”جنگیں انسانی کردار کا امتحان ہوتی ہیں“ یوکرین میں پھنسے افریقیوں کے لیے دنیا کا دوہرا معیار

ویب ڈیسک

کراچی – کہتے ہیں کہ جنگیں انسانی کردار کا امتحان ہوتی ہیں اور جنگوں سے انسانی وجود کے تاریک اور روشن دونوں طرح کے پہلو سامنے آ جاتے ہیں. ایک طرف دنیا اس وقت یوکرین سے انخلاء کرنے والے انسانوں سے اظہار یکجہتی میں مصروف ہے، تو دوسری طرف یوکرین میں پھنسے افریقیوں کے لیے دنیا کا دوہرا معیار کھل کر سامنے آیا ہے

یوکرین میں پھنسے افریقی باشندوں کے ساتھ امتیازی سلوک نے ایک ایسی بے چینی کو جنم دیا ہے، جو اب ’یوکرین میں افریقی‘ کے ایک ہیش ٹیگ کے ساتھ ایک چیخ بن چکی ہے

اظہار یکجہتی کو کسی انسان کی جلد کا رنگ نہیں دیکھنا چاہیے۔ یہ عمل تو تمام متاثرہ انسانوں سے ہمدردی اور ان کی عملی مدد کا متقاضی ہوتا ہے، لیکن بدقسمتی سے اس معاملے میں ایسا نہیں ہے

علاوہ ازیں روس یوکرین جنگ کے بعد مغربی میڈیا میں تبصروں میں بھی اس طرح کا متعصب رویہ سامنے آ چکا ہے

یوکرین پر روس کی چونکا دینے والی فوجی چڑھائی نے کئی ملین انسانوں کی زندگیاں خطرے میں ڈال دی ہیں۔ ایک ہفتے کے اندر اندر ایک ملین سے زائد یوکرینی باشندے ہمسایہ ممالک میں پناہ گزین اور لاکھوں اندرون ملک ہی بے گھر ہو چکے ہیں۔ زیادہ تر عورتوں اور بچوں نے دیگر ممالک میں پناہ ڈھونڈی تو یوکرینی مرد اس لیے اپنے وطن ہی میں موجود رہے کہ روسی فوجی یلغار کا مقابلہ کر سکیں۔ اس عمل نے لاکھوں خاندانوں کو تقسیم کر دیا

ہمسایہ ممالک اور ان کے باشندوں نے اپنے ہاں آنے والے یوکرینی پناہ گزینوں کے لیے اپنی سرحدیں، اپنے گھر اور بازو کھلے رکھے۔ امدادی تنظیمیں، عام شہری اور دنیا بھر کے سیاست دان یوکرین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کر رہے ہیں۔ پناہ گزینوں کی تعداد لاکھوں میں ہے تو مدد کرنے والے بھی کم نہیں۔ یہ منظر نامہ واقعی متاثر کن ہے

لیکن اسی پرجوش اور متاثر کن منظر نامے کا ایک مختلف اور تکلیف دہ پہلو بھی ہے، جس نے مہذب دنیا کے چہرے پر سے نقاب اتار پھینکا ہے

یوکرین میں مدد کے ضرورت مند اور سیاہ اور گندمی رنگت کی جلد والے غیر ملکیوں کو محفوط مقامات اور دیگر ممالک تک رسائی دینے سے انکار کیا جا رہا ہے۔ ایسا صرف گہری سیاہ رنگت والے افریقی باشندوں کے ساتھ ہی نہیں کیا جا رہا۔ ان میں مشرق وسطیٰ کی ریاستوں، پاکستان اور بھارت جیسے ممالک اور کئی دیگر خطوں کے شہری بھی شامل ہیں

یہ وہ غیر ملکی ہیں، جو قانونی طور پر یوکرین میں مقیم تھے لیکن ان کا اس طرح خیر مقدم نہیں کیا جا رہا، جیسے یوکرین کے مقامی باشندوں کا کیا جا رہا ہے

ایسے بہت سے افراد کو تو ان بسوں اور ریل گاڑیوں میں سوار ہونے کی اجازت بھی نہیں دی گئی، جو مہاجرین کو یوکرین کے اندر ہی لیکن نسبتاً محفوظ مقامات پر پہنچا رہی تھیں

انہیں کہا گیا ”یہ بسیں اور ٹرینیں صرف یوکرینی شہریوں کے لیے ہیں“

کئی واقعات میں جب ایسے غیر ملکی پیدل چل کر ہی پولینڈ کی سرحد تک پہنچے، تو چند پولستانی سرحدی گزرگاہوں سے انہیں واپس بھیج دیا گیا

یہ سب انسان بھی خطرے میں تھے، ڈرے ہوئے تھے، اور اتنے ہی ناامید تھے، جتنے کہ خود یوکرینی شہری

کیا مہذب دنیا کے پاس اس سوال کا کوئی جواب ہے کہ انہیں اظہار یکجہتی کے اس عمل سے خارج کیوں کیا گیا؟

کئی ایسے بین الاقوامی طلبا جنہوں نے پولینڈ کی سرحدوں کے قریب کئی راتیں گزاریں، وہ شکوہ کناں ہیں کہ انہیں خوراک، پینے کا پانی اور دیگر سامانِ ضرورت تک بھی فراہم نہ کیا گیا۔ انہیں واپس ان علاقوں کی طرف جانے پر مجبور کیا گیا، جہاں بمباری ہو رہی تھی اور انہیں کہا گیا کہ ”وہ اپنے لیے متبادل امکانات تلاش کریں“

واضح رہے کہ یوکرین میں چند روز پہلے تک مجموعی طور پر لگ بھگ چھہتر ہزار غیر ملکی طلبا تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ ان میں سے ایک چوتھائی سے زیادہ یا تو بھارتی اور پاکستانی تھے یا مختلف افریقی ممالک کے شہری، جن میں نائجیریا، مراکش اور مصر بھی شامل ہیں

اس کے علاوہ وہاں تارکین وطن اور غیر ملکی کارکنوں کی بھی ایک بڑی تعداد آباد ہے۔ ایسے انسانوں کو بھی مدد اور محفوظ مقامات پر منتقلی کی ضرورت تھی

دنیا کے کسی نہ کسی کونے میں ایسے غیر ملکیوں کے اہل خانہ شدید پریشانی کا شکار ہیں۔ اس لیے کہ اگر وہ روسی بمباری سے بچ بھی گئے، تو کئی دنوں تک واپس دھکیلے جانے والے اور مدد کے ضرورت مند یہ انسان زندہ کیسے رہیں گے؟ سب سے زیادہ المناک پہلو تو یہ ہے کہ مدد کے ضروت مند جو غیر ملکی سفید فام نہیں تھے، انہیں یہ سارا معاملہ جنگ اور نسل پرستی کا مسئلہ محسوس ہوا. کیا اب وہ یہ زخم زندگی بھر اپنے سینے پر لیے پھریں گے؟

سوشل میڈیا پر اب تک ایسی کئی وڈیوز سامنے آ چکی ہیں، جن میں یوکرین میں افریقی باشندوں نے اپنے لیے مدد کی درخواستیں تو کیں، لیکن ساتھ ہی یہ بھی دکھائی دیا کہ انہیں کس طرح کے امتیازی رویوں کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ چند وڈیوز میں تو ریاستی اہلکار اپنے ہتھیاروں کا رخ غیر ملکی طلبا کی طرف کر چکے تھے اور یہ غیر سفید فام طلبا چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے کہ وہ تو غیر مسلح ہیں۔ اس دوران ایسے غیر یورپی باشندوں کے لیے آن لائن نفرت کا اظہار بھی کیا گیا

کئی مواقع پر تو مغربی میڈیا میں تعصب پر مبنی تبصروں میں یہاں تک بھی کہا گیا کہ یوکرین میں رہنے والے رنگ دار جلد کے حامل یہ افراد اتنے مہذب نہیں تھے کہ انہیں بھی ریسکیو کیا جاتا

نسل پرستی کی گہری جڑوں کا اندازہ اس وقت ہوا جب سوشل میڈیا پر بھی کئی صارفین نے کھل کر حمایت کی کہ پہلے صرف سفید فام باشندوں کو ریسکیو کیا جانا چاہیے

یہ سب کچھ نسل پرستانہ رویوں کی قابل مذمت اور قطعی ناقابل قبول مثالیں ہی تو ہیں۔ مزید شرم کی بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ یوکرین میں ایک ایسے وقت پر اور جنگی ماحول میں دیکھنے میں آیا، جب یوکرین روسی فوجی حملوں کا مقابلہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے

کسی بھی جنگ زدہ خطے میں پھنس کر رہ جانا بہت خطرناک ہوتا ہے۔ اور اگر انسانی جلد کا رنگ سیاہ یا گندمی ہو تو پھر تو جنگ زدہ خطے سے فرار اور بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ہر کسی کو ایک ہی طرح کے خطرے کا سامنا ہے، تو سب کی مدد کرتے ہوئے ہر کسی کے ساتھ ایک ہی طرح کا سلوک کیوں نہیں کیا جا سکتا؟

سوال موجود ہے لیکن بدقسمتی سے جواب ناپید ہے. اب شاید یہ بھی پوچھا جانا چاہیے کہ آیا اس طرز عمل کو یورپ میں امتیازی سلوک کے حوالے سے خطرے کی گھنٹی سمجھا جانا چاہیے؟ اگر کوئی مقامی اہلکار مدد کے لیے یا بسوں اور ٹرینوں میں بٹھائے جانے کے وقت یہ فیصلہ ناانصافی سے کرتا ہے کہ کس کی فوری مدد کی جانا چاہیے اور کس کی نہیں، تو یہ اس کی طرف سے دراصل یہ اعلان ہو گا کہ انسانیت؟ ہاں! مگر سب کے لیے نہیں

یہی موقف، سوچ اور رویے سب سے برے ہیں۔ انسانیت اور انسانوں سے یکجہتی کا اظہار سب کے لیے ہوتے ہیں، صرف منتخب کردہ یا خاص قسم کے ضرورت مندوں کے لیے نہیں

آج کے یورپ میں یوکرین سے فرار کے خواہش مند انسانوں کی مدد کرتے ہوئے اندرون ملک یا یوکرین کی قومی سرحدوں پر متاثرین کی مدد کے فیصلے ان کی جلد کی رنگت، نسل، قومیت یا شہریت کی بنیاد پر کیا جانا اس دنیا کی بہت بڑی ناکامی ہے، جسے ‘مہذب دنیا‘ کہا جاتا ہے

جنگیں انسانی کردار کا امتحان ہوتی ہیں. بدقسمتی سے ”مہذب دنیا“ اس امتحان میں بری طرح ناکام ہو چکی ہے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close