میں اور میری ماں

عارفہ اختر بلوچ

کہتے ہیں دنیا میں انسان کی دو مائیں ہوتی ہیں.. ایک وہ، جس کی کوکھ سے انسان جنم لیتا ہے اور دوسری ماں وہ جو اپنے وجود سے انسان کے لیے آب و دانہ اُگا کر اسے تندرست اور توانا رکھتی ہے.. ایک ماں انسان کو جنم دے کر اسے زندگی عطا کرتی ہے اور دوسری ماں زندگی سے جسم و جاں کا رشتہ قائم رکھتی ہے.. صرف اتنا ہی نہیں، بلکہ اس کی پہچان کا ذریعہ بھی بنتی ہے.. انسان کی دوسری ماں، وہ دھرتی ہے، وہ زمین ہے جہاں وہ پیدا ہوتا ہے، اس پر پہلا پاؤں دھرتا ہے، لڑکپن سے جوانی اور بڑھاپے کا سفر طے کرتا ہے اور پھر ایک دن ہمیشہ کے لیے اس کی گود میں سو جاتا ہے…

اس دھرتی سے جڑی زبان، ثقافت اور انسان کی فطرت میں اس کا بہت بڑا ہاتھ ہوتا ہے، جس کو سرزمین کہتے ہیں. اب میں اپنے آپ کو خوش نصیب بیٹی کہوں یا بد نصیب… اس کا فیصلہ کرنا تھوڑا مشکل ہے..

خوش نصیب اس لیے، کہ جب سے میں نے آنکھ کھولی میں نے اپنے ارد گرد وہ سب کچھ پایا، جو ایک انسان کے زندہ رہنے کے لیے ضروری ہوتا ہے، لیکن اس لا حاصل ہونے کی دوڑ میں جو مجھے حاصل ہوا اس کو خوش نصیبی ہر گز نہیں کہا جا سکتا…

خوش نصیب وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنے وطن کے دشت و بیاباں میں بیٹھ کر اپنی ماں (سرزمین) سے لوریاں سنتے ہیں اور اپنی سرزمین کی آغوش میں بیٹھ کر اس کے لمس کو محسوس کرتے ہیں. اس کو وقت کی ستم ظریفی کہیں یا کچھ اور، دنیوی خواہشات اور جدید علم کی تلاش میں، میں اپنی ماں یعنی اپنی سرزمین سے دور رہی.. ابھی تک میں یہ جاننے سے قاصر ہوں کہ یہ میری دنیاوی خواہشات کتنی پوری ہوئی اور میں نے جدید علم سے کتنا استفادہ کیا.. اس کا فیصلہ آنے والا وقت کرے گا، لیکن اس بات کا مجھے شدید احساس ہے کہ میں اپنی ماں (سرزمین) سے دور رہ کر اپنی وہ پہچان نہیں بنا پائی جو میرے آباؤاجداد کی تھی یا میری سرزمین کی بیٹیوں کو میسر ہے.
سرزمین سے دوری کے اس تمام عرصے میں، ثقافت نے بھی ایک وقتی دوست کی طرح ساتھ نبھایا!

اب مجھے اس بات کا شدید احساس ہے کہ یہ میرے ساتھ کیوں ہوا، کیا یہ سب حالات کے تقاضے تھے کہ میں اپنی سرزمین کو چھوڑ کر دوسروں کی سرزمین پر آباد ہوئی.
اس نفع و نقصان کا بخوبی اندازہ لگانا شاید میرے لئے مشکل ہو.

دوسروں کی سرزمین پر رہ کر ایک انجان سی زندگی گزارنے سے انسان میں اعتماد کا فقدان نمایاں ہوتا ہے. یہ میرا ذاتی مشاہدہ ہے. خیر جو ہوا سو ہوا.. اگر اس پر میں زیادہ بات کروں تو یہ میری آپ بیتی بن جائے گی، لیکن اس بات کو میں شدت سے محسوس کرتی ہوں اور اس کے ساتھ خواہش بھی رکھتی ہوں کہ میں بھی اپنی ماں کی آغوش میں سر رکھ کر وہ لوریاں سنوں جس طرح میری دوسری بہنیں سنتی آ رہی ہیں.. اس لیے میں اپنے نام کے آگے فخر سے بلوچ لکھتی ہوں یہ پہچان بھی مجھے اسی ماں نے دی ہے جس کو یہ جہان، بلوچستان کہتا ہے…

Related Articles

One Comment

  1. Main nahe janti apki zaati aap kiya hai magar main itna janti hu k chahye kc bhi majboori ho chahye zindgi main koi bhi nuqsaan darpaish ho kbhi koi apni maa ko chorh kar kc dosry ki maa k pass nhi jata jo ba muqabla haali main tumhare apni maa (sarzameen) se behtar halat m ho…

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close