وہ مدرسہ، جہاں قرآن اشاروں کی زبان میں حفظ کیا جاتا ہے

ویب ڈیسک

یہ اسلامی بورڈنگ اسکول انڈونیشیا کے شہر یوگیاکارتا کے پرسکون مضافات میں واقع ہے، دلچسپ بات یہ ہے کہ عام مدارس کے برعکس اس مدرسے سے کبھی بھی تلاوتِ قرآن کی آوازیں نہیں سنائی دیتیں

دراصل یہ سماعت سے محروم بچوں کے لیے مخصوص ایک مذہبی بورڈنگ اسکول ہے۔ یہاں طلبہ عربی اشاروں کی زبان میں قرآن کی تلاوت سیکھتے ہیں

انڈونیشیا کی وزارت مذہبی امور کے مطابق اسلامی بورڈنگ اسکول ملک میں زندگی کا ایک لازمی حصہ ہیں، جہاں تقریباً چالیس لاکھ طلبہ ملک بھر کے ستائیس ہزار اداروں میں مقیم ہیں۔ لیکن یہ ادارہ آبادی کے لحاظ سے دنیا کے سب سے بڑے مسلم ملک انڈونیشیا کے ان گِنے چُنے اداروں میں سے ایک ہے، جہاں سماعت سے محروم بچوں کو مذہبی تعلیم دی جاتی ہے

اس اسکول کے بانی ابوکہفی کا کہنا ہے ”یہ سب میری بے چینی سے ہوا، جب مجھے پتہ چلا کہ انڈونیشیا میں بہرے بچے اپنے مذہب کے بارے میں نہیں جانتے‘‘

اڑتالیس سالہ ابوکہفی کی سن 2019ع میں چند بہرے افراد سے دوستی ہوئی اور اس وقت انہیں یہ احساس ہوا کہ اسلام کے حوالے سے ان کے پاس کوئی زیادہ معلومات نہیں ہیں

اب ان کے اسکول میں ملک بھر سے ایک سو پندرہ ایسے بچے اور بچیاں داخل ہو چکے ہیں، جو اشاروں کی زبان میں قرآن کو حفظ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں

مدرسے میں قطاروں میں بیٹھے ہوئے بچوں کی نظریں کتابوں پر جمی ہوتی ہیں اور ان کے ہاتھ تیزی سے حرکت کر رہے ہوتے ہیں۔ فضا میں صرف اسی وقت کوئی گونج سنائی دیتی ہے، جب کوئی بچہ کلاس کے سامنے اشاروں کی زبان میں قرآن سناتا ہے اور پھر ابوکہفی مسرت سے اس کے ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہیں

یہ ان بچوں کے لیے ایک مشکل مذہبی تعلیم ہے، جنہوں نے کبھی مذہب یا قرآن کے بارے میں نہیں سیکھا اور جن کی مادری زبان انڈونیشیائی ہے۔ ابوکہفی بتاتے ہیں، ”یہ بہت ہی مشکل ہے۔‘‘

لڑکوں کے کلاس روم سے کوئی سو میٹر کی دوری پر لڑکیوں کا کلاس روم ہے اور وہاں بھی بالکل ایسی ہی پریکٹس چل رہی ہوتی ہے۔ بیس سالہ طالبہ لیلہ دھیا الحق کے لیے اس اسکول میں پڑھنا اس کے والدین کے لیے خوشی اور فخر کا باعث ہے۔ وہ اس اسکول کی سب سے پرانی طالبہ بھی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں ”میں اپنی ماں اور باپ کے ساتھ جنت میں جانا چاہتی ہوں اور میں اس جگہ کو بھی چھوڑنا نہیں چاہتی‘‘

عام مدارس میں بچے متن کو اونچی آواز میں پڑھتے ہیں اور آیات کو حفظ کر لیتے ہیں لیکن سماعت سے محروم بچوں کو تیس حصوں پر مشتمل قرآن کے ہر ہر حرف کو بڑی محنت کے ساتھ یاد رکھنا پڑتا ہے

تیرہ سالہ محمد رافع دو برس قبل یہاں داخل ہوئے تھے اور وہ قرآن کے نو سپارے حفظ کر چکے ہیں۔ ان کا ایک مترجم کے ذریعے کہنا تھا، ”میں یہاں بہت خوش ہوں۔ گھر میں میرے لیے بہت خاموشی ہوتی تھی کیوں وہاں سب نارمل ہیں اور کوئی بھی بہرا نہیں ہے‘‘

اس اسکول کے بچوں کے اخراجات خود ابوکہفی اور مخیر حضرات اٹھاتے ہیں، کیوں کہ یہاں پڑھنے والے زیادہ تر بچوں کا تعلق غریب گھرانوں سے ہے اور وہ کتابوں، یونیفارم اور دیگر رہائشی اخراجات کے لیے ماہانہ ایک ملین روپے (68 ڈالر) کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے

اس بورڈنگ اسکول میں بچے اسلامی قانون، ریاضی، سائنس اور غیر ملکی زبانیں بھی پڑھتے ہیں تاکہ وہ مستقبل میں اعلیٰ سطح پر اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں

اس اسکول کا معاشرتی اثر یہ بھی ہے کہ ان سماعت سے محروم بچوں کے اعتماد میں اضافہ ہو رہا ہے، جنہیں اکثر امتیازی سلوک کا سامنا رہتا ہے

اسکول میں پڑھنے والے گیارہ سالہ بچے کے والد زینل عارفین بتاتے ہیں ”میرے بیٹے میں بہت کم خود اعتمادی تھی، وہ جانتا تھا کہ وہ مختلف ہے۔ لیکن وہ جب سے یہاں آیا ہے، اسے لوگوں کے سامنے آنے میں شرم محسوس نہیں ہوتی۔ اس نے مجھے بتایا کہ خدا نے اسے ایسے ہی بنایا ہے اور اس نے خود کو اس حالت میں تسلیم کر لیا ہے‘‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close