کھیرتھر نیشنل پارک کے تحفظ سے متعلق درخواست پر سندھ ہائی کورٹ میں سماعت

نیوز ڈیسک

سندھ ہائی کورٹ نے جمعرات کے روز صوبائی متعلقہ حکام کو کھیرتھر نیشنل پارک کے تحفظ سے متعلق دائر درخواست پر رپورٹس جمع کرانے کی ہدایت کی ہے۔

جسٹس عدنان اقبال چوہدری کی سربراہی میں سندھ ہائی کورٹ کے دو رکنی آئینی بینچ نے وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ کے سیکریٹری کو 25 فروری تک رپورٹ اور تبصرے جمع کرانے کا حکم دیا۔

عدالت نے ثقافت، سیاحت اور نوادرات کے محکمے سے بھی پارک کے تحفظ اور اس کی بقا سے متعلق رپورٹ طلب کر لی۔

وائلڈ لائف، ثقافت، کان کنی و معدنیات کے محکموں کے سیکریٹریز، سندھ انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی، ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی اور دیگر اداروں کو فریق بناتے ہوئے درخواست گزار حفیظ الرحمٰن اور دیگر نے گزشتہ سال سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا اور مؤقف اختیار کیا تھا کہ یہ ادارے نیشنل پارک کے تحفظ میں ناکام رہے ہیں، بلکہ اس کے برعکس وہ پارک کے بعض حصے کانوں اور ریت بجری (ریتی بجری) کی لیز کے ذریعے تجارتی مقاصد کے لیے الاٹ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، حالانکہ ان پر پارک کے ساتھ ساتھ قدیم قبروں اور تاریخی مقامات کے تحفظ کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔

درخواست گزاروں کا کہنا ہے کہ حکومت ریزرو کے تحفظ میں ناکام رہی اور حصے تجارتی استعمال کے لیے الاٹ کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے

جمعرات کو سماعت کے دوران درخواست گزاروں کے وکیل نے نشاندہی کی کہ عدالت کی جانب سے بار بار ہدایات کے باوجود فریقین نے تاحال اپنے تبصرے جمع نہیں کرائے۔

بینچ نے صوبائی قانون افسر کے رویے پر عدم اطمینان کا اظہار کیا، کیونکہ انہوں نے فریقین کی جانب سے تبصرے جمع کرانے کے لیے مزید وقت طلب کیا۔

عدالت نے وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ اور ثقافت، سیاحت و نوادرات کے محکموں کے سیکریٹریز کو سابقہ عدالتی احکامات کی روشنی میں تبصرے اور رپورٹس جمع کرانے کی ہدایت کی۔

بینچ نے اپنے سابقہ عبوری حکم میں بھی توسیع کرتے ہوئے آئندہ سماعت تک کھیرتھر نیشنل پارک کی نوٹیفائیڈ حدود کے اندر کسی بھی قسم کی الاٹمنٹ جاری کرنے سے حکام کو روک دیا۔

اس سے قبل درخواست گزاروں نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ یہ پارک ممالیہ جانوروں، پرندوں اور رینگنے والے جانوروں کی مختلف اقسام کے لیے ایک اہم مسکن ہے، جہاں اندازاً 276 اقسام کی حیوانی حیات ریکارڈ کی جا چکی ہے، جبکہ کھیرتھر پروٹیکٹڈ ایریاز کمپلیکس متعلقہ قوانین اور قواعد کے تحت محفوظ قرار دیا جا چکا ہے۔

وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ یہ پارک 33 اقسام کے ممالیہ جانوروں، 23 اقسام کے رینگنے والے جانوروں، تین اقسام کے ایمفیبینز، 29 اقسام کی مچھلیوں اور 25 اقسام کے پودوں کا مسکن ہے، جبکہ یہ سندھ کے اڑیال اور آئی بیکس کا بھی اہم قدرتی مسکن سمجھا جاتا ہے۔

گزشتہ سال سندھ ہائی کورٹ نے ایک عبوری حکم امتناعی جاری کیا تھا اور سیشن جج کو ہدایت دی تھی کہ وہ متعلقہ حکام اور درخواست گزاروں کی معاونت سے پارک کا معائنہ کریں، تاکہ درخواست میں اٹھائے گئے نکات کا جائزہ لیا جا سکے۔

عدالت نے یہ بھی ہدایت کی تھی کہ وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ کے سیکریٹری گزشتہ 10 برسوں کے دوران محکمے کی جانب سے شروع کی گئی سرگرمیوں اور نایاب و دیگر جاندار انواع کے تحفظ کے لیے قائم کی گئی آسامیوں کی مکمل تفصیلات جمع کرائیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button