
میں جب سے اپنی آبائی سلطنت کی سیاحت کرنے نکلا ہوں، روز بہ روز پائے تخت سے دُور ہی دُور ہوتا جا رہا ہوں اور میرے پاس اطلاعات کی آمد میں کمی واقع ہوتی جا رہی ہے۔
میں جب اس سفر پر روانہ ہوا، تب محض تیس سال کا تھا اور آٹھ سال سے زیادہ گزر چکے ہیں۔ ٹھیک ٹھیک کہوں تو آٹھ سال، چھ مہینے اور پندرہ دنوں سے مسلسل سفر میں ہوں۔ جب میں روانہ ہوا، تو سوچا تھا کہ کچھ ہی ہفتوں میں با آسانی سرحد پر پہنچ جاؤں گا، مگر مجھے نئے نئے لوگ ملتے جا رہے ہیں، نئے قریوں اور علاقوں کا پتہ چل رہا ہے اور ہر کہیں میری زبان بولنے والے، میری رعیت ہونے کا دعویٰ کرنے والے لوگ ہیں۔
بعض اوقات مجھے شبہ ہوتا ہے کہ میرا قطب نُما پاگل ہو گیا ہے کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم جنوب کی طرف بڑھ رہے ہیں، لیکن دراصل ہم دائرے میں چکر لگائے جا رہے ہیں، اور حقیقت میں پائے تخت سے ہمارا فاصلہ بڑھ ہی نہیں رہا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہم مُلک کی سرحد سے ہمکنار نہیں ہو پا رہے۔۔ لیکن اکثر مجھے یہ خیال بھی ستاتا ہے کہ شاید سرحدیں ہیں ہی نہیں، یہ سلطنت بے حد وسیع و عریض ہے۔۔ اور اس طویل مسافت کے باوجود میں کبھی سرحد پر پہنچ ہی نہیں سکوں گا۔
جب میں نے سفر کا آغاز کیا، تب میں تیس سال کا تھا اور شاید تاخیر ہو چکی تھی۔ میرے دوستوں حتیٰ کہ میرے خاندان نے بھی میرے منصوبے کا مذاق اڑایا، کیونکہ ان کا خیال تھا کہ میں اپنی زندگی کے بہترین سال برباد کرنے جا رہا ہوں۔ سچ تو یہ ہے کہ صرف چند وفادار دوست ہی میرے ساتھ چلنے کو تیار ہوئے۔
بے فکری کے باوجود، جتنا اب ہوں اس سے کہیں زیادہ لاپرواہ ہوتے ہوئے بھی میرا اس سفر میں اپنے عزیز و اقارب سے رابطہ رکھنے کا ارادہ تھا۔۔ اور اس لیے میں نے اپنے محافظوں میں سے بہترین سات سواروں کو قاصد چُنا۔
اپنی نادانی کےباعث میں نے سوچا تھا کہ سات قاصد تو بہت زیادہ ہیں، مگر جوں جوں وقت گزرتا گیا، مجھے محسوس ہوا کہ سات بہت زیادہ نہیں ہیں، بلکہ مضحکہ خیز حد تک کم ہیں۔ ویسے ان میں سے کوئی کبھی بیمار نہیں پڑا، نہ ڈاکوؤں کے ہتھے چڑھا ہے، نہ کسی کے گھوڑے نے کبھی جواب دیا ہے۔ ساتوں نے ایسے اعتماد اور لگن کے ساتھ میری خدمت کی ہے کہ اس کا مکمل بدلہ دینا میرے لیے کٹھن ہوگا۔
شناخت میں آسانی کے لیے میں نے انہیں حروف تہجی کے لحاظ سے نئے نام دیے: الساندرو، بارتولومیو، کائیو، ڈومنیکو، عطورہ، فِدریکو اور گریگوری۔
گھر سے دُور رہنے کا مجھے بالکل تجربہ نہیں تھا، اس لیے میں نے پہلے قاصد الساندرو کو سفر کے دوسرے دِن شام ہی کو گھر روانہ کر دیا۔ تب تک ہم لگ بھگ اَسّی کوس کا فاصلہ طے کر چکے تھے۔ تاکہ خبروں کا سلسلہ چلتا رہے، میں نے اگلی شام دوسرا قاصد بھی بھیج دیا۔ پھر تیسرا، چوتھا اور سفر کی آٹھویں شام کو گریگوری بھی چلا گیا۔ پہلا قاصد ابھی پائے تخت سے واپس نہیں آیا تھا۔
دسویں دن جب ہم ایک ویران وادی میں رات کا پڑاؤ ڈالنے کی تیاری میں تھے، الساندرو ہم سے واپس آن ملا۔ اس نے بتایا کہ جتنی امید تھی، اس سے کہیں دھیمی رفتار میں اسے سفر کرنا پڑا۔ میں نے تو سوچا تھا کہ چونکہ وہ اکیلا ہی جا رہا ہے، اس لیے ہمیں جتنا وقت لگا، اس سے نصف میں ہی وہ یہ مسافت طے کر لے گا، لیکن حقیقت میں وہ ہماری توقع سے صرف ڈیڑھ گنا فاصلہ روزانہ طے کر پایا تھا۔ ہم چالیس کوس چلتے تھے اور وہ ساٹھ کوس، اس سے زیادہ نہیں۔
دوسروں کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوا۔ بارتولومیو ہمارے سفر کی تیسری شام پائے تخت کو روانہ ہوا اور دو ہفتے بعد واپس آیا۔ کائیو چوتھے دن گیا اور بیسویں دن لوٹا۔ میں جلدی سمجھ گیا کہ ہر قاصد کے لَوٹنے کے دن کا حساب لگانے کے لیے اس کی روانگی کے دن کو پانچ سے ضرب دینا ہوگی۔
چونکہ ہم پائے تخت سے دُور ہوتے جا رہے تھے، قاصدوں کو بھی زیادہ تر لمبا سفر کرنا پڑ رہا تھا۔ پچاس دن بعد، قاصدوں کے ورود میں نمایاں وقفہ رہنے لگا۔ جبکہ شروع میں ہر پانچویں دن ایک قاصد ہمارے قافلے میں آ پہنچتا تھا، اب پچیس دن کا فرق رہنے لگا تھا۔ اس وجہ سے اپنے شہر کی خبریں نایاب ہوتی جا رہی تھی۔ ہفتے بیت جاتے تھے بغیر اطلاعات کے۔
سفر کرتے کرتے چھ مہینے ہو گئے۔ اب تک ہم فسانی پہاڑی سلسلہ پار کر چکے تھے۔ قاصدوں کی آمد کے درمیان پورے چار مہینے کا فرق رہنے لگا۔ اب وہ مجھے بہت پرانی خبریں لاکر دے رہے تھے۔ جو خط وہ میرے ہاتھ پر لا کر رکھتے، مڑے تڑے ہوتے، ان کا کاغذ پیلا پڑ چکا ہوتا، کیونکہ قاصدوں کو اوس بھری راتوں میں کھلے آسمان تلے سونا پڑتا تھا۔
ہم اب بھی سفر کیے جا رہے تھے۔ میں بیکار ہی خود کو باور کرواتا کہ میرے سر پر سے جو بادل گزر رہے ہیں، وہ میرے بچپن کے دنوں کے بادل ہیں، دُور کے قصبے پر ٹھہرا ہوا آسمان میرے سر پر چھائے نیلے آسمان سے مختلف نہیں ہے، ماحول وہی ہے، ہوا کا جھونکا وہی ہے، پرندوں کے چہچہے وہی ہیں۔۔ مگر حقیقت میں بادل، آسمان، ماحول، ہوا، پرندے اب مجھے نئے لگ رہے تھے اور میں خود کو اجنبی محسوس کر رہا تھا۔
چلتے جائیں، بڑھتے رہیں! راہ میں ملنے والے خانہ بدوش مجھ سے کہتے ہیں کہ سرحد دُور نہیں ہے۔ میں اپنے کارواں کو بنا رُکے رواں دواں رہنے کی ترغیب دیتا ہوں، تاکہ مایوسی کے بول ان کے لبوں پر آنے سے قبل ہی مر جائیں۔
چار سال گزر چکے تھے۔ اوہ!حد سے زیادہ تھکان! عجیب بات تھی پائے تخت، میرا گھر، میرے والد، سب مجھے بہت بعید محسوس ہوتے تھے، گویا مجھے یقین ہی نہیں ہوتا تھا کہ ان کا اب بھی وجود ہے۔ ہر ایک قاصد کی متواتر حاضری کے درمیان بیس مہینوں کی تنہائی اور چُپ کا وقفہ رہنے لگا تھا۔ وہ مجھے عجیب سے خط لا کر دیتے، پرانے اور پیلے پڑ چکے خط۔۔ جن میں بھولے بسرے نام، اجنبی محاورے اور سمجھ میں نہ آنے والے خیال ہوتے تھے۔۔ اور اگلے دن صرف رات بھر کے قیام کے بعد، صبح جب ہم کوچ کرتے، قاصد میرا خط لے کر مخالف سمت میں روانہ ہو جاتا تھا، کئی دن پہلے لکھا ہوا خط۔
ساڑھے آٹھ سال بیت چکے ہیں۔ میں آج شام اپنے خیمے میں اکیلا بیٹھا کھانا کھا رہا تھا کہ ڈومنیکو داخل ہوا۔تھکن سے چُور ہونے کے باوجود بھی وہ مسکرایا۔ پچھلے سات سال سے وہ بس ایک ہی کام کرتا آ رہا ہے، میدانوں، جنگلوں اور ریگستانوں میں گھوڑا دوڑانا، نجانے درمیان میں کتنی بار سواری بدلنا اور خطوط کا پلندہ لا کر میرے ہاتھ میں رکھنا، جسے اب اتنی رات گئے کھولنے کی میری کوئی خواہش نہیں ہے۔ وہ آ کر بستر پر لیٹ گیا ہے کیونکہ کل صبح پو پھٹتے ہی اسے روانہ ہونا ہے۔
یہ اس کی آخری روانگی ہوگی۔ میں نے اپنی بیاض میں حساب لگا کر دیکھ لیا ہے کہ اگر سب کچھ صحیح سلامت رہے، اگر اسی طرح ہی میں اپنا سفر جاری رکھوں اور وہ اپنا سفر، تو میں ڈومنیکو کو آئندہ چونتیس سال سے پیشتر نہیں دیکھ سکوں گا۔ تب میں بَہتر سال کا ہوں گا۔۔ مگر میں خود کو بہت تھکا ماندہ محسوس کرنے لگا ہوں اور تب تک غالباً موت مجھے اپنی گرفت میں لے چکی ہوگی۔ تو میں اسے پھر کبھی نہ دیکھ سکوں گا۔
چونتیس سال بعد (در اصل اس سے بھی پہلے، کافی پہلے) ڈومنیکو اچانک میرے پڑاؤ کا دھواں دیکھے گا اور حیران ہوگا کہ شہزادے نے اس عرصے میں اتنا قلیل سفر طے کیا ہے۔ تب آج ہی کی طرح وفا شعار نامہ بر پیلے پڑ چکے گزرے زمانے کی بے معنی خبروں سے بھرے سالخوردہ خط لیے میرے خیمے میں داخل ہوگا۔۔ مگر یہ دیکھ کر کہ میں اپنے پلنگ پر بے حس و حرکت مرا ہوا پڑا ہوں اور میرے دائیں بائیں دو سپاہی مشعلیں تھامے کھڑے ہیں، وہ دروازے پر ہی ٹھٹھک کر رُک جائے گا۔
لیکن پھر بھی ڈومنیکو، تم روانہ ہو جاؤ، اور مجھے سنگدلی کا الزام مت دینا۔ اس شہر کے لیے میرا آخری سلام لے جاؤ، جہاں میں پیدا ہوا تھا۔ میرے اور اس دنیا کے درمیان تم ہی رابطے کی واحد کڑی ہو، وہ دنیا جو کبھی میری تھی۔۔ تازہ ترین خط بتاتے ہیں کہ وہاں بہت کچھ بدل گیا ہے؛ میرے والد صاحب وفات پا چکے ہیں، حکومت میرے سب سے بڑے بھائی کے ہاتھ آ گئی ہے، مجھے ہمیشہ کے لیے گمشدہ سمجھ لیا گیا ہے، اور جہاں پہلے شاہ بلوط کے درخت تھے، جن کے نیچے میں کھیلا کرتا تھا، وہاں اب پتھر کے سر بہ فلک قصر تعمیر کئے جا رہے ہیں۔۔ مگر پھر بھی وہ میرا قدیم آبائی مسکن ہے۔
ڈومنیکو! اس کے ساتھ رابطے کی تم میری آخری کڑی ہو۔
پانچواں قاصد عطورہ، جو اگر خدا نے چاہا تو ایک سال اور آٹھ مہینوں بعد واپس آئے گا، دوبارہ روانہ نہیں ہو سکے گا۔ اِس کے یہاں آ کر لوٹنے کے لیے وقت نہیں بچے گا۔ سو تمہارے بعد ڈومنیکو، بس سناٹا ہے! اگر میں نے سرحدیں کھوج نکالیں تو اور بات ہے۔۔مگر میں جتنی طویل مسافت کرتا ہوں، اتنا ہی مجھے یقین ہوتا جا رہا ہے کہ سرحد ہے ہی نہیں۔
مجھے شک ہے کہ کسی سرحد کا وجود نہیں ہے، کم از کم اس معنی میں تو نہیں جیسا کہ ہم سمجھتے ہیں۔ میری راہ روکنے والی کوئی دیوار نہیں ہے، نہ کوئی کھائی ہے، نہ کوئی پہاڑ۔۔ شاید میں حد پار کر جاؤں اور مجھے پتہ بھی نہ چلے اور بے خبر یونہی آگے بڑھتا چلا جاؤں گا۔
اسی سبب میرا ارادہ ہے کہ مستقبل میں جب عطورہ اور دوسرے قاصد لَوٹیں گے تو وہ پائے تخت کو واپس روانہ نہیں ہوں گے، بلکہ اُلٹی سمت چل پڑیں گے اور مجھ سے آگے نکل جائیں گے تاکہ مجھے پیشگی معلوم ہو سکے کہ آگے کیا ہے۔
ادھر کچھ عرصے سے مجھے سرِ شام ایک نئی پریشانی گھیر لیتی ہے۔ یہ ان شادمانیوں کی حسرت نہیں ہے، جنہیں میں پیچھے تج آیا ہوں، جیسی کہ سفر کے شروعاتی دنوں میں ہوا کرتی تھی، بلکہ یہ اُن اجنبی سرزمینوں کو دریافت کرنے کی بیتابی ہے، جن کی طرف میں پیش قدمی کر رہا ہوں۔
میں دیکھ رہا ہوں، اور اب تک میں نے یہ بات کسی سے نہیں کہی کہ بہ تدریج اس سفر کے نا ممکن اختتام کی طرف بڑھتے ہوئے ہر گزرتے دن کے ساتھ، ایک منفرد روشنی آسمان میں چمکنے لگی ہے۔ ایسی روشنی، جسے میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا، خوابوں میں بھی نہیں۔۔ جن جنگلوں، پہاڑوں اور دریاؤں کو ہم پار کرتے ہیں، ان کی پرچھائیاں مجھے نیا وجود اختیار کرتی دکھائی دیتی ہیں، اور ہوا نہ جانے کن اندیشوں سے بوجھل ہو اٹھی ہے۔
کل صبح نئی امید مجھے ان پہاڑوں کی سمت مزید آگے لے جائے گی، پہاڑ جو انجانے ہیں اور ابھی رات کی پرچھائیوں میں چھپے ہوئے ہیں۔ ایک بار پھر میں اپنا خیمہ باندھ لوں گا، جبکہ دُور دراز کے ایک شہر کے لیے میرا بے مطلب پیغام لے کر ڈومنیکو اُفق کے اُس پار غائب ہو جائے گا۔