ججز لیکس

عفت حسن رضوی 

یہ سپریم کورٹ رپورٹنگ کی دین ہے کہ میں نے چند برس قبل سوشل میڈیا پر دنیا بھر کے کورٹ رپورٹرز، عدالتی خبروں کے ذرائع، انصاف و قانون کی تنظیموں اور بڑے ممالک کے عدالت و انصاف کے اداروں کو فالو کرنا شروع کیا

اتنا عرصہ دنیا بھر کی مشہور عدالتی خبروں، تبصروں، قانونی ماہرین کے تجزیوں کو سرسری دیکھنے کے بعد حاصل تحقیق یہ ہے کہ سب نے بڑا بور کیا

امریکا کی عدالت سے حال ہی میں جو بڑی خبر نکلی وہ گلوکارہ برٹنی سپیئرز کی والد کے چنگل سے رہائی ہے۔ برطانیہ کی ہائی کورٹ افغانستان میں برطانوی فوج کے ہاتھوں مارے گئے بےگناہوں کی ناکافی تفتیش کا مقدمہ سن رہی ہے

یورپی عدالت نے ہنگری کے قانون  ’اسٹاپ سوروز‘ کو یورپی یونین قوانین کے خلاف قرار دیا ہے کیونکہ یہ قانون پناہ گزینوں کے خلاف تھا۔ آسٹریلین ہائی کورٹ نے ایک برطانوی خاتون ویٹر سے زیادہ ٹیکس وصولی کو غیرقانونی قرار دیا جبکہ آسٹریلوی سپریم کورٹ سے وہاں کی سب سے مشہور خاتون گُھڑ سوار کو دو ماہ پابندی کے فیصلے پر ریلیف مل گیا۔ گذشتہ ہفتے کی خبر تھی کہ ایک دوا ساز کمپنی کو جھوٹے اشتہار پر کروڑوں ڈالرز کا جرمانہ لگا دیا گیا

دنیا بھر کی عدالتوں سے نکلنے والی ان خبروں میں مقدمات، فیصلوں، اپیل، مقدمات کے مندرجات، بیانات، گواہ، قانونی و آئینی پہلو شامل ہوتے ہیں۔ ان میں جج کا نام اور وجہ شہرت، جج کی جملے بازی، جج کا سیاسی پس منظر کچھ شامل نہیں ہوتا۔ قصہ مختصر نہایت پھیکی سیٹھی خبریں

نہ جج کی بھڑکی، نہ وکیل کی دلچسپ دلیل، نہ کوئی قطری خط، نہ سابق بیگم کا بیان۔ نہ اللہ سے ڈرنے کی تنبیہہ، نہ ہی جھوٹے مقدموں میں شرعی نظام انصاف کی تاریخی مثالیں.. ان مغربی عدالتوں سے بندہ کیا سیکھے، کیا جانے؟

ہار کے جھک مار کے آخر کو آنا پاکستان ہی پڑتا ہے۔ فیملی کورٹس میں باپ بچہ چھین کہ بھاگ گیا تو خبر، نکاح نامے کے ساتھ پریمی جوڑا یوں پیش ہوا جیسے قحبہ خانے سے پکڑا گیا ہو، یہ بنی دلربا خبر

قاتل نے کہا جج صاحب ہاں قتل میں نے کیا ہے مگر آپ پہلے کمرہ عدالت میں پانی کا کولر رکھوا دیں، یہ بھی خبر

دو ہزار سولہ میں پانامہ پیپرز سامنے آئے، سابق وزیراعظم کا نام آیا، کمپنیوں کے نام آئے، عدالت لگی، جے آئی ٹی چلی، پیشیاں، گواہ، جاسوس، ثبوت، بیانات سب چلے، عدالت کا فیصلہ آیا، ریفرنس بنے۔ پانچ سال بعد آج بھی  جج صاحب پوچھیں کہ پراسیکیوٹر پہلے ملزمان کی ملکیت ثابت کرے۔ تو جناب یہ بھی خبر

پاکستان کی چھوٹی عدالتیں دلچسپ و عجیب خبروں کا پیٹ بھر رہی ہے تو بڑی عدالتیں بھی صحافیوں کو مایوس نہیں کرتیں۔ روز  نئے ریمارکس، نیا سکینڈل، نئی ویڈیو، نئی سماعت، نئی سیاست، نئی عدالت

لا اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان کی گنتی بتاتی ہے کہ اگست کے مہینے تک پاکستان بھر کی اعلیٰ عدالتوں، ماتحت عدالتوں، ڈسٹرکٹ کورٹس، شرعی عدالت اور سپریم کورٹ میں کل ملا کر زیر التوا مقدمات کی تعداد پونے بائیس لاکھ ہے۔ لیکن  پیارے پاکستانیو! یہ خبر نہیں

خبر یہ ہے کہ گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم نے سنا کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک جج کو مبینہ طور پر فون پہ کہہ رہے کہ مریم نواز اور نواز شریف الیکشن سے پہلے باہر نکلنے نہ پائیں

خبر ہے کہ یہ چیف جج صاحب سابق وزیراعظم کے قریبی دوست ہیں، اس سے پہلے سابق جج ارشد ملک کی دوستانہ ویڈیو منظرعام پہ آچکی ہے، نیب والے جج جاوید اقبال کی سر سے پاوں تک کی مبینہ ویڈیو بھی خوب خبر بنی، ایک اور جج ملک قیوم نے آڈیو لیک آج تک تازہ خبر ہے۔ خیر ججوں اور سیاست دانوں کی چھپی اور کھلی دوستیوں اور ناراضگی کی خبریں تو اب ہمارے یہاں کوئی خبر ہی نہیں معمول ہے

مقدمات کیا ہیں دل پشوری کا ایک انداز ہے، عدالتیں کیا ہیں مزے مزے کی خبروں کا مینا بازار

ہمارے یہاں کے جج چھاپے مار لیتے ہیں، مقامی روایتی رقص کر لیتے ہیں، فائل پٹخ کر وزیراعظم کو طلب کر لیتے ہیں، ایک جج نوٹس لے تو دوسرے جج اسے واپس لے لیتے ہیں۔ جج کے فون ریکارڈ کیے جائیں تو وہ ہلکا پھلکا ناراض ہوجاتے ہیں، حکومت حکم نہ مانے تو اسے سزا کے طور پر عمل درآمد کیس میں الجھا لیتے ہیں۔ یعنی اخبار سرخ کرنے کو مواد ملتا رہتا ہے

عالمی تنظیم ورلڈ جسٹس پراجیکٹ کے مطابق پاکستان کا کریمینل جسٹس اور سول جسٹس نظام مخدوش ہے۔ انسانی حقوق کے لیے نظام عدل کے انتظامات ناکافی ہیں۔ لیکن یہ خبر اہم نہیں

اہم یہ ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کے ججز کے خلاف مقدمات سننے والی سپریم جوڈیشل کونسل کو ججز کے خلاف جو چار سو چھبیس شکایات موصول  ہوئیں اندر خانے تقریباً سب نمٹائی جا چکیں، ان میں سے صرف ایک جج کو سزا کے طور پر نکالا گیا وہ ہیں جسٹس شوکت صدیقی

پاکستان کے عدالتی نظام کو فوری اور انقلابی  تبدیلی کی ضرورت ہے۔ جہاں بےگناہوں کو برسوں رہائی کا انتطار رہے اور حق دار اپنے حق کی اپیل دائر کر کے فیصلے کی حسرت لیے دنیا سے گزر جائے تو ایسے نظام کو ٹھونک بجا کر سیدھا کرنے کی ضرورت ہے، مگر خبر یہ نہیں

خبر یہ ہے کہ گلگت بلتستان والے سابق جج کا بیان حلفی کوئی آخری خبر نہیں۔ ہر کچھ عرصے بعد ججز لیکس آتی رہتی ہیں، ہم خبر دیتے ہیں وہ نوٹس لے لیتے ہیں، یوں دل لگا رہتا ہے۔ کمرہ عدالت سے سیاست کی بازی چلتی رہتی ہے ہم خبروں کی دکان لگانے والوں کو مال ملتا رہتا ہے

نوٹ: یہ تحریر انڈپینڈنٹ کے شکریے کے ساتھ شایع کی جا رہی ہے، یی مصنفہ کی ذاتی رائے پر مبنی ہے ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close