پلاسٹک کے ذرات اب پھیپھڑوں کی گہرائی تک پہنچنے لگے

ویب ڈیسک

آلودگیوں میں اب مائیکرو پلاسٹک سرِ فہرست ہیں، جو سمندر، خشکی اور ہوا میں تباہی پھیلا رہے ہیں

یہ تو آپ جانتے ہی ہونگے کہ پلاسٹک ہزاروں برس تک تلف نہیں ہوتا اور اس کے باریک ٹکڑے ماحول میں برقرار رہتے ہیں، اب معلوم ہوا ہے کہ پلاسٹک کے ذرات پھیپھڑوں کی گہرائی تک پہنچ رہے ہیں اور وہاں خلیات کو تبدیل بھی کر رہے ہیں

اس ضمن میں فلوریڈا اسٹیٹ یونیورسٹی (ایف ایس یو) نے پلاسٹک کے بڑے ٹکڑوں سے گھل کر خارج ہونے والے باریک ذرات کا ماحولیاتی جائزہ لیا ہے

حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ ذرات ایورسٹ پہاڑ، قطبین اور انسانی فضلے میں بھی ملے ہیں

اب دنیا بھر میں مائیکرو پلاسٹک اور انسانی اثرات پر تحقیق ہورہی ہے۔ اس سے قبل سائنس بتاچکی ہے کہ پلاسٹک سازی میں استعمال ہونے والے کیمیکل دماغی خلیات کو نقصان پہنچارہے ہیں۔ اب اس ضمن میں ایف ایس یو نے تجربہ گاہی تحقیق میں بتایا ہے کہ پلاسٹک کے خردبینی ذرات انسانی پھیپھڑوں تک پہنچ سکتے ہیں

سائنسدانوں ںے پیٹریائی ڈش میں انسانی پھیپھڑوں کے خلیات رکھے اور تصور کیا کہ اس طرح ہم سانس کے ذریعے باریک پلاسٹک پھیپھڑوں میں اتار رہے ہیں۔ انہوں نے پولی اسٹائرین کے چند ذرات انسانی پھیپھڑوں کے خلیات (سیلز) پر رکھے تو چند دن بعد عجیب ماجرا دیکھا

انہوں نے دیکھا کہ پلاسٹک کے ذرات نے ایک جانب تو پھیپھڑوں کے سیلز کی ظاہری شکل تبدیل کر دی اور سیلز کا میٹابولزم بھی سست پڑنے لگا۔ اگرچہ پلاسٹک سے سیلز مرے نہیں لیکن وہ نارمل بھی نہیں رہے

اسی کے ساتھ  دیکھا گیا کہ پھیپھڑے کے سیلز ایک دوسرے سے دور جانے لگے۔ پہلے وہ کسی چادر کی طرح قریب قریب تھے لیکن پلاسٹک کے ذرات نے ان کے درمیان فاصلہ پیدا کردیا۔ ماہرین نے دیکھا کہ پلاسٹک کے ذرات نے سیلز کو ایک دائرے کی شکل میں گھیر لیا

تجربے سے وابستہ کیرسٹین گڈمین نے کہا کہ صرف 24 گھنٹے بعد ہی پلاسٹک نے سیلز کو گھیرنا شروع کر دیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا پلاسٹک پہلے سے متاثرہ افراد میں سانس کی بیماریاں پیدا کر سکتا ہے یا نہیں؟

ماہرین نے کہا کہ اگرچہ وہ خردبینی پلاسٹک کے انسانی خطرات کو بڑھا چڑھا کر پیش نہیں کرنا چاہتے تاہم یہ ضروری ہے کہ سانس کے مریضوں اور نشوونما سے گزرتے ہوئے بچوں پر ان کے منفی اثرات کا بھرپور جائزہ لیا جائے اور بھرپور تحقیق کی جائے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close