ہو رہی ہے، سکیورٹی فورسز پر حملے کیوں ہو رہے ہیں، ایسا کیا ہے کہ وہاں حالات بگڑ رہے ہیں؟
ایسے بہت سے سوالات جنم لیتے رہے ہیں اور لے رہے ہیں۔ بلوچستان رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ہے اور قدرتی طور پر وسائل سے مالا مال ہے۔ پھر یہاں سہولیات کا فقدان کیوں ہے، لوگ محرومی کا شکار کیوں ہیں؟ یہاں کے سردار اشرافیہ امرا تو اربوں میں کھیل رہے ہیں، ہر حکومت اور طاقت کے ایوانوں کا حصہ ہیں، پر عوام مفلسی بدامنی اور نا انصافی کا شکار کیوں ہیں؟ وہاں سوئی گیس کے پائپ کون اڑا دیتا ہے اور بی ایل اے نے کیوں جنم لیا؟
کلبھوشن یادو کا وہاں سے پکڑا جانا بھی وہاں غیر ملکی مداخلت کا ثبوت ہے۔ ایسا کیا ہو رہا ہے کہ وہاں شاری بلوچ خودکش حملہ آور بن جاتی ہے اور بچوں کی ماں ہونے کے باوجود چینی اسٹاف پر خودکش حملہ کر دیتی ہے۔۔ نفرت کے یہ بیج کون بو رہا ہے؟ ان کی بیخ کنی کیسے ہوگی؟
طاقت کا استعمال کر کے تو شاید یہ ممکن نہیں لیکن محبت ان نفرتوں کو مٹا سکتی ہے۔ یہ معاملہ بہت الجھ گیا ہے، آپریشن دہشت گردوں کے خلاف کیا جاتا ہے لیکن جو لوگ کیمپوں میں موجود ہیں اور انصاف مانگ رہے ہیں، ان کے ساتھ صرف مذاکرات ہی واحد حل ہے۔
انڈیا نے بہت چالاکی سے بلوچستان کو کشمیر کے ساتھ لاکھڑا کیا ہے، تاہم اس میں ہماری ریاست کی کوتاہیاں بھی ہیں۔ سب کچھ انڈیا پر ڈال کر بری الذمہ نہیں ہو سکتے۔ کشمیر دو ممالک کے درمیان عالمی تنازع ہے، جسے انڈیا قانون سازیاں کر کے اپنا حصہ ڈکلیئر کر چکا ہے، جبکہ بلوچستان تو پاکستان کا حصہ اور صوبہ ہے۔ یہ کوئی مقبوضہ علاقہ نہیں، یہاں پر پیدا ہونے والے مسائل پاکستان کا داخلی معاملہ ہیں۔
تو پاکستان کو اس طرف نظر ثانی کرنی ہوگی کہ وہ کون سے معاملات ہیں، جو یہاں کشیدگی کا باعث ہیں۔ پہلے چونکہ ماضی قریب میں پنچاب نے ریاستی جبر نہیں دیکھا تھا تو یہاں اکثر لوگ یہ کہتے تھے کہ شاید بلوچ لاپتہ افراد بی ایل اے کا حصہ ہیں اور وہ دہشت گردی میں ملوث ہیں، پر اب ان کی آنکھیں کھل گئی ہیں، ان کو بھی لاپتہ افراد کا غم نظر آنے لگ گیا ہے۔ دکھوں، ریاستی جبر اور انتقامی کارروائیوں نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا ہے۔
بہت سے بلوچ افراد کو گھروں یا کام کرنے کی جگہ سے اٹھا کر غائب کیا گیا، وہ جرائم پیشہ یا انتہاپسند نہیں تھے۔ ان کے لواحقین ان کی واپسی چاہتے ہیں۔ وہ اکثر کہتے ہیں کہ پنجاب والے خوش نصیب ہیں کہ لاپتہ ہونے کے بعد پریس کانفرنس اور پی ٹی آئی سے لاتعلقی کے بیان پر وہ واپس اپنے گھروں کو لوٹ آتے ہیں، پر بلوچ لاپتہ افراد کو یہ سہولت حاصل نہیں۔ وہ سالوں سے گھر سے نہیں لوٹے۔
گھر سے مرد چلا جائے تو گھر ویران اور اجاڑ ہو جاتا ہے۔ جب میں نے ماہ رنگ بلوچ کو دیگر خواتین کے ساتھ اسلام آباد کی طرف آتے دیکھا تو اس غم کو محسوس کیا۔ جب جلیلہ حیدر کوئٹہ میں بھوک ہڑتال کر کے بیٹھی تھیں، اس وقت مجھے اس غم کی شدت محسوس نہیں ہوئی، پر جب خود دکھ غم دیکھے تو ان کی تکلیف کا احساس ہوا۔
مجھے اب معلوم ہے کہ جب گھر سے مرد چلا جائے تو پیچھے وحشت، خاموشی، اداسی اور دکھ ڈیرے ڈال دیتے ہیں۔ مجھے تو یہ معلوم ہے کہ ارشد (ارشد شریف) ایچ الیون قبرستان میں مدفون ہیں، پھر بھی دل کو ایک جھوٹی آس رہتی ہے کہ شاید ابھی ان کا فون آ جائے، شاید وہ زندہ ہوں۔
پر ایسا نہیں ہے، وہ اپنے ابدی سفر پر روانہ ہو گئے ہیں۔ میں پیچھے اکیلے رہ گئی، پتہ نہیں ہم دوبارہ کب ملیں گے، لیکن جو نا انصافی ان کے ساتھ ہوئی، وہ مجھے جینے نہیں دیتی۔ میں روز جیتی ہوں، روز مرتی ہوں۔
پر ان بلوچ خواتین کی تکلیف تو مجھ سے بھی زیادہ ہے، ان کو تو پتہ ہی نہیں کہ ان کے باپ بھائی بیٹے زندہ بھی ہیں یا نہیں۔ گھر واپس آئیں گے بھی یا نہیں، ان کو قبر نصیب ہوگی یا نہیں۔ ان کا دکھ ان کو زندہ درگور کیے ہوئے ہے۔ ناانصافی اور ریاستی جبر آپ کو زندہ درگور کر دیتا ہے۔
اب یہ بلوچ بیٹیاں اسلام آباد آئی ہیں، رو رہی ہیں فریاد کر رہی ہیں، پر کوئی شنوائی ہی نہیں۔ کیا صدرِ پاکستان، نگران وزیراعظم اور چیف جسٹس ان سے ملنے نہیں جا سکتے، ان کے سروں پر دستِ شفقت نہیں رکھ سکتے، ان کا غم نہیں بانٹ سکتے؟ ریاست سے جو اس معاملے میں کوتاہی ہوئی، اس پر معافی نہیں مانگ سکتے؟
شاہراہِ دستور اور پریس کلب میں چند فرلانگ کا فاصلہ ہے۔ ان فاصلوں کو صرف ارباب اختیار دور کر سکتے ہیں۔ اگر ان خواتین کو پہلے دن ہی عزت اکرام سے بٹھایا جاتا، ان کے مسائل سنے جاتے تو عالمی طور پر پاکستان کے حوالے سے منفی تاثر نہ جاتا۔
یہاں تک کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی فعال کارکن گریٹا ٹونبرگ نے بھی بلوچ خواتین کے ساتھ یکجہتی کے لیے ٹویٹ کر دیا۔ اس کے بالکل نیچے اسلام آباد پولیس نے ٹویٹ کیا کہ خواتین پر تشدد کا کوئی واقعہ نہیں ہوا۔
ہم کس کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں!؟ دنیا سب دیکھ رہی ہے۔۔ سوشل میڈیا کے دور میں خبر چند لمحوں میں دنیا بھر تک پہنچ جاتی ہے۔ بیٹیاں رو رہی ہیں، انصاف کی فریاد کر رہی ہیں اور یہاں ریاست کے خودساختہ نمائندے ان سے کہتے ہیں کہ ’کیا بی ایل اے کی مذمت کرتے ہو؟‘
ان دکھوں کے مارے لوگوں سے مائیک کے سامنے بدتمیزی کی جاتی ہے، ان کو دہشت گردی کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مائیک والوں کو اور اشرافیہ کو اتنا بھی بےحس نہیں ہونا چاہیے۔
عوام کے مسائل کو سمجھیں، ان سے دوریاں مت بنائیں۔ یہی دوریاں مینڈٹ کی توہین، وسائل کی تقسیم میں ناانصافی، کچھ لوگوں کی انا، غرور اور تکبر مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنا گئے تھے۔ اپنی غلطیوں سے سیکھیں اور ان بیٹیوں کے دکھوں کا مداوا کریں۔
اسی طرح پی ٹی آئی کی اسیر خواتین کو بھی الیکشن سے پہلے رہا کریں، وہ سیاسی کارکنان ہیں، کوئی دہشت گرد نہیں۔ اختلاف رائے پر غداری کے فتوے باٹنا بند کیے جائیں۔
ہم سب پاکستانی ہیں اور محب وطن ہیں، اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ہے۔ تنقیدی آوازوں کا گلا نہ گھونٹا جائے۔
پنجابی کے عظیم شاعر وارث شاہ کے جواب میں امرتا پریتم نے 1947 کے فسادات کے بارے میں نظم لکھی تھی، جس کی یہ دو سطریں آج کے حالات پر بھی صادق آتی ہیں:
اک روئی سی دھی پنجاب دی، توں لکھ لکھ مارے بَین،
اج لکھاں دھیاں روندیاں، تینوں وارث شاہ نوں کہن۔۔۔۔
بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)