ملیر ایکسپریس وے اور رنگ روڈ اسکینڈل میں کیا قدر مشترک ہے؟

نیوز ڈیسک

ملیر: ملیر ایکسپریس وے اور رنگ روڈ اسکینڈل میں کیا قدر مشترک اور مماثلت ہے؟ ان دنوں پاکستانی میڈیا میں راولپنڈی میں بننے والی رنگ روڈ میں اربوں روپے کے سکینڈل کا بہت چرچا ہے اور ماہرین اسے دوسرا پانامہ اسکینڈل قرار دے رہے ہیں اس میں بنیادی الزام یہ ہے کہ راولپنڈی رنگ روڈ کے ڈیزائن میں تبدیلی کرکے اسے ایسے علاقوں سے گذارا گیا اور ایسے راستے دیے گئے جن سے متعدد ہاؤسنگ سوسائٹیوں کی زمینوں کے مالکان کو فائدہ ہوا اور انہوں نے اربوں روپے بنائے اب اس کی تحقیقات کا مطالبہ ہو رہا ہے اور معاملہ صرف اینٹی کرپشن نیب اور ایف آئی اے تک نہیں رکا بلکہ جے آئی ٹی بنانے اور سپریم کورٹ کے جج سے مانیٹرنگ کرانے کا مطالبہ ہو رہا ہے. بالکل ویسے ہی جیسے نواز شریف کے کیس میں ہوا تھا اب راولپنڈی رنگ روڈ سکینڈل میں وزیراعلیٰ سے لے کر وزیر اعظم تک نام آ رہے ہیں، زلفی بخاری استعفی دے چکے ہیں ایک اور وفاقی وزیر پریس کانفرنس کر رہے ہیں کابینہ میں اس پر شور ہو رہا ہے میڈیا چیخ رہا ہے

دوسری طرف کراچی میں بننے والی ملیر ایکسپریس وے کی کہانی بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے کیونکہ یہاں بھی ان علاقوں سے یہ روڈ گزاری جا رہی ہے وہاں احتجاج بھی ہو چکا ہے یہاں کے اراکین اسمبلی پارٹی کے چیئرمین اور وزیراعلی سے روٹ اور ڈیزائن میں تبدیلی کے حوالے سے ملاقاتیں کر چکے ہیں. ڈپٹی کمشنر ملیر سمیت ملیر ایکسپریس وے کے پروجیکٹ ڈائریکٹر کو اس سلسلے میں خصوصی ہدایات مل چکی ہیں. یہ معاملہ بھی اتنا سیدھا اور سادہ نہیں ہے. ملیر ایکسپریس وے کے ذریعے ڈی ایچ اے سٹی اور بحریہ ٹاؤن کو تو فائدہ ہوگا لیکن راستے میں بھی زمینوں کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں.

ستائیس ارب روپے کی لاگت سے 39 کلومیٹر سے زائد ملیر ایکسپریس وے کی تعمیر کے حوالے سے بہت سے سوالات ذہن میں گردش کر رہے ہیں. بنیادی سوال یہ ہے کہ لیاری ایکسپریس وے کی موجودگی میں اس نئی ایکسپریس ہائی وے کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی، کیونکہ لیاری ایکسپریس وے کے ذریعے سپر ہائی وے کو شہر سے ملایا تھا اس پر بھی کافی لاگت آئی تھی اور اس کے ذریعے ایک تیز رفتار روٹ شہریوں کو میسر ہے لیکن لیاری ایکسپریس وے کی موجودگی میں اب ملیر ایکسپریس وے پر 27 ارب روپے خرچ کرنا بظاہر ڈیفنس فیز8 کو جبین سٹی فیز نائن سے منسلک کرنے اور بحریہ ٹاؤن جیسی بڑی ہاؤسنگ اسکیم کو براہ راست فائدہ پہنچانے کے سوا اور کچھ نظر نہیں آتا  جب کہ راستے میں آنے والی زمینوں کو ہڑپنے اور ان  کی قیمت بڑھانے اور مستقبل میں اربوں کھربوں روپے کمانے کا یہ ایک اور ذریعہ بن سکتا ہے. راستے میں آنے والے گوٹھ قبرستان و اور لوگوں کی تعمیرات کو ہٹایا گیا ہے. سستے داموں زمینیں خرید کر اب انہیں آنے والے دنوں میں ہاؤسنگ اسکیموں کے نام پر مہنگے داموں بیچنے کا منصوبہ ہے.

سندھ انڈیجنئس رائٹس الائنس  ملیر کے قدیمی باشندوں کے ساتھ مل کر یہاں سے گذرنے والی ملیر ایکسپریس وے کے حوالے سے پہلے ہی احتجاج کر رہی ہے. خود پیپلز پارٹی کے اراکین اسمبلی اس سلسلے میں پارٹی قیادت اور صوبائی حکومت کے سامنے اپنے خدشات اور تحفظات رکھ چکے ہیں. اس سلسلے میں سوشل میڈیا پر پہلے بھی کافی شکوک و شبہات کا اظہار کیا جا چکا ہے اور اب راولپنڈی ایکسپریس وے کا اسکینڈل سامنے آنے کے بعد لوگوں کو سمجھ آرہا ہے کہ ملیر ایکسپریس وے کے حوالے سے جو احتجاج ہو رہا تھا وہ بے بنیاد نہیں تھا. اس لیے راولپنڈی رنگ روڈ کے سکینڈل کے ساتھ ساتھ لگے ہاتھوں کراچی کی ملیر ایکسپریس وے کے حوالے سے بھی جو الزامات اور شکایات سامنے آتی رہی ہیں ان کی جانچ بھی کرا لینی چاہیے اور اگر وفاقی سطح پر کوئی انکوائری ہوتی ہے یا جوڈیشل انکوائری ہوتی ہے یا جی آئی ٹی بنتی ہے تو اس میں 27 ارب روپے مالیت کی ملیر ایکسپریس وے کے معاملات کی جانچ بھی شامل کر لینی چاہیے. آخر یہ بھی عوام کے ٹیکسوں کا پیسہ ہے جس کے ذریعے صرف غیر قانونی بحریہ ٹاؤن اور ڈی ایچ اے کو فائدہ پہنچانے کے لیے ملیر ایکسپریس وے بنائی جا رہی ہے. اگر یہ بنانی اتنی ضروری ہے تو اس کا ڈیزائن اس کا ماسٹر پلان اور اس میں بار بار ہونے والی تبدیلی اور اس کا فائدہ کسے کسے پہنچا ہے، اس کی تفصیلات سامنے آنے چاہیے.

یہ خبر بھی پڑھیں:

رنگ روڈاسکینڈل؛ زمین کی خریدو فروخت، وزرا اور 50 طاقتوروں نے فائدہ اٹھایا

کیا سپریم کورٹ ایک مرتبہ پھر سے بحریہ ٹاؤن کی سہولت کار بن جائے گی؟

رنگ روڈ… دوسرا پاناما اسکینڈل!

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close