کراچی بحریہ ٹاؤن کی انتظامیہ پولیس کے ہمراہ مل کر ملحقہ گاؤں کی زمین پر قبضہ کرنے اور احتجاج کرتے دیہاتیوں پر تشدد کرنے میں مصروف ہے
سوشل میڈیا اور متعدد میڈیا رپورٹس کے مطابق بحریہ ٹاؤن کی انتظامیہ نے ٹاؤن سے ملحقہ ایک گاؤں کی زمین اور مختلف جگہوں پر زمینوں پر قبضہ کرنے کے لیے ہیوی مشینری اور پولیس اہلکاروں کی مدد لی اور راہ میں آنے والے دیہاتیوں پر تشدد اور مقدمات کا سہارا بھی لیا
گاؤں کی زمین پر قبضے کی راہ میں رکاوٹ بننے والے مراد گبول کو پولیس نے بحریہ ٹاؤن انتظامیہ کے دباؤ میں آکر گرفتار بھی کیا اور انہیں شدید تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا، مراد گبول فیض محمد گبول مرحوم کے بیٹے ہیں جو مسلسل بحریہ ٹاؤن کی قبضہ گیری کے خلاف برسر پیکار رپے، انہوں نے بحریہ ٹاؤن کے خلاف عدالت سے اپنا مقدمہ بھی جیتا لیکن اس کے باوجود اسے انتظامیہ کی جانب سے زمین کا کبھی اپنی زمین کے حصول کے سلسلے میں کوئی تعاون نہیں ملا، الٹا آج اس کے گاؤں پر بھی بحریہ کے بدمعاش اور غنڈے افسران اور اہلکار پولیس کی معیت میں چڑھ دوڑے اور قابض ہونے کی کوشش کی
سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی متعدد ویڈیوز میں بحریہ ٹاؤن کی مشینری اور پولیس موبائلز کو علاقے میں داخل ہوتے اور گاؤں کی تعمیرات مسمار کرتے بھی دیکھا جاسکتا ہے
اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے مراد گبول کا کہنا تھا کہ بحریہ ٹاؤن کی مشینری کے ہمراہ علاقے کی 24 ایکڑ زمین پر قبضہ کرنے پہنچے اور جب انہوں نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ مزاحمت کی کوشش کی تو انتظامیہ کے لوگوں نے مجھے گھیر لیا اور تشدد کا نشانہ بنانا شروع کردیا
انہوں نے مزید کہا کہ چند سوٹڈ بوٹڈ افراد نے اپنے لوگوں کو مجھ پر تشدد کرنے اور مشینری کے لئے راستہ کلیئر کروانے کا حکم دیا، بعد میں پولیس اہلکاروں نے مجھے اپنی حراست میں لے لیا تب میں نے خود بحریہ ٹاؤن انتظامیہ کو پولیس پر میرے خلا ف مقدمہ درج کرنے کے لئے دباؤ ڈالتے دیکھا
مراد گبول کا مزید کہنا تھا کہ میں نے سندھ ہائی کورٹ میں بحریہ ٹاؤن انتظامیہ کے خلاف ایک پٹیشن فائل کی ہے میں اس معاملے پر خاموش نہیں بیٹھوں گا
اس پورے واقعے میں سندھ پولیس اور صوبائی حکومت کی جانب سے کسی قسم کا ردعمل سامنے نہیں آیا ہے
یاد رہے کہ مراد گبول کے والد فیض گبول بھی اس علاقے کو بحریہ ٹاؤن انتظامیہ سے بچانے کی لڑائی میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے کیونکہ انہوں نے یہ زمین بحریہ ٹاؤن کو بیچنے سے انکار کردیا تھا
کہا جاتا ہے کہ بحریہ ٹاؤن کے چیئرمین ملک ریاض نے فیض گبول کو اس وقت زمین فروخت کرنے کے بدلے ایک بلینک چیک کی پیشکش کی تھی جسے انہوں نے یہ کہہ کر ٹھکرادیا تھا کہ ”یہ زمین ہماری ماں ہے اور کسی کے ماں کی قیمت نہیں دی جاسکتی”
گزشتہ دنوں ملیر کے منتخب نمائندے پہلی بار مراد گبول کے پاس اظہار یکجہتی کے لیے پہنچے. ملیر کے سماجی حلقوں کا کہنا ہے کہ دیر سے ہی سہی لیکن ملیر کے منتخب نمائندوں کا اس حوالے سے متحرک ہونا ایک مثبت عمل ہے لیکن یہ اظہار یکجہتی محض علامتی نہیں ہونا چاہیے
سماجی حلقوں نے ملیر کے منتخب نمائندوں سے کہا ہے کہ وہ اب اس بات کو جان لیں کہ وہ اور ان کی بقا بھی ملیر اور اس کے لوگوں سے ہے، بحریہ اور ڈی ایچ اے سے نہیں. اس لیے اس بات کو ذہن نشین کر لیں کہ آپ کا جغرافیائی محل وقوع آپ کی طاقت ہے. اس لیے اب اچھے بچے بن کر چپ رہنے کا نہیں، زباں بندی توڑنے کا وقت ہے. اپنی طاقت اور قوت کو پہچانو… آپ لوگ سپر ہائی وے /ایم نائن اور نیشنل ہائی وے کے اطراف میں رہنے والے لاکھوں لوگوں کے نمائندے ہو، اِن اُن کے لیے چلو چلو کے نعرے لگانے کے لیے جب لوگ آپ کے کہنے پر نکل سکتے ہیں تو آپ کبھی ملیر اور اس کی بقا کے لیے سب یکمشت ہو کر سپر ہائی وے اور نیشنل ہائی وے بلاک کرنے کی کال دے کر دیکھیے. زرداری اور ملک ریاض آپ لوگوں کے سامنے گڑگڑانے پر مجبور ہو جائیں گے. یہی ایک واحد راستہ ہے کہ ہم بحریہ ٹاؤن، ڈی ایچ اے اور دیگر ریاستی اور غیر ریاستی اداروں اور مافیاؤں سے ملیر کی زمینوں کی حفاظت کر سکتے ہیں.