اب کی بار منچ سندھ کا ہوگا اور صدا ماہ رنگ بلوچ کی!

محمد خان داؤد

ایس ایل ایف میں ”بلوچ تاریخ اور سیاست“ کے ایونٹ کی منسوخی کو ایس ایل ایف کے آرگنائزروں سے نہ جوڑا جائے، ایس ایل ایف کے آرگنائزر تو پہلے ایونٹ سے ہی یہی چاہ رہے ہیں کہ بلوچوں کی بات، بلوچ دھرتی کی بات اتنی زور سے کہی جائے کہ وہاں تک سنائی دے جہاں سب سنائی دیتا ہے.. اگر کچھ نہیں سنائی دیتا تو ڈاکٹر ماہ رنگ کی آواز اور سمی بلوچ کی صدا.. اس لیے ایس ایل ایف نے ہر بار بلوچ دانش، بلوچ سیاست، بلوچ جدوجہد کو وہ منچ پیش کیا ہے جو سندھ دھرتی پر لگتا ہے اور جہاں بلوچ اپنی بات بے دھڑک کہتا ہے.. جب نہ تو بلوچ کوئی لکھی پرچیاں بھیجی جا تی ہیں،نہ تو اس سے مائیک چھینا جاتا ہے، نہ تو اس سے ڈائیس چھینا جاتا ہے اور نہ ہی ان ہالوں کو تالا لگایا جاتا ہے جہاں بلوچ دانشور، بلوچ سیاسی ورکر اور دردوں کا مارا کوئی بلوچ آتا ہے اور جو اس کا درد اور جو دھرتی کا درد ہوتا ہے وہ بیان کرتا ہے اس کی آنکھوں سے آنسو چھلکتے ہیں اور سندھ آگے بڑھ کر اپنے دامن سے اس کے آنسو صاف کرتا ہے
اور پھر اس سے وعدہ لیتا ہے کہ اپنے دکھ سنبھال رکھ، پھر اگلے سال اسی دھرتی پر منچ سجے گا اور تیرے دردوں کی بات بھی ہوگی، تم ضرور آنا!
اگر ایسا نہیں تو ہر بار ایس ایل ایف کیوں اپنا منچ بلوچ دانش کے سپرد کرتا ہے اور بلوچ سیاست اور دانش ہر بار، جو کچھ اس پر بیتتی ہے، وہ بیان کرتا ہے اور اگلے سال تک سندھ سے گلے مل کر وہاں چلا جاتا ہے، جہاں دھرتی کا دامن خون آشام شام، ماؤں کی مسافری، بہنوں کے بین اور جوان بیٹوں کی قبروں سے بھری ہوئے ہے۔پھر سندھ بُلاتا ہے اور بلوچستان لوٹ آتا ہے۔ اب کی بار بھی یہی ہوا ہے بلوچ دھرتی پہلے سے زیادہ خون آشام ہے۔ بلوچ ماؤں کی بن منزل کی مسافری تھمی نہیں۔ بہنوں کا ماتم طویل ہوچکا ہے اور بلوچ دھرتی ہے کہ قبروں کے بار سے جھکی جا رہی ہے.. ایسا نہ ہو کہ بلوچ دھرتی، بلوچ جوانوں کی قبروں کے بار تلے ڈہ ہی جائے!
پر جیسا تیسا ہی سہی بلوچستان اور جیسا تیسا ہی سہی سندھ!

سندھ نے اب بھی بلوچستان کو بُلایا اور بلوچستان اپنے دردوں کی گٹھڑی لیے پہنچ گیا..
سندھ نے بلوچستان کو گلے لگایا اور بلوچستان نے سندھ کے آنسو پونچھے.. کیوں کہ سندھ اور بلوچستان ایک دوسرے کے دردوں اور دکھوں سے واقف ہیں، اگر بلوچ بیٹی اپنے بابا کی متلاشی رہی ہے تو سندھ کی ماں بھی تو انتظار کرتے کرتے قبر میں اتر گئی ہے۔ اگر بلوچستان کی ماں بیٹے کو رو رہی ہے تو سندھ کی بیٹی بھی تو سسئی بن کر اپنے پنہوں کو تلاشتی رہی ہے.. سندھ، بلوچستان کو اپنے سکھوں کا تو نہیں پتہ، پر ان کے دکھ ایک جیسے ہیں.. طویل طویل اور دردوں سے بھرے!
تو اس دن سندھ نے تو ایس ایل ایف کا منچ پوری نیک نیت سے بلوچستان کے حوالے کیا تھا
جس منچ پر بلوچستان اپنے دردوں کا زباں دیتا
اور بتاتا وہ ویساہ گھاتیاں
جو اس سے سیاست اور ووٹ کے ذریعے کی گئی ہیں
وہ تمام بے وفائیاں، جو ان سے اس زباں میں کی گئی ہیں
جس زباں میں صباء دشتیاری طبلے کی تھاپ پر گیت گنگنایا کرتا تھا
وہ اسی زباں میں کی گئی کارستانی بیان کرتے، جس زباں میں زبیدہ جلال وعدہ کرتی ہے اور بھول جا تی ہے
وہ اسی زباں میں اپنا درد بیان کرتے، جس زباں میں جام کمال دھرتی کی بات کرتا ہے اور صبح کے خواب کی مانند سب کچھ بھول جاتا ہے..
وہ اسی زباں میں ان دردوں کا زباں دیتے، جس زباں میں مبارک قاضی دردوں کے گیت لکھتے ہیں..
وہ اسی زباں میں وہ سب کچھ کہتے، جس زباں میں ماہ رنگ کئی سالوں سے اپنے بابا کو آنسو بہا کر یاد کرتی رہی ہے..
وہ اسی زباں میں وہی کچھ بتاتے، تو سچ تھا
جو سچ جیسا تھا
جو روشن تھا
جو روشنی جیسا تھا
جو صبح کی مانند سویرا تھا..
سندھ نے تو آگے بڑھ کر بلوچستان کو یہ منچ ایاز کے ان الفاظوں میں پیش کیا تھا کہ
”اب تو سورج ڈھل رہا ہے
پربتوں میں
شل ہوئے پیر تھک کر
پھر بھی کوئی چل رہا ہے
پربتوں میں
ریت کے ٹیلے کے اوپر
وہ دیا جو جل رہا ہے
پربتوں میں
اک نئے سورج کا سپنا
اس کے اندر پل رہا ہے
پربتوں میں
آنے والا دن ابھی
اپنی آنکھیں مل رہا ہے
پر بتوں میں!“

سندھ نے اپنا منچ نیک نیتی اور بلوچ دھرتی کا درد محسوس کر کے اسے دیا کہ وہ اپنا درد بیان کرے، پر سندھ تو نہیں جانتا تھا کہ سندھ کی نیک نیتی کسی سازش کا شکار ہو جائے گی اور ایس ایل ایف کے در بلوچ درد کے لیے بند ہو جائیں گے اور بلوچ دانش، بلوچ سیاست اور بلوچ جدوجہد کو اسی گیٹ سے واپس کر دیا جائے گا، جس گیٹ سے کرپٹ کامورا تو آ سکتا ہے، پر سسئی جیسی بلوچ بیٹی نہیں.. جس در سے گھٹا پٹا کرپشن میں ڈوبا جھوٹا وزیر تو آ سکتا ہے، پر تمام عمر سچ کی راہ پر چلنے والا یوسف خان مستی نہیں.. جس در سے جاہل تو آ سکتا ہے، پر شاہ محمد مری جیسا دانش ور نہیں.. جس در سے میک اپ سے لدی شہر کی ہشاش بشاش دوشیزہ تو گزر سکتی ہے، پر سسئی جیسی ماہ رنگ نہیں..
کیوں؟
اس لیے کہ سازشی عناصر نہیں چاہتے کہ ایس ایل ایف کا منچ بلوچ، بلوچ دھرتی اور بلوچ جدوجہد کی آواز بنے!
ایسا نہیں ہوگا
بلکل بھی نہیں ہوگا
سندھ اور ایس ایل ایف بلوچستان کی آواز ضرور بنیں گے اور بنتے ہوئے آئے ہیں
اب کی بار منچ سندھ کا ہوگا
اور آواز ثناء بلوچ کی ہوگی..
اب کی بار منچ ایس ایل ایف کا ہوگا
اور باتیں یوسف خان مستی کی ہونگی..
اب کی بار منچ سندھ کا ہوگا
اور جدوجہدی رنگ مورنی ماہ رنگ کا ہوگا!
ایسا رنگ جس کے لیے ایاز نے کہا تھا کہ
”یہ گھناؤنی گھڑی
آگ آگ آسماں
چیختی ہے مورنی
مینہ، برس
مینہ، برس
مینہ، برس
رول مت نراس میں
آ، کہیں کھلی زباں
بے زباں پیاس میں
مینہ، برس
مینہ، برس
مینہ، برس
ھانپتے ملیر میں
ٹھور ٹھور ہے الاؤ
آگ ہے سریر میں
مینہ، برس
مینہ، برس
مینہ، برس
آؤ بجلیوں، گھٹاؤ
اب نہ سہہ سکیں گے تاؤ
آؤ، آؤ، آؤ، آؤ!
مینہ، برس
مینہ، برس
مینہ، برس
مینہ، برس……

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close