بحرالکاہل کا معجزاتی انسان، جو 14 ماہ تک سمندر میں بھٹکتا رہا!

ویب ڈیسک

بحرالکاہل کے وسط میں، مارشل آئی لینڈز کی ایک چھوٹی سی لگون میں پولیس کی کشتی آہستہ آہستہ ساحل کی جانب بڑھ رہی تھی۔ کشتی کے عرشے پر ایک آدمی لیٹا ہوا تھا، خاک آلود، کمزور، اور پراسرار۔۔ پولیس اہلکار اُسے حیرت سے تک رہے تھے، جیسے کسی ماہی گیر کے جال میں صدیوں پرانی کوئی مخلوق پھنس گئی ہو۔

اس کے بال جھاڑیوں کی طرح الجھے ہوئے تھے، داڑھی بکھری ہوئی، اور آنکھیں جیسے اندر کو دھنس چکی ہوں۔ اس کے پیروں کی سوجن اس کی طرف سے جھیلی گئی طویل صعوبتوں کا پتہ دے رہی تھی۔ وہ نظریں چُراتا اور اکثر چہرہ چھپانے کی کوشش کرتا۔

یہ تھا خالص خون اور نمکین پانی سے تراشیدہ مرد، سمندر کی بے کراں وسعتوں میں تنہا چودہ مہینے گزارنے والا خستہ حال انسان: خوسے سلواڈور الوارینگا۔

الوارینگا، ال سلواڈور کا رہائشی، پیشے سے ماہی گیر تھا۔ نومبر 2012 میں وہ میکسیکو کے ساحل سے ایک کشتی پر ایک عام سی مچھلی پکڑنے کی مہم پر نکلا۔ اُس کے ساتھ ایک 22 سالہ نوجوان، ازیکیئل کورڈوبا بھی تھا، جس سے اس کی نہ کوئی پرانی شناسائی تھی، نہ کبھی ایک ساتھ کام کیا تھا۔ صرف ایک روز بعد، ایک خوفناک طوفان نے ان کی دنیا تہ و بالا کر دی۔ ان کی کشتی کا انجن اور نیویگیشن سسٹم تباہ کر دیا۔ دو دن بعد الوراِنگا نے آخری مرتبہ ایس او ایس سگنل بھیجا، پھر خاموشی چھا گئی۔ اگلے 438 دنوں تک اُس کا کوئی سراغ نہ ملا۔

جب وہ مارشل آئی لینڈز میں ایبون ایٹول کے ساحل پر نمودار ہوا، تو وہ اس جگہ سے 6,700 میل دور تھا، جہاں سے اس نے سفر کا آغاز کیا تھا۔ سمندر پر تن تنہا بہتا رہا، چاندنی راتوں کی اداسی میں ڈوبا، خوف، تنہائی اور خودکشی کے خیالوں سے لڑا، مگر زندہ رہا۔

الوارینگا کے حواس ابھی تک اُس دنیا میں بھٹک رہے تھے جہاں صرف لُو، لہریں اور لکڑی کی ایک کشتی تھی، مگر اب وہ بین الاقوامی خبروں کا مرکز بن چکا تھا۔ اس کی داڑھی، اُس کا لباس، اُس کی ہنسی، ہر چیز کیمرے کی زد میں تھی۔

کچھ ہی دن بعد، جب پولیس کی کشتی سے اترتے ہوئے اُس نے کیمروں کی طرف ہاتھ ہلایا، تو لوگوں نے فوراً اُسے Cast Away کے ٹام ہینکس سے تشبیہ دی۔ اُس کی تصویر وائرل ہوئی۔ ایک وقت کے لیے، دنیا نے ایک سوال پر غور کیا: کیا کوئی شخص واقعی چودہ مہینے سمندر میں زندہ رہ سکتا ہے؟

لیکن یہ کہانی نہ صرف سنسنی خیز ہے بلکہ سچ بھی ہے، یہ انسانی حوصلے، بقا کی جبلت اور تنہائی کے عذاب کی ایک ہولناک مگر غیر معمولی داستان ہے، دو انسان، لا متناہی سمندر کے بیچ، مچھیروں کی ایک عام سی کشتی میں، پانی کے ایک قطرے اور خوراک کے ایک نوالے کے لیے بےتاب۔۔

یہ کہانی صرف بقا کی نہیں، بلکہ انسان کے روحانی کرب، پچھتاوے اور اس جذبے کی ہے جو آخری سانس تک جینے کی تمنا کو زندہ رکھتا ہے۔

اس خطے میں برطانوی اخبار گارڈین کے رپورٹر جو ٹکمین اپنے آرٹیکل میں لکھتے ہیں، ”پہلے تو میں اس کہانی کے بارے میں شک میں تھا، مگر پھر میں نے چھان بین شروع کی۔ درجنوں لوگ گواہ تھے: جنہوں نے اُسے سمندر کی جانب جاتے دیکھا تھا، اُس کا SOS سنا تھا، اور پھر وہی کشتی، جس میں وہ غائب ہوا تھا، ہزاروں میل دور واپس ملی۔“

الوارینگا نے ابتدا میں میڈیا سے بات کرنے سے انکار کر دیا۔ ہسپتال کے دروازے پر ایک نوٹ تک چسپاں کر دیا: ”مجھے معاف کریں، مجھے سکون سے رہنے دیں۔“

مگر پھر، مہینوں بعد، جو ٹکمین اُس کے ساتھ بیٹھا، اس کے وطن، ال سلواڈور میں۔ درجنوں نشستوں میں اُس نے تفصیل سے بتایا: کس طرح وہ پانی، بھوک، اندھیروں اور خامشی کے درمیان جیتا رہا۔

**

18 نومبر 2012۔۔ سمندر کے بیچوں بیچ، طوفان کے عین درمیان، ایک کشتی جھول رہی تھی۔ نیچے پانی، اوپر پانی، اور درمیان میں دو انسان، ایک تجربہ کار ماہی گیر اور ایک خوفزدہ نوجوان۔۔

الوارینگا جانتا تھا کہ گھبراہٹ موت ہے۔ وہ لہروں کو کاٹنے کی حکمت عملی سے واقف تھا، اس کی نگاہیں مستقل پانی کی چال پر تھیں۔ دوسری طرف کورڈوبا خوفزدہ تھا۔ وہ تھر تھر کانپتا، قے کرتا اور چیخنے لگتا: ”ہم مر جائیں گے!“

چھوٹی سی کشتی، بغیر شیشے یا روشنیوں کے، لہروں کے بیچ جیسے ایک تنکا ہو۔ کشتی میں تازی مچھلیاں، مہنگا سامان، موبائل فون، جی پی ایس GPS، اور محض 16 گیلن پانی۔۔۔ مگر ان سب کے باوجود، سب سے قیمتی شے وہی چیز تھی، جو سب سے نازک بھی تھی: حوصلہ!

الوارینگا نے کشتی پر جانے سے قبل تیاری اپنے پرانے ساتھی رے پیریز کے ساتھ کی تھی، مگر وہ آخری وقت پر دستیاب نہ ہوا۔ اب اُس کے ساتھ ایک اجنبی نوجوان تھا، صرف پچاس ڈالر کی مزدوری کے لیے جانے والا کورڈوبا، جو اب موت کی دہلیز پر کھڑا چیخ رہا تھا۔

صبح نو بجے، جب دھند چھٹنے لگی اور افق پر پہاڑوں کی ایک دھندلی سی جھلک نظر آئی، الوارینگا کو پہلی بار لگا کہ شاید وہ بچ سکتے ہیں۔

مگر یہ تو صرف آغاز تھا، ایک ایسے سفر کا جو انسانی تاریخ میں اپنی مثال آپ بننے والا تھا۔ جس میں اصل کہانی اُس کے بنائے ہوئے ناقابلِ یقین، خود ساختہ سروائیول طریقوں کی ہے، جنہوں نے اُسے موت کے منہ سے واپس کھینچ لیا۔‏ جب ہفتے مہینوں میں بدلنے لگے، تو الوارینگا نے ایسے ناقابلِ یقین ہنر سیکھ لیے جن کا عام انسان تصور بھی نہیں کر سکتا۔

سنندر میں جب زمین سے تقریباً دو گھنٹے کے فاصلے پر کشتی کی موٹر اچانک کھٹکھٹانے اور بکھرنے لگی تو حالات نے نیا موڑ لینا شروع کر دیا۔ الوارینگا نے فوری ریڈیو اٹھایا اور بے چینی سے اپنے باس کو پکارا: ”وِلی! ولی! ولی! موٹر تباہ ہو گئی ہے!“ دور سے ساحل کے ڈاکوں پر موجود وِلی نے پرسکون انداز میں ہدایات دیں: ”پرسکون ہو جاؤ، اپنا مقام بتاؤ۔“

جی پی ایس کا ذکر کرتے ہوئے الوارینگا نے حال خراب کا اشارہ دیا، اور تب معلوم ہوا کہ کشتی میں نہ تو اینکر موجود تھا اور نہ ہی دوسرے وسائل، جس کی تیاری اُس نے روانگی سے پہلے تو نوٹ کی تھی مگر سمندر کی گہرائی میں اسے غیر ضروری سمجھا تھا۔ اس لمحے، اُس کی بے بسی اور شدید دھچکے کے جذبات عیاں ہو گئے، ایک جذباتی چیخ جو کہ ساحل کی طرف آخری اشارہ تھی: ”آؤ۔۔ اب میں واقعی مشکل میں پھنس گیا ہوں!“

اس کے بعد طوفانی لہروں نے دونوں کا امتحان لینا شروع کر دیا۔ الوارینگا اور اس کے نوجوان ساتھی کورڈوبا نے مل کر کشتی کو متوازن رکھنے کی جنگ لڑنی شروع کی۔ صبح کی کرنوں میں جب وہ بلند لہروں کو قریب آتے دیکھتے، ہر ایک کے جسم پر موجوں کا اثر اتنا شدید ہو جاتا کہ وہ کشتی کے کنارے پر ہاتھ پکڑ کر جھولنے لگتے۔ کچھ لمحوں میں وہ ایسا محسوس کرتے جیسے ایک عمارت کی چھٹی منزل پر کھڑے ہوں، اور پھر اچانک نیچے گر پڑتے، کچھ اس طرح کہ ان کے پیر کشتی پر جمنے سے قاصر تھے۔

اندازہ ہوا کہ تازہ مچھلیوں کا وزن، جو تقریباً 500 کلوگرام تھا، کشتی کو اوپر کی طرف جھکانے لگا تھا۔ الوارینگا نے فوراً فیصلہ کیا کہ سبھی مچھلیاں کشتی سے نکال دیں تاکہ عدم استحکام کو کم کیا جا سکے۔ ایک ایک کر کے مچھلیوں کو کولر سے نکال کر سمندر میں پھینک دیا گیا، کیونکہ یہ خراب ہونے کے ساتھ ساتھ خطرناک شارکوں کو بھی اپنی طرف مائل کر سکتی تھیں۔ مزید برآں، برف اور اضافی پیٹرول کو بھی ترک کر دیا گیا، اور الوارینگا نے تقریباً پچاس بویوں کو رسیوں سے باندھ کر ایک عارضی ’سی اینکر‘ تیار کیا، جو کہ کشتی کے ساتھ پانی میں کھنچاؤ پیدا کرتا رہا۔

تقریباً 10 بجے، ریڈیو کا سگنل مدھم پڑ گیا اور پھر غائب ہو گیا۔ یہ پہلا دن تھا ایک ایسے طوفان کا، جسے الوارینگا نے پانچ دن تک جاری رہنے والا محسوس کیا۔ جی پی ایس کی ناکامی ایک معمولی پریشانی بنتی نظر آ رہی تھی جبکہ خراب موٹر پورے مشن کے لیے سنگین خطرہ بن گئی تھی۔ بغیر کسی بیرونی رابطے کے، اب دونوں صرف اپنے عزم اور ہمت پر منحصر تھے۔

پورا دن طوفان نے دونوں کا امتحان لیا۔ چاروں طرف آنکھوں کے سامنے پانی میں کشتی رانی کا یہ سفر ان کی ہمت، طاقت اور ارادے کا امتحان بن گیا تھا۔ بار بار پانی نکالنے کی کوشش نے ان کے جسمانی طاقت کے تمام ذخائر استعمال کر دیے تھے۔ ان کی تھکن اور زبردست سردی نے انہیں پریشان کر دیا تھا، مگر الوارینگا کا غصہ تب منظر پر آیا جب اُس نے ایک بھاری لاٹھی اٹھائی اور ٹوٹی ہوئی موٹر پر زور سے وار کرنے لگا۔ اس بے قراری اور ناکامی کے احساس میں اُس نے ریڈیو اور GPS یونٹ کو غصے میں پانی میں پھینک دیا، جیسے وہ اپنے تقدیر کے خلاف احتجاج کر رہا ہو۔

جیسے ہی سورج غروب ہوا اور طوفان کی لپٹ مزید مضبوط ہوتی گئی، دونوں نے کشتی کے فریج کے سائز کے آئس باکس کو الٹ کر اپنے لیے پناہ گاہ بنالی۔ مکمل بھیگے ہوئے، سردی سے لرزتے ہوئے وہ ایک دوسرے کے گلے لگ کر اپنے آپ کو گرم رکھنے کی کوشش کرتے رہے، لیکن جب پانی کا بوجھ کشتی کو مزید نیچے دھکیلتا گیا، تو انہیں باری باری آئس باکس سے باہر نکل کر پانی نکالنے کے لیے مختصر وقفوں میں کام کرنا پڑا۔

وقت گزرتا گیا اور آسمان کی تاریکی نے ان کی دنیا کو چھوٹا کر دیا۔ ہوا کے تیز جھونکوں نے انہیں دوبارہ سمندر کے وسط میں کھینچ لیا، اب کوئی نشانی نہیں تھی کہ وہ پہلے کتنے قریب تھے یا پھر وہ شمال کی طرف اکاپولکو کی سمت جا رہے تھے یا جنوب میں پناما کی طرف۔۔ صرف تارے ہی رہ گئے تھے، جو ان کے لیے رستے کے اشارے بن سکتے تھے۔

اب جب کہ ان کے پاس مچھلی پکڑنے کے لیے نہ تو جال تھا اور نہ ہی ہک، الوارینگا نے ایک نیا طریقہ ایجاد کر لیا۔ وہ کشتی کے کنارے کے ساتھ گھٹنے ٹیک کر بیٹھ گیا، پانی میں اپنے ہاتھ ڈبوئے ہوئے۔۔ اور جب کوئی مچھلی اُس کے ہاتھوں کے درمیان سے گزرتی، وہ فوری طور پر اُنہیں بند کر دیتا۔ اُس کے ناخن مچھلی کی کھردری کھال میں گہرائی سے چھپ جاتے۔ کئی مچھلیاں بچ نکلیں، مگر تھوڑی دیر میں وہ اس ہنر میں مہارت حاصل کر گیا اور مچھلیاں پکڑ کر کشتی میں پھینکنا شروع کر دیں۔ کورڈوبا نے تیزی سے مچھلی کا گوشت صاف کر کے اسے انگلیوں کے سائز کے ٹکڑوں میں کاٹ دیا، جو سورج کی گرمی میں خشک ہونے لگتے۔ اس طرح اُن کے پاس روزانہ غذا کا بندوبست رہتا، ان کے لیے پکے ہوئے یا کچے اور خشک گوشت کے ذائقے میں کوئی فرق باقی نہیں رہا تھا۔

یہ دو گھنٹے کے فاصلے پر زمین سے دور، ایک طوفانی، ہنگامہ خیز اور انتہائی خطرناک لمحے تھے، جہاں نہ صرف فطرت کا مقابلہ تھا بلکہ انسانیت کی حوصلہ مندی اور صلاحیت کا بھی امتحان ہو رہا تھا۔ الوارینگا اور کورڈوبا کے لیے یہ لمحے ایک نئی داستان کا آغاز تھے، ایک ایسی داستان جس نے ان کے ساتھ ساتھ دنیا کی نظریں بھی اپنی طرف متوجہ کر لیں۔

چند ہی دنوں میں، جب پیاس ناقابلِ برداشت ہوئی، الوارینگا نے پیشاب پینا شروع کیا اور اپنے ساتھی کارڈوبا کو بھی اس عمل پر آمادہ کیا۔ یہ نمکین تھا، لیکن جتنا گمان تھا، اتنا کراہت انگیز نہیں۔ وہ پیشاب پیتے، پیشاب کرتے، اور دوبارہ وہی عمل دہراتے۔۔ ایک ایسا چکر جو بظاہر جسم کو نمی دے رہا تھا، مگر اصل میں جسم کو اور زیادہ خشک کر رہا تھا۔ الوارینگا کو سمندری پانی پینے کے نقصان کا پہلے سے اندازہ تھا، اس لیے وہ ہر حال میں اس زہر سے دور رہے۔

پیاس کے مارے جب گلا جلنے لگا، تو الوارینگا نے پانی میں تیرتی جیلی فِش کو ہاتھوں سے پکڑ کر نگلنا شروع کر دیا، ”اس نے میرے گلے کے اوپر والے حصے کو جلا دیا، لیکن یہ برداشت کے قابل تھا،“ اُس نے بعد میں بتایا۔ بھوک کا عالم یہاں تک پہنچ چکا تھا کہ وہ اپنی انگلیوں کے ناخن کھا جاتا، ان کے چھوٹے ٹکڑے نگل لیتا۔

تقریباً چودہ دن گزر چکے تھے جب الوارینگا برف رکھنے والے ڈبے میں نیم بے ہوش لیٹا تھا۔ دفعتاً اسے تیز آوازیں سنائی دیں۔۔ چھت پر پڑنے والی بارش کی آواز۔۔ وہ چلایا: ”پِناتا! پِناتا!“ اور جلدی سے باہر نکلا۔ اُس کا ساتھی کارڈوبا بھی جاگ گیا اور دونوں نے ایک ہفتے سے ذہن میں بنائی ہوئی بارش کے پانی کو جمع کرنے والی ترکیب فوری نافذ کی۔ پانچ گیلن کا پرانا، خاکستری ڈبا دھویا اور اس کا رخ آسمان کی طرف کر دیا۔

بالآخر آسمان مہربان ہوا۔ پانی، جو موت کی دھمکی بن چکا تھا، اب زندگی کی نوید بن کر برس رہا تھا۔ دونوں نے اپنے کپڑے اتار دیے، منہ کھول کر بارش کا پانی پیا، اور برسوں بعد جیسے غسل کیا ہو۔ ایک گھنٹے کے اندر اندر ان کے ڈبے میں دو انچ پانی جمع ہو چکا تھا۔ وہ ہر چند منٹ بعد پانی پیتے، ہنستے، خوشی سے دیوانے ہو جاتے۔۔ لیکن جلد ہی انہوں نے طے کیا کہ اب سے پانی کی سخت راشن بندی ہوگی۔

وقت کے ساتھ ساتھ دونوں میں ایک خاص قسم کی مہارت پیدا ہو چکی تھی، سمندر پر تیرتی پلاسٹک کی مختلف اقسام پہچاننے اور ان سے فائدہ اٹھانے کی۔ ہر خالی بوتل، ہر ردی کا ٹکڑا ان کے لیے خزانہ تھا۔ ایک دن ایک سبز ردی کا بھرا ہوا تھیلا تیرتا ہوا پاس آیا، اسے کھول کر دیکھا تو اندر چبایا ہوا چیونگم تھا۔ دونوں نے اس ’نعمت‘ کو تقسیم کیا، اور برسوں بعد چبانے کی لذت محسوس کی۔۔ تیل میں بھیگی سبزیوں میں آدھا بند گوبھی، کچھ گاجر اور ایک بوتل دودھ (نصف سڑا ہوا ہی سہی) مل گیا، یہ ان کے لیے ’تازہ خوراک‘ کا پہلا تجربہ تھا۔ بھیگی ہوئی گاجروں کو انہوں نے ایک مقدس شے کی طرح سنبھال کر رکھا۔

جب خوراک کچھ دن کے لیے جمع ہو گئی، خاص طور پر جب انہوں نے ایک کچھوا پکڑ کر کھایا، تو پہلی بار وہ سمندر کے نظاروں سے لطف لینے کے قابل ہوئے۔ ”ہم اپنی ماؤں کی باتیں کرتے تھے،“ الوارینگا نے بتایا، ”اور اس بات پر شرمندہ ہوتے تھے کہ ہم نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ خدا سے معافی مانگتے تھے کہ ہم کتنے بُرے بیٹے تھے۔ وعدے کرتے تھے کہ اگر بچ گئے تو ان کے لیے سب کچھ کریں گے۔۔۔ لیکن اب بہت دیر ہو چکی تھی۔“

دو ماہ گزر گئے۔ الوارینگا سمندری پرندے اور کچھوے شکار کرنے کا ماہر بن چکا تھا، لیکن کارڈوبا جسمانی اور ذہنی طور پر کمزور ہوتا جا رہا تھا۔ دونوں ایک ہی کشتی میں تھے، مگر منزلیں الگ ہو چکی تھیں۔ ایک دن کارڈوبا نے اعلان کیا کہ وہ اب پرندوں کا گوشت نہیں کھائے گا۔ وہ دھیرے دھیرے پانی کی بوتل کو بھی اٹھانے سے قاصر ہو رہا تھا۔ الوارینگا کبھی کچھوا، کبھی پرندے کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا اس کے سامنے رکھتا، مگر وہ اپنا منہ بند رکھتا۔ ڈپریشن اور کمزوری اس کے جسم کو آہستہ آہستہ موت کی جانب دھکیل رہے تھے۔

سب سے بڑی جنگ اُن کے جسموں نے نہیں، اُس کے خیالوں نے لڑی، کیونکہ سمندر کی تنہائی اُس دشمن کی مانند تھی جو آہستہ آہستہ انسان کو مٹا دیتا ہے، بغیر کسی شور کے۔۔ ‏تنہائی خاموش، مگر سفّاک۔ ایسی کیفیت جس میں سانسیں تو چلتی رہتی ہیں، مگر وقت رُک جاتا ہے۔

الواریگا کا ساتھی، تنہائی کے ہاتھوں شکست کھا گیا اور زندگی کی جنگ ہار گیا۔ اب وہ مکمل اکیلا رہ گیا۔ بس ایک بدن، ایک کشتی، اور چاروں طرف نیلا نہ ختم ہونے والا عذاب۔

مگر وہ ہارا نہیں، اُس نے اپنی یادوں سے ایک دنیا بُن لی تھی۔ وہ خیالی بیٹی سے باتیں کرتا، ماں کے لیے کچھ پکانے کا تصور کرتا، اور خود کو روزمرّہ زندگی کی ایک فلم میں ڈال دیتا، جہاں وہ اکیلا نہ تھا۔

یہ پاگل پن نہیں تھا —
یہی ہوش تھا، یہی عقل،
یہی وہ پناہ گاہ تھی جہاں اُس نے خود کو مرنے سے بچا لیا۔ ‏

کبھی وہ خود کو کسی دعوت میں پاتا، کبھی کسی خیالی دوست کے ساتھ قہقہہ لگاتا، کبھی محبت کی کوئی جھلک محسوس کرتا۔۔ تخیل اُس کا پانی تھا، یادیں اُس کی خوراک، امید اُس کا آکسیجن۔

‏مگر ہر دن ان لمحوں سے بھرا ہوتا، جب امید بھی ٹوٹنے لگتی۔ ہر کشتی دور سے گزر جاتی اور کوئی آنکھ اُسے نہ دیکھتی۔

زندگی کا مفہوم مدھم پڑنے لگا۔ خودکشی کا خیال، اکثر ذہن پر دستک دیتا۔۔ مگر ہر بار، ایک چھوٹا سا جملہ اُسے بچا لیتا: ”میں کبھی اپنی جان نہیں لوں گا۔“

یہ ماں سے کیا گیا وعدہ،
بس یہی ایک لنگر تھا جو اُسے ڈوبنے نہ دیتا۔

438 دن۔۔ دنیا کے اپنی نوعیت کے سب سے طویل اور تنہا سفر کا دورانیہ۔۔ اور پھر۔۔ وہ لمحہ، جب اُسے ایک ننھا سا جزیرہ دکھائی دیا۔

زمین! زندگی! نجات! ‏مارشل آئی لینڈز، جہاں الواریگا کی کہانی کا اختتام نہیں ہوا، بلکہ نئی شروعات ہوئی۔

جسم کمزور تھا، جلد جھلس چکی تھی، مگر ذہن اب بھی چمک رہا تھا۔ یہ صرف سروائیول نہیں تھا، یہ انسانی روح کی فتح تھی۔

گِف جانسن کی تحریر میں 31 جنوری کو ایجنسی فرانس پریس (AFP) کے تحت شائع ہونے والی اس کہانی نے عالمِ انسانیت کو ہلا کر رکھ دیا۔ ہالینڈ، لاس اینجلس اور آسٹریلیا کے صحافیوں نے اس سرفراز مچھیرے سے ملاقات کے لیے ایبون جزیرے کا رخ کیا۔ ایبون کی واحد فون لائن میڈیا کی جنگ کا میدان بن گئی، جہاں رپورٹرز تفصیلات کے پیچھے دوڑ رہے تھے۔

بعض لوگوں کے لیے یہ ناقابلِ یقین تھی، لیکن الواریگا کی کہانی میں ایسی حقیقتیں تھیں جو اسے ممکن بناتی تھیں: لاپتہ ہونے کی رپورٹ، بچاؤ کی کوششیں، سمندری دھاروں سے اس کے سفر کی ہم آہنگی، اور اس کی کمزور حالت۔۔ لیکن دنیا بھر میں ایک سوال اٹھنے لگا: کیا یہ ایرنسٹ شیکلٹن کی بقا کی سب سے بڑی مثال ہے، یا پھر یہ سب سے بڑا جھوٹ ہے؟

سرکاری حکام نے الواریگا کے سپروائزر کو ڈھونڈ نکالا، جس نے تصدیق کی کہ اس کی کشتی کا نمبر وہی تھا جو 17 نومبر 2012 کو بندرگاہ سے روانہ ہوئی تھی اور غائب ہو گئی تھی۔ گارڈین کے رپورٹر جو ٹکمین نے میکسیکو کے سرچ اینڈ ریسکیو افسر جیمے ماروکوئن سے انٹرویو کیا، جس نے ایلورینگا اور کورڈوبا کی تلاش کے بارے میں تفصیل سے بتایا۔

تحقیقات کا آغاز ہوا۔ میکسیکو کے ساحلی علاقوں کے لوگوں سے بات کی گئی، میڈیکل ریکارڈز کا مطالعہ کی گیاا، نقشوں کا جائزہ لیا گیا اور امریکی کوسٹ گارڈ سے لے کر نیوی سیلز تک مختلف ماہرین سے بات کی گئی۔ ماہرین نے الواریگا کی سمندر میں زندگی کے بارے میں بیان کی تصدیق کی، جو ان کے مطابق بالکل حقیقت کے مطابق تھا۔

جب الواریگا مارشل آئی لینڈز پہنچا، تو اس کی جسمانی حالت مزید خراب ہو چکی تھی۔ اس کے پاؤں اور ٹانگیں سوجھ چکی تھیں اور ڈاکٹروں کا خیال تھا کہ پانی کی کمی کی وجہ سے اس کے جسم کے ٹشوز میں پانی جذب ہو گیا تھا۔ 11 دن بعد، ڈاکٹروں نے اس کی صحت میں استحکام محسوس کیا اور وہ اپنے وطن، ایل سلواڈور واپس جانے کے قابل ہوا۔

الواریگا کو انیمیا کی تشخیص ہوئی اور ڈاکٹروں کا خیال تھا کہ خام کچھوا اور پرندوں کے گوشت کی وجہ سے اس کے جگر میں انفیکشن ہوا تھا۔ اس کی نیند مسلسل متاثر ہوتی تھی اور وہ کورڈوبا کی موت کو یاد کرتا رہتا تھا۔

زندگی کی سرزمین پر واپسی اس کے لیے آسان نہ تھی۔ کئی ماہ تک وہ صدمے کی حالت میں رہا۔ اس نے نہ صرف سمندر بلکہ پانی کے منظر سے بھی گہرا خوف محسوس کیا۔ وہ روشنی کے ساتھ سوتا تھا اور ہمیشہ کسی نہ کسی کی موجودگی کی ضرورت محسوس کرتا تھا۔ صحافیوں کی درخواستوں کے جواب میں اس نے وکیل مقرر کیا اور ایک سال بعد اس کی ذہنی حالت میں بہتری آئی۔

جب اس نے اپنے سفر کے نقشوں پر نظر ڈالی، تب اسے اپنے سفر کی حقیقت کا ادراک ہوا۔ الواریگا نے 438 دن تک زندگی اور موت کی سرحدوں پر بھٹکتا رہا تھا، اور یہ سب کچھ اس کی طاقت و حوصلہ کی داستان بن گیا۔ ”مجھے زیادہ کچھ یاد نہیں، بس ایک ہی خیال تھا۔۔ سمندر، بس سمندر۔۔ میں نے بھوک، پیاس اور تنہائی کا سامنا کیا، اور پھر بھی اپنی زندگی کا خاتمہ نہیں کیا،“ ایلورینگا نے کہا, ”زندگی ایک ہی موقع دیتی ہے، اس لیے اس کا قدر کرو۔“

الواریگا کی یہ کہانی ہمیں سکھاتی ہے کہ اصل طاقت پٹھوں میں نہیں، بلکہ ذہن میں چھپی ہوتی ہے۔ جب تک سوچ زندہ ہے، جب تک وعدہ سچا ہے، جب تک تخیل کی ایک کرن بھی باقی ہے،
انسان سمندر پار کر سکتا ہے۔

نوٹ: اس فیچر کی تیاری میں جیو گیراج (GeoGarage) ویب سائٹ پر شائع ایک اسٹوری سے مدد لی گئی ہے۔ امر گل

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button