جنیوا : اسرائیل کی طرف سے محصور غزہ پر حالیہ اندھا دھند حملوں میں سیکڑوں عام فلسطینی شہری شہید ہوئے، جن میں بتیس فیصد عورتیں اور معصوم بچے تھے. اس اسرائیلی جارحیت کے بعد اقوام متحدہ کی ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق مشیل باشیلے نے مبہم انداز میں محض یہ کہا ہے کہ غزہ پر اسرائیلی حملے جنگی جرائم کے زمرے میں آ سکتے ہیں
یہ بات انہوں نے جنیوا میں اقوام متحدہ انسانی حقوق کونسل کے خصوصی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہی،حالانکہ مزید خود ہائی کمشنر مشیل باشیلے کا کہنا تھا کہ اگر غزہ پر اسرائیل نے بلاامتیاز اور اندھادھند بمباری اور فضائی حملے کیے ہیں تو یہ جنگی جرائم ہوسکتے ہیں، ان حملوں میں بڑے پیمانے پر عام فلسطینی شہریوں کی جانیں گئیں اور بہت تباہی ہوئی
وہ اپنے خطاب میں یہ نشان دہی بھی کر رہی تھیں کہ 20 لاکھ کی آبادی والے چھوٹے سے علاقے غزہ میں سرکاری عمارتوں، رہائشی گھروں، بین الاقوامی امدادی انجمنوں، طبی مراکز اور میڈیا دفاتر کو بھی نشانہ بنایا گیا
مشیل باشیلے نے یہ بھی تسلیم کیا کہ مجھے اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ غزہ میں اسرائیلی حملوں میں تباہ کی گئی عمارتوں کو فوجی مقاصد کے لیے استعمال کیا جارہا تھا، تاہم اس کے باوجود انہوں نے مبہم انداز میں کہا کہ اگر یہ حملے بلا امتیاز کیے گئے تو جنگی جرائم کے زمرے میں آتے ہیں
دوسری جانب انہوں نے غزہ کی حکمراں جماعت حماس پر بھی اسرائیل پر بلاامتیاز راکٹ حملے نہ کرنے پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ اسرائیل نے مبینہ طور پر غزہ میں مسلح گروپس اور ان کے عسکری نظام کو نشانہ بنایا، لیکن ان حملوں میں بڑے پیمانے پر عام شہری جاں بحق اور زخمی ہوئے جبکہ بہت زیادہ تباہی مچی اور شہریوں کے ساز و سامان کو شدید نقصان پہنچا، جس طرح اسرائیل کو اپنے شہریوں کے دفاع کا حق ہے اس طرح فلسطینیوں کا بھی حق ہے
یہ خصوصی اجلاس او آئی سی کے ایما پر پاکستان اور فلسطین کی درخواست پر بلایا گیا تھا
غزہ پر حالیہ اسرائیلی بمباری میں 253 فلسطینی شہید ہوئے جن میں 66 بچے تھے، جبکہ 1900 سے زائد افراد زخمی ہوئے، جن میں سے کئی زندگی بھر کے لیے معذور ہو گئے. اقوام متحدہ کی جانب سے غزہ کو دنیا کی سب سے بڑی جیل بھی کہا جا چکا ہے
اب اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے گزشتہ روز غزہ میں اسرائیل اور حماس کے مابین 11 روزہ تنازع کے دوران ہونے والے جرائم کی بین الاقوامی تحقیقات شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے
انسانی حقوق کونسل میں پیش کی گئی قرارداد منظور کر لی گئی، کونسل کے 47 رکن میں سے 24 نے قرارداد کے حق میں ووٹ دیا جبکہ 9 ووٹ مخالفت میں پڑے۔ 14 رکن نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا
قرارداد او آئی سی اور فلسطینی وفد کی طرف سے اقوام متحدہ میں لائی گئی۔ قرارداد کے تحت مشرق وسطیٰ میں عشروں سے جاری تنازعے کی بنیادی وجوہات بھی سامنے لائی جائیں گی
دوسری جانب اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر وولکن بوزکر کا کہنا ہے کہ فلسطین کے اہم معاملے پر بے عملی اقوامِ متحدہ اور سیکورٹی کونسل کی ساکھ کو نقصان پہنچا رہی ہے
نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد میں تاریخی خطاب کرتے ہوئے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر وولکن بوزکر کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ جنرل اسمبلی نے پچھلے ہفتے فلسطین کی صورتحال پر میٹنگ بلائی تاکہ سیکیورٹی کونسل کی خاموشی اور ڈیڈلاک کا ازالہ کیا جاسکے، اس اہم معاملے پر بے عملی اقوامِ متحدہ اور سیکورٹی کونسل کی ساکھ کو نقصان پہنچا رہی ہے، میں امید کرتا ہوں کہ سیکورٹی کونسل کی جانب سے بھی اس اہم اور ضروری مسئلہ پر متفقہ آواز سنائی دے گی
صدر جنرل اسمبلی نے کہا کہ انسانی حقوق اور بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی کے نتیجے میں سینکڑوں فلسطینیوں کی جانیں چلی گئیں، جن میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں
وولکن بوزکر کا کہنا تھا کہ اس وقت مذاکرات کی فوری ضرورت ہے تاکہ اسرائیلی قبضے کو ختم کیا جاسکے اور دو خود مختار ریاستوں کا قیام عمل میں آسکے، جو باہم امن سے رہیں اور 1967 سے قبل کی سرحدوں میں ہوں اور یروشلم دونوں کا دارالحکومت ہو، میں یقین دلاتا ہوں کہ مشرقِ وسطیٰ میں امن کی بحالی تک یو این جنرل اسمبلی آرام سے نہیں بیٹھے گی.