
جب میں ماں بولی کی اہمیت پر لکھتا ہوں تو ذہن بار بار اس تاریخی لمحے کی طرف جاتا ہے، جہاں ہماری ریاست نے پہلی بار اپنی ہی بنیاد کو آزمایا، اس لیئے پنجاب میں زبانوں کی صورتحال کے بعد دیگر صوبوں میں ماں بولیوں پہ بات کرنے سے پہلے اس درد ناک لمحے کو یاد کر لیتے ہیں، وہ لمحہ مشرقی بنگال کا تھا، وہ دھرتی جس کے بغیر پاکستان کا وجود ادھورا تھا۔ تحریکِ پاکستان میں سب سے زیادہ حصہ، سب سے زیادہ قربانیاں، اور آزادی کے بعد سب سے زیادہ آبادی بنگلہ قوم کی تھی، مگر اسی قوم کی ماں بولی کو سب سے پہلے نظرانداز کیا گیا۔
وہی مشرقی بنگال جس کی آبادی، سیاسی وزن اور تحریکِ پاکستان میں عملی کردار باقی تمام صوبوں سے زیادہ تھا، 1948 میں قائداعظم کی ڈھاکا یونیورسٹی میں تقریر کے دوران ”صرف اردو قومی زبان ہوگی“ کا اعلان دراصل اس پالیسی کی پہلی اینٹ تھا، جس نے آنے والے برسوں میں گہری خلیج پیدا کی۔ طلبہ اور اساتذہ نے اپنی زبان کے احترام کے لیے جب آواز اٹھائی تو جواب میں ریاستی جبر آیا، گولیاں چلیں، نوجوان مارے گئے، اور یوں پاکستان کی پہلی زبان کی تحریک خون میں نہلا دی گئی۔
1940 قراردادِ پاکستان نے یقین دلایا تھا کہ یہاں بسنے والی تمام قوموں کی شناخت، ثقافت اور زبانوں کا احترام ہوگا، مگر آزادی کے بعد جب ڈھاکا یونیورسٹی میں ”صرف اردو قومی زبان ہوگی“ کا اعلان ہوا تو یہ اعلان دراصل اس وعدے کی پہلی خلاف ورزی تھی۔ مشرقی بنگال کے طلبہ، استاد، شاعر اور سیاستدان اپنی زبان کی عزت مانگ رہے تھے۔ کوئی خطرہ نہیں، کوئی علیحدگی نہیں… بس اپنی ماں بولی کے حق کا مطالبہ۔۔ لیکن جواب میں ریاستی طاقت سامنے آئی، لاٹھیاں، گرفتاریاں، اور وہ دن بھی آیا جب بنگالی نوجوان اپنی زبان کے لیے گولیوں کا نشانہ بنے۔
یہ باب ہماری تاریخ میں محض ایک واقعہ نہیں، بلکہ اس پورے خطے کی زبانوں کے لیے ایک بنیادی سبق ہے: کوئی قوم اپنی زبان کی بےحرمتی برداشت نہیں کرتی۔ زبان صرف بولنے کا ذریعہ نہیں، یہ شناخت ہے، گھر ہے، نسلوں کی جڑ ہے۔ جب ریاست کسی قوم سے اس کی زبان چھیننے کی کوشش کرتی ہے تو وہ دراصل اس قوم کے وجود پر حملہ کرتی ہے۔
مشرقی بنگال کی جدوجہد نے ثابت کیا کہ ماں بولی کی حفاظت ایک فطری حق ہے، کسی آئین یا حکومت کی عطا نہیں۔ بنگلہ زبان کی تحریک بتاتی ہے کہ لسانی وقار اگر آئینی اور سیاسی ڈھانچے میں تسلیم نہ کیا جائے تو اس کا نتیجہ شدید بے چینی، مزاحمت اور بالآخر جدائی تک جا سکتا ہے۔
آج جب میں اپنی ماں بولی، اپنے لوگوں، اور اس سرزمین کی زبانوں کے مستقبل پر بات کرتا ہوں تو بنگال کی وہ داستان سامنے کھڑی ہو جاتی ہے۔ وہ کہتی ہے کہ زبانوں کا سوال محض الفاظ اور لہجوں کا سوال نہیں، یہ قوموں کی بقا کا معاملہ ہے۔ اگر ہمارے ہاں مادری زبانوں کو ان کا جائز مقام مل جاتا، تو شاید ہم کئی تلخ تجربات سے بچ سکتے تھے۔ ماں بولی کا احترام صرف ماضی کا تقاضا نہیں، یہ مستقبل کی ضرورت بھی ہے۔
(جاری ہے)




