
پاکستان کے لا (Law) کالجوں اور یونیورسٹیوں میں آئین و قانون کی تدریس ایک عجیب تضاد کا شکار ہے۔ اکثر و بیشتر کلاس کا ماحول ایسا ہوتا ہے جیسے آئین کوئی بے ضرر قانونی کتاب یا محض شقوں اور تعریفوں کا مجموعہ ہے جس کا سیاست، سماج اور طاقت سے کوئی تعلق نہ ہو۔ قانون کے پروفیسرز اسے یوں پڑھاتے ہیں جیسے یہ ریاضی کا کوئی نصاب ہو جہاں ہر مسئلے کا ایک درست جواب ہوتا ہے۔ کوئی تاریخی پس منظر نہیں، کوئی طاقت کا ٹکراؤ نہیں اور کوئی سیاسی حقیقت جیسے وجود ہی نہیں رکھتی۔
سچ یہ ہے کہ آئین کبھی بھی غیر سیاسی نہیں رہا۔ نہ آئین کو غیر سیاسی سمجھنا چاہیے اور نہ ہی ایسا ممکن ہے۔ اس کی چند بنیادی وجوہات ہیں جو آئین کو لازمی طور پر ایک سیاسی دستاویز بناتی ہیں۔ کیونکہ آئین طاقت کی تقسیم کا نقشہ ہے۔ ریاستی اداروں کے باہمی تعلقات کا معاہدہ ہے۔ عوام اور ریاست کے حقوق و فرائض کی سیاسی بنیاد ہے۔ لیکن پاکستان میں تقریبا سارے لا کالجوں اور یونیورسٹیوں میں تدریسی طور پر اسے ایک بے جان متن بنا دیا گیا ہے۔ طالب علم شقوں کو بس رٹا لگا کر یاد کرتے رہتے ہیں اور اس پورے عمل میں یہ بات نظر انداز کر دی جاتی ہے کہ یہ شقیں کیوں بنی تھیں، کن قوتوں نے انہیں تشکیل دیا تھا اور یہ کس سیاسی تناظر سے جنم لیتی ہیں اور تناظر کی عدم موجودگی میں کسی بھی آئینی شق کی اصل معنویت کو سمجھنا ممکن ہی نہیں ہوتا۔
جب آئینی ترامیم خاص طور پر 27ویں آئینی ترمیم جیسی عوام دشمن تبدیلیاں سامنے آئیں تو قانون کے زیادہ تر طلبہ و اساتذہ خاموش رہے۔ حالانکہ ترامیم وہ مواقع ہوتے ہیں جب آئین براہِ راست طاقت کی سیاست میں داخل ہوتا ہے مگر تدریس میں انہیں تجریدی اور مکینیکل انداز میں صرف قانونی تبدیلیاں کہہ کر ہٹا دیا جاتا ہے۔ یہ خاموشی صرف علمی کمزوری نہیں بلکہ سیاسی حقائق سے فرار بھی ہے۔ اور جب کوئی استاد یا طالبِ علم کسی اصولی موقف کو اپنانے سے گریز کرے اور کسی واضح پوزیشن لینے سے بچتا پھرے تو یہ رویہ نہ صرف علمی دیانت کی خلاف ورزی ہے بلکہ اخلاقی گراوٹ کی بھی ایک روشن مثال ہے۔
جب لا کالجوں اور یونیورسٹیوں میں آئین کو غیر سیاسی بنا کر پڑھایا جاتا ہے تو طلبہ کے سامنے صرف الفاظ رہ جاتے ہیں سیاق و سباق اور معنی و مفہوم نہیں۔
طاقت کی سیاست کے تناظر کے بغیر آئینی تعلیم ایسے ہی ہے جیسے کسی کو دریا کے بارے میں پڑھایا جائے مگر اسے پانی کبھی دکھایا نہ جائے۔ یونیورسٹیوں میں اکثر یہ جملہ سننے کو ملتا ہے کہ ہم قانون پڑھاتے ہیں، سیاست نہیں۔ یعنی کوئی آگ کے پاس بیٹھ کر دعویٰ کرے کہ اسے حرارت محسوس نہیں ہوتی۔ یہ بات بظاہر سادہ اور معصوم سی لگتی ہے مگر یہ ایک خود فریبی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ آئینی تشریح ہمیشہ سیاسی ہوتی ہے۔ آئین کے نفاذ پر اثرانداز قوتیں ہمیشہ سیاسی ہوتی ہیں۔ لہٰذا غیر سیاسی آئینی تدریس حقیقت میں خود ایک سیاسی بیانیہ ہے، جو طاقتوروں کے بیانیے کے قریب لیکن حقیقی علمی بیانیے سے بہت دور ہے۔ اور ایسے ماحول سے نکلنے والے وکلاء اور ججز عدالتی دنیا میں قدم رکھتے ہی طاقت کے کھیل کو خالصتا قانونی مسئلہ بنا دیتے ہیں۔ اور ایسا نہیں کہ قانونی مسئلہ بنا دینے سے طاقت کا کھیل ختم ہو جاتا ہے بس اسے قانونی اصطلاحات میں چھپا دیا جاتا ہے، اسی لیے جب آئینی بحران سامنے آتا ہے تو وہ اسے قانونی پیچیدگی سمجھتے ہیں نہ کہ
طاقت کے ٹکراؤ کا نتیجہ۔ اور یہی وہ غیر سیاسی تدریس ہے جو پورے عدالتی ڈھانچے اور نظام انصاف کو کمزور کر دیتی ہے۔
اس وقت 27ویں آئینی ترمیم تو لا کالجوں اور یونیورسٹیوں میں سب سے بڑا موضوعِ بحث ہونا چاہیے تھا۔ کلاسوں میں مباحثہ، مکالمہ اور سنجیدہ آئینی ڈسکورس کا آغاز ہونا چاہیے تھا۔ (چند ایک جگہوں پر یقیناً ہوا ہوگا) بلکہ ایسے تعلیمی اداروں میں اس ترمیم کے اثرات و مضمرات پر علمی سطح کا احتجاج بھی ہونا چاہیے تھا، مگر افسوس کہ اکثر اساتذہ اسے محض ایک نیا بل قرار دے کر خاموشی سے آگے بڑھ جاتے ہیں جیسے اس کے پیچھے کوئی سیاسی حقیقت یا آئینی اثر ہی نہ ہو اور طلبہ بھی بس یوں خاموش بیٹھے رہ جاتے ہیں جیسے آئین بطور شہری ان کے بنیادی حقوق یا ان کے مستقبل کا نہیں بلکہ کسی اور کا مسئلہ ہو۔
اگر آئینی تعلیم سیاست کے بغیر دی جائے تو آئین ایک کاغذ بن جاتا ہے۔ اس کا دفاع کمزور ہو جاتا ہے۔ اس کا نفاذ کمزور ہو جاتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ سماج میں شہری، سیاسی اور حقوق کا شعور بھی کمزور ہوجاتا ہے۔ لا کے پروفیسرز کو چاہیے کہ آئین کو اس کے تاریخی، سماجی اور سیاسی تناظر کے ساتھ پڑھائیں۔ طلبہ کو سمجھائیں کہ آئین صرف قانون نہیں بلکہ سیاست، تاریخ اور عوامی جدوجہد کا حاصل ہے۔ آئین کو غیر سیاسی بنا کر پڑھانا دراصل سچائی کو بے آواز کرنا ہے۔
آخر میں بات صرف اتنی ہے کہ آئین کسی دستاویز کا نام نہیں بلکہ ہمارے حقوق اور اجتماعی مستقبل کا معاہدہ ہے۔ لہٰذا اس ملک کے ہر شہری طلبہ، اساتذہ، وکلاء، ججز، صحافیوں اور عام عوام پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ آئین کو سمجھیں اس کا دفاع کریں اور اس کی حفاظت کے لیے عملی کردار ادا کریں۔ اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو اپنی ہی طاقت کسی اور کے ہاتھ میں دے دیں گے۔




