بلوچستان کا ایک ایسا علاقہ جسے 70 سال بعد سڑک مل گئی

ہزار خان بلوچ

نصیب ﷲ ایک پک اپ ڈرائیور ہیں۔ وہ نوکنڈی اور چاغی کے مرکزی شہر دالبندین سے مسافروں کو ایرانی سرحد سے متصل علاقے ماشکیل پہنچانے کا کام کرتے ہیں۔

ماشکیل بلوچستان کا ایک دورافتادہ پسماندہ علاقہ ہے، جہاں تک پہنچنے کے لیے کبھی کوئی باقاعدہ سڑک نہیں بنی۔

نصیب کہتے ہیں کہ ماشکیل تک کا سفر اگر کسی کے لیے مجبوری نہ ہو تو کوئی بھی کرنا پسند نہیں کرے گا، کیوں کہ یہ سفر ابتدا سے آخر تک تکالیف کا باعث ہے۔

انہوں نے بتایا کہ وہ  بڑے عرصے سے یہ کام کر رہے ہیں، اگر کسی دوسرے علاقے کا رہنے والا ماشکیل جانا چاہے تو وہ کبھی بھی مقامی شخص کی مدد کے بغیر اکیلے نہیں پہنچ سکتا۔

’میں جب مسافروں کو لے کر ماشکیل جاتا ہوں تو میری گاڑی کے اکثر پرزے سلامت نہیں رہتے اور ہر بار گاڑی دوبارہ چلانے سے پہلے مکینک کے پاس لے جانا پڑتی ہے۔‘

وزیراعظم پاکستان عمران خان نے دو دن قبل اسلام آباد میں ایک تقریب کے دوران نوکنڈی تک ماشکیل سڑک کی تعمیر کا سنگ بنیاد رکھا ہے۔

یہ دو رویہ سڑک کا ایک سالہ منصوبہ ہے جس پر سات ارب روپے لاگت آئے گی۔ سرکاری حکام کے مطابق اس منصوبے سے تقریباً چار ہزار لوگوں کو روزگار ملے گا۔

دالبندین سے ماشکیل تک کا سفر چھ سے سات گھنٹے میں طے  ہوتا ہے۔ سڑک بننے کے بعد نوکنڈی سے یہ فاصلہ کم ہوکر ایک یا دو گھنٹے کا رہ جائے گا۔

وزیراعظم عمران خان نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے اس علاقے کو بھلا دیا تھا۔ ’یہ علاقہ 70 سال سے پسماندگی کا شکار ہے۔ جو لوگ یا علاقے پیچھے رہ گئے ہیں۔ ان کو آگے لانے کی کوشش کررہے ہیں۔‘

ماشکیل بلوچستان کا ایسا علاقہ ہے جہاں کوئی مسافر گاڑی نہیں چلتی۔ کچھ لوگوں نے علاقے کے لیے بسیں چلانے کی کوشش کی لیکن سڑک نہ ہونے کے باعث انہوں نے یہ منصوبہ ترک کردیا۔

80 ہزار کی آبادی پر مشتمل  اس علاقے میں  ایک ڈاک خانے کے علاوہ کوئی دوسری سہولت میسر نہیں۔ علاقے کے مکینوں کا زیادہ تر انحصار ایران سے آنے والی اشیا پر ہوتا ہے۔

ماشکیل کے راستے میں دشوار گزاربگ کا علاقہ آتا ہے جسے ہامون ماشکیل بھی کہا جاتاہے۔ یہ ایک دلدلی علاقہ ہے، جہاں سے بارشوں کی صورت میں گزرنا کسی عذاب سے کم نہیں ہوتا۔

مقامی صحافی اور سماجی کارکن نصیر کبدانی بھی یہاں سے اکثر سفر کرتے رہتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں ’ہم نے خود دیکھا ہے کہ یہاں پر اکثر گاڑیاں بری طرح پھنس جاتی ہیں، جنھیں نکالنے میں کئی کئی دن لگ جاتے ہیں۔‘

نصیب ﷲ نے بتایا کہ بگ کے علاقے میں اگر کبھی ان گاڑی خراب ہوجائے تو اس وقت ان کی پریشانی کا اندازہ کوئی نہیں کر سکتا۔

واضح رہے کہ نوکنڈی یا دالبندین سے ماشکیل تک سفر کے دوران کوئی آبادی نہیں اور یہ تمام بنجر علاقہ ہے۔ یہاں چوری اور لوگوں کو لوٹنے کے واقعات عام ہیں۔

نصیر نے بتایا کہ جو ٹھیکے دار سڑک کی تعمیر کر رہے ہیں، انہیں بگ کے علاقے کی صورت حال کو مدنظر رکھنا ہوگا۔ یہ علاقہ 40 کلو میٹر سے زائد کا ہے، جو پوری سڑک کو متاثر کرسکتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ریکوڈک منصوبے پر کام کرنے والی کمپنی نے بھی اس علاقے کی مٹی کا تجزیہ کیا تھا، جس سے پتہ چلا کہ یہ مٹی زمین میں دھنسانے والی ہے۔

ضلع چاغی سے تعلق رکھنے والے ایک اور صحافی علی رضا رند، جو ماشکیل کے راستے اور وہاں کے مسائل سے واقف ہیں، نے بتایا کہ انہیں بھی ایک بار سفر کے دوران بگ میں گاڑیاں پھنسنے کے باعث مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ’جب 2013 میں ماشکیل میں زلزلہ آیا تھا تو کوئٹہ اور دیگر علاقوں سے صحافی علاقے میں کوریج کے لیے آئے تھے، جن کی گاڑیاں بگ کے علاقے میں اس بری طرح پھنس گئی تھیں۔ انہیں نکالنے کے لیے کئی گاڑیوں اور لوگوں کی مدد حاصل کی گئی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ چونکہ ماشکیل تک جانے کے لیے کوئی باقاعدہ راستہ نہیں اس لیے ہمارے ساتھ جانے والے بعض صحافی راستہ بھٹک گئے اور ایک دن کے بعد ماشکیل پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔

ماشکیل میں جہاں ایک طرف کھانے پینے کی ایرانی اشیا پر انحصار کیا جاتا ہے، وہیں اس علاقے میں روزگار کے ذرائع بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔

اس علاقے کے اکثر لوگوں کا ذریعہ معاش ایرانی پیٹرول اور ڈیزل کی سمگلنگ ہے، جو اب ایرانی سرحد پر باڑ لگنے اور حکومت کی طرف سے پابندی کے باعث ختم ہو رہا ہے۔

مقامی آبادی جہاں ماشکیل کو باقی دنیا سے منسلک کرنے کے لیے سڑک کی تعمیر پر خوش ہے، وہیں اسے یہ خدشہ بھی ہے کہ بگ کا مسئلہ حل نہ ہونے کی صورت میں یہ منصوبہ ناکامی سے دوچار ہو سکتا ہے۔

بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو، عرب میڈیا.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close