کیا سپریم کورٹ ایک مرتبہ پھر سے بحریہ ٹاؤن کی سہولت کار بن جائے گی؟

نیوز ڈیسک

اسلام آباد : وزارت قانون کی جانب سے سپریم کورٹ میں پیش کی گئی ایک تازہ رپورٹ میں عدالت عظمیٰ کو بحریہ ٹاؤن (پرائیوٹ) لمیٹڈ (بی ٹی پی ایل) کے ساتھ ممکنہ مفاہمتی یادداشت (ایم او یو) کے بارے میں بتایا گیا ہے جس نے عدالت عظمیٰ کے ساتھ ملیر کی زمین کے تنازع پر معاہدے کے تحت 460 ارب روپے ادا کرنے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق رپورٹ میں کہا گیا کہ بحریہ ٹاؤن نے اسلام آباد اور کراچی میں بالترتیب 3 ہزار اور 2 ہزار اپارٹمنٹس پر مشتمل کم لاگت ہاؤسنگ اسکیموں کی تعمیر کے لیے نیا پاکستان ہاؤسنگ ڈویلپمنٹ اتھارٹی (نیپڈا) کو دو تجاویز پیش کی ہیں

ایڈیشنل اٹارنی جنرل سہیل محمود نے سپریم کورٹ عمل درآمد بینچ کے سامنے پیش کردہ رپورٹ میں کہا کہ ‘ان تجاویز کا جائزہ لیا جارہا ہے اور امکان ہے کہ نیپڈا ان تجاویز کے سلسلے میں بی ٹی پی ایل کے ساتھ ایک مفاہمتی یادداشت پر دستخط کرے گا’

واضح رہے کہ بینچ نے 21 مارچ 2019 کو کراچی کے علاقے ملیر میں 16 ہزار 896 ایکڑ رقبہ اراضی کی خریداری کے لیے بحریہ ٹاؤن کی چند شرائط و ضوابط پر 460 ارب روپے کی ادائیگی کی پیش کش منظور کی تھی

عدالت عظمیٰ کی جانب سے یہ پیشکش اپنے 4 مئی 2018 کے اس فیصلے پر عمل درآمد کے دوران کی گئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ سندھ حکومت کی جانب سے ایم ڈی اے کو دی گئی زمین اور اس کا نجی لینڈ ڈیولپرز بحریہ ٹاؤن کے ساتھ تبادلہ غیرقانونی تھا

سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا تھا کہ یہ زمین انکریمنٹل ہاؤسنگ اسکیم شروع کرنے کے لیے دی گئی تھی تاہم ایم ڈی اے نے بحریہ ٹاؤن کے ساتھ اس کا تبادلہ اپنی اسکیم شروع کرنے کے لیے کیا

اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وزارت قانون نے 21 اپریل کو نیپڈا سے ان پٹ مانگا تھا کہ آیا بی ٹی پی ایل تعمیراتی صنعت میں اہم کردار ادا کرتا ہے یا نہیں اور ڈویلپر، اتھارٹی کے ترقیاتی کام میں حصہ ڈال رہا ہے یا نہیں

اس کے جواب میں نیپڈا نے 23 اپریل کو ایک خط کے ذریعے بتایا تھا کہ بی ٹی پی ایل تعمیراتی صنعت میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور یہ دونوں ایک ایم او یو پر دستخط کرسکتے ہیں

تاہم وزارت قانون نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ وفاقی حکومت سپریم کورٹ کے سامنے استدعا کرے کہ قسطوں کی ادائیگی میں کسی قسم کی نرمی حتمی ادائیگی کے لیے عدالت کے سابقہ حکم میں آخری تاریخ کو متاثر نہیں کرنی چاہیے

اسی طرح قسطوں کی ادائیگی کے لیے حتمی ادائیگی کے لیے آخری تاریخ کو چھوڑ کر آخری تاریخ کو موخر کرنے پر عدالت کے طے کردہ مارک اپ کی ادائیگی کی جانی چاہیے

مزید برآں رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بی ٹی پی ایل کو ہدایت کی جائے کہ وہ اجازت کے بغیر کوئی فائدہ اٹھائے بغیر تمام قانونی شرائط اور ضروریات کو پورا کرے اور اگر بی ٹی پی ایل حکومت یا عدالت کے ساتھ کیے گئے اپنے وعدے کو پورا کرنے میں ناکام ہوتی ہے تو وفاقی حکومت کو یہ حق حاصل ہوسکتا ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے ذریعے منظور ہونے پر قسطوں کی ادائیگی کے لیے آخری تاریخ میں کسی بھی توسیع کو واپس لینے کے لیے درخواست دائر کرے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close