ماسکو: اکثر بچے اس حد تک سرگرم ہوتے ہیں کہ وہ کہیں بھی اپنی توجہ مبذول نہیں رکھ سکتے یا زیادہ دیر تک ایک جگہ اپنی توجہ مرکوز نہیں رکھ پاتے، لیکن اس کیفیت سے یوگا اور سانس کی مشقوں سے چھٹکارا پایا جا سکتا ہے
بعض بچے غیرمعمولی طور پر سرگرم ہوتے ہیں جنہیں ہاپئرایکٹو کہا جاتا ہے، وہ بہت جلد اپنی توجہ کھودیتے ہیں خواہ کھیل ہو، غذا ہو یا تعلیم۔ اس کی شدید کیفیت کو ایک مرض اے ڈی ایچ ڈی (اٹینشن ڈیفیسٹ ہائپرایکٹویٹی ڈس آرڈر) کہا جاتا ہے۔ ایسے بچوں کو جب خصوصی کلاسوں میں یوگا اور سانس کی مشقیں کرائی گئی تو ان کی طبعیت میں سکون اور توجہ میں اضافہ دیکھنے میں آیا
روس میں واقع اورل فیڈرل یونیورسٹی نے یہ تجربات کئے ہیں اور اس کی تحقیقات جرنل آف بائیلوجیکل سائیکائٹری میں شائع کرائی ہیں۔ اس میں 6 سے 7 برس کے ایسے 16 بچے شامل تھے جو اے ڈی ایچ ڈی کے شدید عارضے کے شکار تھے۔ یہ بچے اپنے والدین کے لیے بھی بہت پریشانی کی وجہ بن رہے تھے
یونیورسٹی میں دماغ اور اعصابیات کی تجربہ گاہ کے ماہر ڈاکٹر سرگائی کائسلوف کہتے ہیں کہ "اے ڈی ایچ ڈی” والے بچوں میں دماغی سرگرمیوں کو معمول پر رکھنے والا نظام متاثر ہوتا ہے۔ اس سے وہ انتشار کا شکار ہوتے ہیں اور ان کی توجہ بھٹکتی رہتی ہے
سائنسدانوں نے بچوں کو ایک جماعت کی صورت میں بٹھایا اور انہیں گہرے سانس کی مشقیں کرائی گئیں۔ اس سے دماغ میں آکسیجن اور خون کا بہاؤ بہتر ہوا اور اعصابی سکون ملا۔ اس کے علاوہ یوگا سے جسمانی تناؤ کم کرکے سکون میں لایا گیا تو بچوں پر اس کے بہت اچھے اثرات کا مشاہدہ کیا گیا
اس دوران طبی اور نفسیاتی ماہرین نے بھی بچوں کا جائزہ لیا۔ ان ورزشوں کا فرق بھی فوری طور پر دیکھا گیا ۔ کچھ بچوں نے ایک سال تک یوگا اور سانس کی مشقیں کیں تو ازخود وہ گہرے سانس کے عادی ہوگئے اور ان میں توجہ بہتر ہوئی، فکری اور ذہنی انتشار کم ہوا اور ان کے والدین نے بھی سکون کا سانس لیا
اس ضمن میں روسی نفسیاتی معالج اینا ثمینووچ نے تمام مشقوں کو مرتب کیا ہے۔ ان کے خیال میں یوگا اور سانس کی مشقوں سے "اے ڈی ایچ ڈی” کو کم کرنے میں غیرمعمولی مدد مل سکتی ہے.