کراچی میں زیرِ تعمیر بحریہ ٹاؤن اور سندھ کا مستقبل (قسط 1)

گل حسن کلمتی

بحریہ ٹاؤن کراچی کی قبضہ گیری کو سطحی معلومات، مین اسٹریم میڈیا میں چلنے والی پراپیگنڈا پر مبنی پیڈ "خبروں” اور بحریہ ٹاؤن کے اشتہارات سے نہیں بلکہ تاریخی واقعات کے تسلسل کا جائزہ لینے کے بعد بآسانی سمجھ سکتے ہیں.

انگریزوں کے قبضے سے لے کر تاحال کراچی کی سرزمین پر جو غیرآئینی و غیرقانونی قبضے ہو رہے ہیں، ان سے فرزندان زمین تیزی سے اقلیت میں تبدیل ہو رہے ہیں۔ کراچی میں اس غیر قانونی قبضے کے اثرات سندھ کے مستقبل پر بھی مرتب ہور ہے ہیں ۔ قیام پاکستان کے بعد ترقی کے نام پر کئی گوٹھ اور تاریخی جگہیں اور قبرستان زمیں بوس کئے گئے ہیں۔ ترقی کے نام پر مقامی لوگوں کی زمینوں اور روزگار کے وسائل پر قبضے کر کے ایک منظم منصوبے کے تحت آبادی میں اضافہ کرنے کا عمل مسلسل جاری ہے.

ویسے تو کراچی کے مقامی لوگوں کے دکھوں ، تکالیف اور ان سے ہونے والی نا انصافیوں کی ایک طویل داستان ہے تاہم حقیقی معنوں میں دکھوں کی یہ کہانی تقسیم کے بعد شروع ہوتی ہے، جب کراچی کو سندھ سے علیحدہ کرکے وفاق میں شامل کیا گیا۔ بعدازاں سندھ کے عوام کے سخت احتجاج پر کراچی کو دوبارہ سندھ میں شامل کیا گیا۔ 1948ء کے بعد کسی نہ کسی طریقے سے یہ سازشیں جاری ہیں، کہ کسی بھی طرح کراچی کو سندھ سے الگ کرکے اسے جداگانہ حیثیت دلوائی جائے ۔ اس وقت بھی یہ تاریخی سرزمین انتہائی نازک اور گمبھیر دور سے گزر رہی ہے ۔ یہاں اندرونی طاقتوں سے لے کر بین الاقوامی قوتوں کا پختہ جال بچھا ہوا ہے ، جس کا اصل مقصد دھرتی کے مالکوں سے ان کی سونے جیسی زمین مختلف حیلوں بہانوں سے ہتھیانی ہے ۔ یہ سلسلہ کافی پرانا ہے ۔ مختلف بہانوں کے ذریعے ترقی و خوشحالی اور حکومتی پروجیکٹس کے نام پر لاکھوں ایکڑ زمین مختلف فیکٹریوں ، اداروں اور بلڈرز مافیاز کو دی گئی ہے ۔ یادر ہے کہ یہاں کا آدمی بنیادی طور پر زرعی اور ماہی گیر سماج سے تعلق رکھتا ہے، جس کی معاش کا وسیلہ زراعت ، مویشی بانی اور مچھلی کا شکار ہے۔

ایک طرف ترقی کے نام پر مقامی لوگوں کو بے دخل کیا جار ہا ہے تو دوسری جانب لاکھوں غیرملکی افغانیوں ، بنگالیوں، برمیوں ، ایرانیوں اور ہندوستانیوں کے علاوہ دوسرے صوبوں سے روزگار کے بہانے آنے والوں کو بڑی تیزی سے مختلف سیاسی تنظیموں اور حکومتی سر پرستی میں آباد کیا جا رہا ہے، جس کے نتیجے میں کراچی میں ایک ہزار سے زائد کچی آبادیاں ، کالونیاں اور جعلی گوٹھ بن گئے ہیں ۔ اس غیر قانونی قبضے کے باعث کراچی میں امن و امان کا مسئلہ انتہائی سنگین نوعیت اختیار کر گیا ہے ۔ کراچی شہر ہر قسم کے مافیاز اور جرائم پیشہ افراد کا مرکز بن گیا ہے ۔ ان مسائل کے باعث غیروں کی آبادکاری موجودہ سندھ کا سب سے اہم اور تشویش ناک مسئلہ بن گیا ہے.

انگریزوں نے کراچی پر 1839ء میں حملہ کیا اور 1843ء میں پورے سندھ پر قبضے کے بعد 1847ء میں سندھ کو بمبئی سے جوڑ کر کمشنریٹ کا درجہ دیا اور سندھ کو بمبئی کا ماتحت بنایا۔ انگریز دور میں جب کراچی بندرگاہ کو ترقی دی گئی ، کراچی کو ریلوے کے ذریعے پورے ہندوستان سے جوڑا گیا، تو یہاں روزگار اور تجارت و کاروبار کے وسیع مواقع پیدا ہوۓ ، یوں ہندوستان کے علاقوں بمبئی ، کچھ، گجرات ، مارواڑ ، گوا، پنجاب سے بڑی تعداد میں گجراتی، کچھی، میمن، مارواڑیوں، سلاوٹیوں، یہودیوں، گوئن، پارسیوں اور پنجابی مزدوروں، سوداگروں اور تاجروں نے کراچی کا رخ کیا۔ دوسری جانب ایرانی بلوچستان اور مکران سے بڑی تعداد میں بلوچوں نے مزدوری کے لیے کراچی کا رخ کیا۔ انگریز دور میں آنے والے یہ لوگ سندھی قوم کا حصہ بن گئے اور انہوں نے اپنا تعلق دھرتی سے جوڑ لیا.

1725ء میں بھوجو مل جب مقامی تاجروں کے ساتھ یہاں آئے اور 1729ء میں 35 ایکڑ پر قلعہ تعمیر کر کے آ کر رہے تو یہ ساحلی گوٹھ انگریزوں کے قبضے کے وقت اہم کاروباری، ثقافتی و سماجی مرکز بن گیا۔ انگریزوں کے قبضے 1843ء سے لے کر 1856ء تک شہر کی آبادی بڑھ کر 57 ہزار ہوئی۔ بندرگاہ کی ترقی و توسیع کا کام سر چارلس نیپیئر کے دور میں 1843ء میں شروع ہوا۔ 1870ء میں کراچی ہاربر ورکس کا ادارہ قائم کیا گیا۔ بمبئی لیجسلیٹو کونسل نے 1886ء میں کراچی پورٹ ٹرسٹ ایکٹ نمبر 6 مجریہ 1886 منظور کیا اور ہاربر بورڈ کو ختم کرکے ’’کراچی پورٹ ٹرسٹ‘‘ کی داغ بیل ڈالی گئی ، جس سے مقامی لوگوں اور تاجروں کا بندرگاہ کے انتظامات اور ٹیکس سے براہ راست تعلق قائم ہوا۔ کاروبار کو ترقی ملی اور بڑی شپنگ کمپنیوں نے یہاں آمدورفت شروع کی تو کراچی بندرگاہ خطے کا اہم ترین مرکز بن گئی۔

1861ء میں کراچی ، کوٹری ریلوے لائن مکمل ہوئی۔ 1879ء میں حیدرآباد، ملتان ، 1887ء میں کوٹری ،کوئٹہ کے درمیان ٹرینیں چلنے لگیں۔ اس طرح کراچی کا تعلق براہ راست ریل کے ذریعے پورے ہند وستان سے جڑ گیا ، جس سے بڑی تعداد میں ہندوستان ، پنجاب ، شمالی علاقوں اور سندھ کے دیگر اضلاع سے مزدوروں اور تاجروں نے کراچی کا رخ کیا۔

1923ء میں کراچی ائیر پورٹ کی تعمیر مکمل ہوئ ۔ قبل ازیں ایئر فورس کے دو ایئر پورٹ تھے۔ 1918ء میں ماڑی پور ایئربیس ہیں اور 1928 ء ڈرگ روڈ ایئربیس کو کمل کیا گیا۔ ان کی تعمیر سے کراچی کا تعلق پوری دنیا سے جڑ گیا ، جو سندھ کی تاریخ میں ایک اہم سنگ میل تھا۔

1861ء میں’ بینک آف کراچی‘ کے قیام سے سندھ میں بینکاری نظام کی شروعات ہوئی۔ 1860ء میں کراچی چیمبرز آف کامرس ، 1902 میں کراچی کی انڈین مرچنٹس ایسوسی ایشن ، 1916 میں چیمبرز آف بائرز اینڈ شپرز ،1933ء میں کراچی کاٹن ایسوسی ایشن جیسے ادارے قائم ہوۓ تو اس خطے میں ایک معاشی انقلاب آیا، یہ ادارے یہاں کے لوگوں کے حوالے تھے جنہوں نے سندھ کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ، اور ساتھ ہی ساتھ ان اداروں کے قیام سے بڑی تعداد میں باہر کے لوگوں نے کراچی کا رخ کیا۔ 1947ء میں برصغیر کی تقسیم نے آبادی کے توازن اور یہاں کے معاشی توازن کو بگاڑ دیا۔ تقسیم کے وقت موجودہ پاکستان سے 47 لاکھ ہندو اور سکھ یہاں سے نقل مکانی کرکے ہندوستان چلے گئے ۔ جب کہ تقریبا 65 لاکھ مسلمان ہندوستان سے نقل مکانی کرکے پاکستان کی طرف آئے، جو سندھ اور پنجاب میں آ کر آباد ہوۓ۔ آبادی کے اس غیر فطری اضافے کا دباؤ اور اثر سب سے زیادہ سندھ کے شہروں پر پڑا۔ 1941ء اور قیام پاکستان کے بعد 1951ء میں جو آدم شماری ہوئی تو کراچی اور حیدرآباد کی آبادی میں 150 فیصد اضافہ ہوا۔ 1941ء کی آدم شماری کے مطابق سندھ میں اردو بولنے والے 23 ہزار تھے ۔ 1951ء میں ان میں 1380 فیصد اضافہ ہوا اور ان کی تعداد بڑھ کر 4,79,000 ہوگئی.

ضلع کراچی میں 1941ء کی آدم شماری کے مطابق مختلف زبانیں بولنے والوں کی صورت حال بمطابق ذیل تھی:

1961ء سے 1998ءتک سندھ کے مختلف اضلاع میں آبادی میں اضافے کی صورت حال درج ذیل جدول دی جاتی ہے۔

سندھ کی ضلع وار آدم شماری کی فہرست 1998-1961

آبادی کے اس سیلاب نے سندھ کے شہروں کو زیادہ متاثر کیا، جس میں کراچی سب سے زیادہ متاثرہ شہروں میں شامل تھا، جس کے باعث سندھ میں سخت بے چینی کی لہر پیدا ہوئی ۔ کراچی جو سندھی میڈیم اسکول، سندھی رسائل، اخبارات اور ثقافتی اداروں کا مرکز تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے سندھیوں کے لیے اجنبی شہر بن گیا ۔ ماضی میں ہونے والی ان سازشوں کا ذکر، جو وژن 2020 میں شامل ہیں، تفصیل سے مضمون “کراچی میں زیرِ تعمیر و تغیّر شدہ رہائشی اسکیمیں‘‘ میں کیا گیا ہے۔

جب وژن 2020 کا اعلان کیا گیا تو ضلع ملیر کی دیہیں کاٹھوڑ، بائل، لنگھیجی، بولہاڑی، حُدر واہ، کرمتانی، لٹھ اور پرانی یونین کونسل موئیدان کی 12 دیہیں شامل نہیں تھیں۔ موئیدان کی 12 دیہیں جو وائیلڈ لائف کھار سینکچری میں شامل ہیں ۔ کاٹھوڑ ، بائل ، لنگھیجی ، بولہاڑی، گڈاپ، حدر واہ ، کرمتانی لٹھ وائیلڈ لائف سپورٹ ایریا میں ہیں اور مکمل طور پر پہاڑی علاقوں میں ہونے کے باعث محفوظ تھے ۔

جاری ہے



Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close