حکومتی اتحاد سے غیر مطمئن اتحادی جماعت گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) میں پھوٹ پڑ گئی، جس کے بعد جی ڈی اے کے متعدد رہنماؤں نے اڑان بھرنے کی تیاریاں شروع کر دی ہیں
ذرائع کا کہنا ہے کہ جی ڈی اے کے اہم رہنما سابق وزیر داخلہ سندھ ذوالفقار مرزا بھی سیاسی حلقوں میں غیر فعال ہو گئے ہیں، جب کہ سابق وزیر اعلیٰ سندھ ارباب غلام رحیم کی حکومت پر کڑی تنقید کے بعد مہر گروپ کے سربراہ علی گوہر مہر نے بھی پیپلز پارٹی میں شمولیت کے لیے کوششیں تیز کر دی ہیں
ذرائع کے مطابق سندھ کے جزائر سے متعلق تحفظات دور نہ ہونے اور حکومت سے سے نالاں جی ڈی اے کے متعدد رہنماؤں نے دوسری جماعتوں سے بیک ڈور رابطے شروع کر دیے ہیں، جس کے پہلے مرحلے میں علی گوہر مہر کی جانب سے اپنے دو قریبی ساتھیوں سے مشاورت کی گئی ہے جن میں سابق صوبائی وزیر نادر اکمل لغاری اور عبدالباری پتافی کے بھائی ہالار خان پتافی شامل ہیں، دونوں رہنماؤں کی جانب سے انہیں سیاسی وفادری تبدیل کرنے سے متعلق کسی قسم کا مثبت جواب نہیں مل سکا ہے
ذرائع کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں علی گوہر مہر کی جانب سے حلقے کے اتحادیوں سے بھی رابطے کا فیصلہ کیا گیا ہے، جس کے تحت آئندہ آنے والے دنوں میں ان کی تحریک انصاف کے رکن شہر یار خان شر سے ملاقات متوقع ہے، جن کی جانب سے صدارتی آرڈیننس کے تحت قائم کردہ آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے خلاف سندھ اسمبلی میں اپوزیشن کی قرار داد کی حمایت کی گئی تھی
ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ چند روز قبل شہر خان شر کی جانب سے پیپلز پارٹی سندھ کے صدر نثار کھوڑو سے بھی رابطے کو یقینی بنایا گیا ہے اور پیپلز پارٹی میں شمولیت کی خواہش کا اظہار کیا گیا ہے
ذرائع کے مطابق ان تمام امور کو سامنے رکھتے ہوئے سردار علی گوہر مہر نے اپنے بھتیجے اور سابق مشیر وزیر اعلیٰ سندھ محمد بخش خان مہر کے بھانجے احمد علی مہر کو بھی پیپلز پارٹی کی جانب متوجہ کرنا شروع کر دیا ہے، جس کے بعد تینوں فریقین کی ایک ساتھ پیپلز پارٹی میں شمولیت کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے
واضح رہے کہ این اے 205 گھوٹکی2 کے ضمنی الیکشن میں پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار محمد بخش خان مہر نے تحریک انصاف اور جی ڈی اے کے حمایت یافتہ مرحوم امیدوار سردار علی محمد مہر کے فرزند احمد علی مہر کو 17 ہزار سے زائد ووٹوں سے شکست دی تھی
یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ آئے روز پیپلز پارٹی کے مختلف رہنماؤں کی جانب سے اس بات کا دعویٰ بھی کیا جاتا رہا ہے کہ حکمراں جماعت اور حکومتی اتحادیوں کے کئی اہم رہنما مسلسل پیپلز پارٹی کے ساتھ رابطے میں ہیں اور وہ پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرنا چاہتے ہیں.