نفرت کے سوداگر

رؤف کلاسرا

پاکستان اور بھارت ایک دفعہ پھر آمنے سامنے ہیں۔ اگرچہ اب یہ کوئی خبر ہے نہ اس میں کوئی نئی بات ہے۔ بھارت میں کوئی واش روم میں بھی گر جائے تو الزام پاکستان پر دھر دیا جاتا ہے کہ شاید کوئی سیکرٹ ایجنٹ فرش پر پانی گرا گیا تھا۔ کوئی کبوتر یا غبارہ اڑ کر پاکستانی سرحد سے بھارت کے کھیتوں میں چلا جائے تو بھی بڑے پیمانے پر تحقیقات شروع ہو جاتی ہے۔ ٹی وی چینلز بڑی بڑی بریکنگ خبریں چلاتے ہیں اور عوام کو بتایا جاتا ہے کہ بھارت میں ہرخرابی کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ ہے۔

اگر آپ انڈین نیوز چینلز کچھ دیر دیکھ لیں تو لگے گا کہ کچھ دیر میں پاکستان اور بھارت میں جنگ چھڑ سکتی ہے۔ اتنی نفرت اور غصہ آپ کو دنیا کے کسی اور ملک میں نظر نہیں آئے گا۔ اگرچہ دونوں ملکوں کے میڈیا اور عوام یا حکومتوں کو ایک دوسرے سے نفرت کرنے کے لئے کسی خاص وجہ کی ضرورت نہیں ہے، کوئی خاص بہانہ بھی نہیں چاہیے، چوبیس گھنٹے یہ کام چلتا ہے، لیکن ابھی جو کچھ کابل میں ہوا ہے، اس کے بعد اس میں شدت آگئی ہے۔ بھارت اسے اپنی شکست سمجھ رہا ہے تو ہم اسے ذاتی فتح سمجھتے ہیں۔ بھارت میں صف ِماتم بچھ گئی تو ہمارے ہاں جشن چل رہا ہے۔ شاید دونوں ملکوں کو سمجھ نہیں آرہی کہ اپنی دشمنی کا اظہار کیسے کیا جائے۔

میں اور عامر متین کبھی یہ یقین کیے بیٹھے تھے کہ بھارتی عوام اور میڈیا کے برعکس ہم پاکستانی زیادہ میچور ہیں اور ہمارے ہاں بھارت کے خلاف وہ نفرت نہیں جو بھارت میں ہمارے خلاف پائی جاتی ہے، لیکن لگ رہا ہے کہ بھارتی میڈیا اور وہاں کی سیاسی لیڈر شپ کی دیکھا دیکھی اب ہم نے بھی وہی رویہ اختیار کر لیا ہے کہ ہمارے ہاں جو کچھ ہوتا ہے اس کے پیچھے بھی بھارت کا ہاتھ ہوتا ہے۔ یوں دونوں ملکوں کی حکومتوں کے مزے ہیں کہ نہ کوئی ان سے جواب طلبی کرتا ہے اور نہ ہی ان کی نالائقی پر انہیں تنقید کا نشانہ بناتا ہے۔ عوام ایک دوسرے کے خلاف ٹوئٹر یا سوشل میڈیا پر دشنام طرازی کرتے رہتے ہیں۔ آپ سوشل میڈیا پر چلے جائیں، بھارت اور پاکستان کی نوجوان نسلیں ایک دوسرے کے خلاف ٹرینڈز چلاتی نظر آئیں گی۔ بھارتی پاکستان کی کسی ناکامی پر شادیانے بجاتے نظر آئیں گے، تو ہم پاکستانی بھارت کی ناکامی پر آسمان سر پر اٹھا لیں گے۔ میں نے مشکل سے ہی کسی پاکستانی یا ہندوستانی کو سوشل میڈیا پر نارمل انداز میں بات کرتے دیکھا ہوگا۔

کبھی میں ایک ایسے واٹس ایپ گروپ میں شامل تھا، جس میں پاکستان اور بھارت کے مشہور صحافی‘ کالم نگار‘ اینکرز‘ سول ملٹری افسران اور دیگر اہم لوگ شامل تھے۔ یقین کریں کچھ دن بعد جو حشر دونوں ملکوں کے دانشور ایک دوسرے کا کر رہے تھے، میں نے توبہ کی اور گروپ سے نکل گیا۔ جب دونوں ملکوں کی پڑھی لکھی ایلیٹ کا یہ حال ہے تو آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ عوام کا کیا حشر ہوچکا ہوگا۔ اب ہم پاکستانی اور بھارتی اگر سوشل میڈیا یا ٹی وی پر اکٹھے ہو جائیں تو ممکن ہی نہیں چند منٹ بعد گھمسان کا رن نہ پڑے۔

آج کل ایک نیا ٹرینڈ سامنے آرہا ہے کہ بھارتی چینلز پاکستان کے صحافیوں کو اپنے ٹی وی شوز میں بلاتے ہیں اور پھر دونوں ملکوں کے صحافیوں کا حب الوطنی کا وہ مقابلہ ہوتا ہے کہ اللہ امان دے۔ دونوں اطراف ایک دوسرے کے خلاف وہ وہ الزامات لگاتے ہیں کہ بندہ سن کر روئے یا ہنسے۔ ہندوستانی چینلز پر وہی پاکستانی چل سکتا ہے جو بھارت کو منہ توڑ جواب دے۔ اگر اس نے نرم لہجے میں بات کی، نارمل انسان بن کر دونوں ملکوں میں نارمل تعلقات کی بات کی یا نارمل ہمسایہ بن کر بات کی یا کوئی دانش ورانہ بات کی تو وہ نہیں چل سکتا۔ آپ کو بھارتی چینل پر چیختے چنگھاڑتے بندے کی ضرورت ہے جو سیدھا ٹھوک دے۔ بھارتی چینلز ریٹنگ کے چکر میں ہمارے ہاں پاکستان کے اچھے خاصے نوجوانوں کو بھی اپنی راہ پر لگا چکے ہیں۔ میں سوشل میڈیا پر ان کے لڑائی جھگڑے کے کلپس دیکھتا ہوں تو ہنسی سے زیادہ رونا آتا ہے کہ دونوں ملکوں کے عوام اور میڈیا کدھر چل پڑے ہیں؟

کبھی کبھی میں سوچتا ہوں، ایک دوسرے سے خود کو زیادہ طاقتور اور بہتر ملک یا معاشرہ سمجھنے کا جنون ہمیں کہاں لے جائے گا؟ یہ نرگسیت کا جنون کیا گل کھلائے گا؟ اتنی نفرت کوئی معاشرہ کیسے ہضم کرسکتا ہے؟ چاہے وہ بھارت کا ہو یا پاکستان کا… ہر بات اور ہر چیز میں ایک دوسرے کا مقابلہ اور بڑائی.. ہم بہتر اور تم خراب.. ہم نیک اور تم بد.. ہم فرشتے اور تم شیطان جیسی سوچ معاشرے کو جلا نہیں دے گی کیا؟

ابھی دیکھ لیں نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم کے دورے کے کینسل ہونے کے بعد جو کچھ ہورہا ہے ہمارے سامنے ہے۔ جیسے پہلے کہا کہ پاکستان اور بھارت ایک دوسرے کے لئے Punching Bag بن چکے ہیں۔ دونوں جب بھی کسی ناکامی یا ایشو سے نبردآزما ہوتے ہیں، تو ایک دوسرے پر چڑھ دوڑتے ہیں اور عوام اور میڈیا بھی بھیڑ بکریوں کی طرح اسی سمت چل پڑتے ہیں۔ اب پاکستان کہہ رہا ہے کہ نیوزی لینڈ کے دورے کی معطلی کے پیچھے بھارت کا ہاتھ ہے، جہاں سے ایک جعلی ای میل کی گئی۔ اندازہ کریں کہ پورے پاکستان اور ہماری حکومت کی اتنی ساکھ ہے کہ ایک جعلی ای میل اس پر بھاری نکلی؟ ہم کابل کی فتح پر اتنے پرجوش تھے کہ ہمیں پتہ ہی نہ چلا کہ کب دنیا نے ہمیں بھی کابل اور کابل کے حکمرانوں کے مقام پر لاکھڑا کیا۔ جتنی ساکھ اس وقت کابل کی ہے اتنی ہی ہماری رہ گئی ہے۔ جیسے دنیا افغانستان جا کر کرکٹ کھیلنے کو تیار نہیں، ویسے ہی وہ پاکستان آکر کھیلنے کو بھی تیار نہیں۔ نیوزی لینڈ، آسٹریلیا اور انگلینڈ کی کرکٹ ٹیمیں انکاری ہو گئیں۔ ہم نے سوچ لیا ہے کہ ہم پوری دنیا کو چھوڑ سکتے ہیں، لیکن افغانستان کو اپنے قریب تر رکھنے کے جنون سے پیچھے نہیں ہٹیں گے، چاہے اس کی کوئی بھی قیمت کیوں نہ ادا کرنی پڑے۔ اب اس وقت افغانستان گندم‘ آٹا‘ چینی‘ سب کچھ پاکستان سے جارہا ہے اور پاکستان خود اربوں ڈالرز لگا کر گندم اور چینی باہر سے خرید رہا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ پاکستان کے پاس ڈالرز تیزی سے کم ہوئے ہیں اور ڈالر ایک سو ستر روپے تک پہنچ گیا ہے۔ خرچے پورے کرنے کے لئے بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتیں ہر پندرہ دن بعد بڑھائی جا رہی ہیں۔ اس وقت گیس، بجلی، پٹرول اور ڈالر تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہیں۔ مہنگائی نے عوام کا کچومر نکال دیا ہے۔

اب ایسے حکمرانوں کو عوام کا کیا احساس ہوسکتا ہے، جنہوں نے عمر بھر چائے کا ایک کپ اپنی جیب سے پیسے دے کر نہ پیا ہو، گھر کا کچن چلانے کے لئے خریداری کرنا تو دور کی بات ہے۔ ایک قابلِ احترام سرکاری افسر بتانے لگے کہ دو سال پہلے تک ان کے والدہ کی ادویات پانچ ہزار روپے میں آتی تھیں، اب پندرہ ہزار میں آتی ہیں اور ان کی اماں کہتی ہیں پتر تیری وزیراعظم تک کوئی رسائی نہیں کہ اسے سمجھاؤ کہ عوام کی کیا حالت ہوگئی ہے؟ عوام بجلی، گیس، پٹرول اور ادویات کی قیمتیں پوری کرتے کرتے بے حال ہو چکے ہیں۔

ہم اپنی عالمی ساکھ کے بگڑنے سے نہ پریشان ہیں،  نہ ڈالر کا ریٹ ہمیں تنگ کررہا ہے، نہ پٹرول کی قیمتیں نہ بجلی گیس کے بلز ہماری ترجیحات ہیں۔ خوشی بس یہ ہے کہ افغانستان کو ہم نے بالآخر پانچواں صوبہ بنا کر ہی دم لیا۔

مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ یہ کس کی بدقسمتی ہے کہ افغانستان، بھارت اور پاکستان ایک دوسرے کے ہمسائے ہیں اور ہمسائے بھی ایسے جن کے سینگ چوبیس گھنٹے ایک دوسرے کے ساتھ پھنسے رہتے ہیں۔ اس خطے کی نسلوں کی قسمت میں ایک دوسرے کے خلاف دن رات نفرت کا پرچار، ٹی وی چینلز پرایک دوسرے پر چیخنا چلانا، خود کو نیک اور دوسرے کو شیطان ثابت کرنا، جنگی جنون کو ہوا دینا اور سوشل میڈیا پر گالی گلوچ ہی لکھا ہے۔

(بشکریہ تجزیہ)

سنگت میگ کے تجزیے اور بلاگز:

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close