سنہ 1947ع میں تقسیم ہند کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال نے انڈیا اور پاکستان دونوں کے لیے آزادی کی خوشی کو گہنا دیا تھا۔ کھینچی گئی سرحدوں کے دونوں جانب نئی نئی وجود میں آنے والی ریاستیں مذہبی فسادات سے شدید متاثر تھیں۔
پنجاب اور مغربی بنگال میں بسنے والے شہری خطرناک سفر کر کے ایک جگہ سے دوسری جگہ ہجرت کر رہے تھے۔ اس سفر کے لیے کچھ لوگوں نے ٹرین کو ترجیح دی اور کچھ نے گاڑیوں کو اور جنھیں یہ سفری ذرائع دستیاب نہ تھے وہ اپنا مال و متاع لیے پیدل ہی عازم سفر ہو رہے تھے۔
اسی دوران موجودہ پاکستان کے صوبہ سندھ سے ہزاروں افراد کشتیوں کے ذریعہ ممبئی پہنچ رہے تھے۔
سندھ میں بسنے والے ہندو کراچی بندرگاہ پر جمع ہوتے اور بحری جہاز کے ذریعے انڈیا پہنچ جاتے۔ اُن بحری جہازوں میں سے بہت سے جہاز گجرات کے ساحل پر بھی لنگر انداز ہوئے۔
ایسے ہی پناہ گزینوں میں نانک منگلانی اور ان کا خاندان بھی شامل تھا۔ نانک منگلانی اُس وقت کو یاد کرتے ہوئے آج بھی جذباتی ہو جاتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں ’اگرچہ میں بہت چھوٹا تھا مگر اُس دور کی یادیں آج بھی میرے ذہن میں واضح ہیں۔‘
تقسیم سے قبل منگلانی خاندان سندھ کے ضلع لاڑکانہ میں رہتا تھا۔
نانک بتاتے ہیں کہ ’میرے والد ایک کسان تھے جو راتو ڈیرو نامی علاقے کے قریب رہتے تھے۔ یہ ایک چھوٹا سا خوبصورت گاؤں تھا جس میں کھیت اور پہاڑیاں تھیں۔ وہ خوشی کے دن تھے۔ لیکن تقسیم کے بعد سب کچھ بدل گیا۔ تقسیم کے اعلان کے کچھ ہفتوں کے بعد ہی صورتحال اتنی خراب ہوگئی کہ ہمارے کنبے کو اپنے علاقے سے نکلنا پڑا۔ وہ ایک خطرناک اور ڈراؤنا سفر تھا۔‘
وہ یاد کرتے ہیں کہ تقسیم کے اعلان کے بعد لوگوں کی زندگی راتوں رات بدل چکی تھی، بہت سے وہ لوگ جن کے بارے میں معلوم تھا کہ وہ ہجرت کریں گے اُن کے مکانوں اور زمینوں پر قبضے کر لیے گئے تھے۔ بہت سے لوگوں نے نا صرف اپنے آبائی مکان اور گاؤں چھوڑے بلکہ وہ اپنے پیچھے سینکڑوں برس کی میراث چھوڑنے پر مجبور تھے۔
نئی منزلوں کے راہی ان افراد میں سے بہت سے غم میں مبتلا تھے، کچھ بےتحاشہ تھکے ہوئے تھے، کچھ خالی پیٹ تھے اور کچھ ایسے تھے جو کئی کئی روز سے سو نہیں پائے تھے۔ انھیں اپنے مستقبل کے بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا۔ وہ اپنے ہی ملک میں اجنبی بننے کے بعد اب ایک نئے ملک کی جانب سفر کر رہے تھے۔
جب صوبہ سندھ سے آنے والے اِن سندھی پناہ گزینوں کے جہاز ممبئی کے ساحل پر لنگر انداز ہوئے تو ایسا نہیں تھا اُن کی پریشانیاں ختم ہو چکی تھیں۔ انھیں بسوں اور گاڑیوں میں سوار کروایا گیا اور سیون اور بوری ولی جیسے مقامات پر قائم عارضی کیمپوں میں بھیج دیا گیا۔
یہاں سے انھیں انڈیا کے دیگر شہروں کی جانب سفر پر روانہ ہونا پڑا۔ ان میں سے بہت سے لوگ پمپری، کولہاپور جیسی جگہوں پر پہنچے۔ بہت سے لوگوں کو ممبئی سے 30 کلومیٹر دور کلیان کیمپ میں رکھا گیا تھا۔
برطانوی فوجیوں کے لیے موجود بیرکوں میں پاکستان سے آنے والے سندھی خاندانوں نے اپنا گھر بنایا۔ بعد میں یہی علاقے بڑی سندھی کالونیوں میں بدل گئے۔تھوڑے ہی عرصے میں یہاں ایک نیا شہر نہ صرف بس چکا تھا بلکہ پھل پھول رہا تھا۔
یہ پناہ گزینوں کے شہر الہاس نگر کی کہانی ہے۔
° کلیان سے الہاس نگر
برطانوی حکمرانوں نے دوسری عالمی جنگ کے دوران کلیان اور امبر ناتھ کے درمیان واقع علاقوں میں پانچ کیمپ لگائے تھے۔ یہ جگہ الہاس دریا کے کنارے ہے اور ممبئی کو کرجت سے ملانے والی مصروف ریلوے لائن یہاں سے گزرتی ہے، جو آگے پونے اور پھر جنوبی انڈیا کے شہروں تک جاتی ہے۔
چونکہ یہ جگہ سٹریٹیجک اعتبار سے اہم تھی اسی لیے برٹش ایئرفورس نے یہاں اپنا ایک بیس بھی بنا رکھا تھا۔ اسی علاقے میں واقعے ایک گاؤں نیوالی میں اب بھی ایئرسٹرپس موجود ہیں۔
آج اس علاقے میں قائم شہر ترقی کی منازل طے کر رہا ہے لیکن 70 سال پہلے یہ ممبئی کے دارالحکومت سے دور ایک اکیلا اور پُرسکون علاقہ تھا۔
الہاس نگر کے سابق میئر ہرداس مکھیجا بتاتے ہیں کہ بجلی اور پانی کی سپلائی جیسی بنیادی سہولیات کو تو چھوڑیے، اُس وقت یہاں تک پہنچنے کے لیے سٹرکیں موجود نہیں تھیں، اس علاقے میں سانپ اور بچھو بکثرت گھومتے تھے۔
ہرداس صرف چار ماہ کے تھے جب اُن کے والد سنمُکھ مکھیجا نے سنہ 1948 میں صوبہ سندھ چھوڑنے اور انڈیا آنے کا فیصلہ کیا تھا۔ ہرداس کے والد ایک فریڈم فائٹر تھے لیکن سندھ کے بہت سے دوسرے نوجوانوں کی طرح تقسیم کے اعلان کے ساتھ ہی اُن کے خواب بھی چکنا چور ہو گئے تھے۔
73 سال گزرنے کے باوجود ہرداس کو کلیان کیمپ میں گزارے اپنے دنوں کی یادیں بہت پسند ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ لوگ فوجی بیرکوں میں رہتے تھے جہاں علیحدہ علیحدہ کمرے نہیں تھے اور بہت سے لوگ اپنی پرائیویسی کو قائم رکھنے کے لیے کپڑے کے پردے ڈال دیتے تھے۔
وہ یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ‘حکومت نے ہجرت کر کے آنے والوں کو راشن کی غرض سے گندم دی تھی مگر اس علاقے میں اسے پیسنے کے لیے مل نہیں تھی۔ ہم اپنی گندم پسوانے کے لیے کلیان میں واقع چکی جاتے تھے۔’
ان انتہائی مشکل حالات میں سندھ سے آنے والے یہ لوگ نئی زندگی کی ابتدا کرنا سیکھ رہے تھے۔ یہاں آنے والے پناہ گزینوں کی تعداد 90 ہزار کو عبور کر چکی تھی۔ حکومت نے ان کے لیے نیا شہر بنانے کا فیصلہ کیا اور پاکستان سے آنے والے پناہ گزینوں کو اس میں آباد کیا گیا۔
آٹھ اگست سنہ 1949 کو گورنر جنرل سی راجگوپالاچاری نے نئے شہر کا سنگ بنیاد رکھا۔ الہاس دریا کے کنارے آباد اس شہر کا نام الہاس نگر رکھا گیا اور اس طرح ماضی میں دریائے سندھ کے کنارے جو ثقافت پروان چڑھ رہی تھی اسے دریائے الہاس کے کنارے ایک نیا مقام ملا۔
° انڈیا کا ’منی سندھ‘
تقسیم ہند کے نتیجے میں پنجاب اور بنگال دو حصوں میں تقسیم ہوئے تھے یعنی ان کا کچھ حصہ پاکستان میں آیا اور کچھ انڈیا میں۔ مگر اس کے برعکس پورا صوبہ سندھ پاکستان کے حصے میں آیا۔
انڈیا میں آنے والے سندھیوں کا انڈیا میں اپنا کوئی آبائی وطن نہیں تھا، لہذا سندھ سے آنے والوں نے الہاس نگر کو اپنا شہر بنایا جہاں آج بھی اُن کی ثقافت اور زبان پروان چڑھ رہی ہے۔
الہاس نگر میں بسنے والے سندھی ہندو مذہب کے پیروکار ہیں۔ وہ جھولے لال کی پوجا کرتے ہیں۔ وہ سندھی تہوار جیسا کہ ’چالیہو صاحب‘ اور ’تیجادی چھینی چند‘ پورے جوش و جذبے کے ساتھ مناتے ہیں۔ سندھ میں بسنے والے سکھ خاندان بھی سندھی ہندوؤں کے ساتھ یہاں آئے اور الہاس نگر میں آباد ہوئے اور اسی لیے اس شہر میں بہت سے بڑے گروداوارے بھی ہیں۔
یوٹیوب سے مشہور ہونے والے آرٹسٹ آشیش چنچلانی کا کہنا ہے ’الہاس نگر میں جو میراث ہمارے پاس ہے وہ میرے لیے قیمتی ہے۔ اب دوسرے علاقوں میں بھی سندھی کھانے کا بہت چرچا ہے اور لوگ سندھی کھانوں کی بھی تعریف کرتے ہیں۔‘
الہاس نگر میں واقع سی ایچ ایم کالج اور آر کے ٹی کالج میں دور دراز مقامات سے بھی نوجوان تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے آتے ہیں۔ ان اداروں نے بہت سے نوجوانوں کو آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کیے ہیں۔
جس طرح ایک پودا کو ایک جگہ سے اکھاڑ کر کسی دوسری جگہ لگایا جاتا ہے تو وہ وہاں بھی اپنی جڑیں جما لیتا ہے بالکل اسی طرح سندھ سے آنے والوں نے الہاس نگر میں اپنی آبادکاری کی۔ تاہم سندھ سے آنے والے تمام پناہ گزین سندھی النسل نہیں تھے۔
ایک زمانے میں برطانوی راج کے دوران سندھ بمبئی ایوان صدر کا حصہ تھا۔ کراچی کے بہت سے کالج بمبئی یونیورسٹی کے ماتحت تھے۔
یہی وجہ تھی کہ مہاراشٹرا سے تعلق رکھنے والے بہت سے مراٹھی افراد سندھ خصوصاً کراچی میں آباد ہو چکے تھے۔ ان میں سے بیشتر کا تعلق گوا اور کونکن علاقوں سے تھا۔ سینیئر صحافی دلیپ مالوانکر کے والد بھی ایسے ہی لوگوں میں شامل تھے۔
مالوانکر کہتے ہیں ’والد کراچی پورٹ ٹرسٹ میں اپنے چچا کے ساتھ کام کرتے تھے۔ وہ تقسیم ہند کے بعد انڈیا آئے تھے۔ یہاں آنے کے بعد انھیں ممبئی پورٹ ٹرسٹ میں ملازمت ملی اور الہاس نگر اُن کا گھر بن گیا۔‘
تقسیم ہند کے بعد سندھیوں کے علاوہ کراچی سے آ کر الہاس نگر میں آباد ہونے والے مراٹھی عوام نے اپنی الگ شناخت برقرار رکھی۔ اُن کی تنظیمیں جیسا کہ سندھ مہاراشٹریا سماج اور شری کالیکا کلا منڈل آج بھی چل رہی ہیں۔
° الہاس نگر میں سندھی، مراٹھی تناؤ
یہاں بسنے والے، اُن کی قومیت جو بھی تھی، پناہ گزینوں کے مسائل اگرچہ ایک جیسے تھے لیکن اِس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ اُن کے آپسی تعلقات اچھے تھے۔
یہاں بسنے والے سندھی اور مراٹھی افراد اپنی ثقافت اور زبان کو بچانے کی کوشش کر رہے تھے اور اسی وجہ سے ان کے مابین کشیدگی کا اندیشہ تھا۔ یہ صرف نظریاتی کشمکش ہی نہیں تھی بلکہ بعض اوقات صورتحال فسادات اور کرفیو تک پہنچ جاتی تھی۔
یہ کشمکش الہاس نگر کے قیام کے ابتدائی دنوں سے شروع ہوئی تھی۔ سندھی بولنے والے لوگ چاہتے تھے کہ اس شہر کا نام سندھو نگر رکھا جائے۔ ہرداس مکھیجا کا کہنا ہے کہ اسی مسئلے کو لے کر بہت ساری لڑائیاں اور مظاہرے بھی ہوئے۔
دلیپ مالوانکر کہتے ہیں ’سندھی لوگ زیادہ تعداد میں تھے اور یہاں صرف سندھی زبان بولی جاتی تھی۔ سرکاری طور پر صرف یہ زبان استعمال ہوتی تھی۔ غیر سندھی پناہ گزین، جن میں مراٹھی اور گجراتی شامل تھے اس صورتحال سے خوش نہیں تھے اور انھی بنیادوں پر اکثر جھگڑے ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن 1995-96 کے بعد سے صورتحال بدلی ہے۔ اب کوئی تلخی نہیں ہے اور ہر شخص ہم آہنگی سے رہتا ہے۔‘
° الہاس نگر میں کاروبار
جب سندھی یہاں پہنچے تو اُن کے ہاتھ خالی تھے۔ اگرچہ انھیں اپنا سر چھپانے کے لیے جگہ تو مل گئی تھی لیکن دو وقت کی روٹی ملنا ایک بڑا سوال تھا۔
ان دنوں کو یاد کرتے ہوئے نانک منگلانی کہتے ہیں ’لوگ یہاں سے گزرنے والی لوکل ٹرینوں میں اشیائے ضروریہ اور کھانے پینے کا سامان فروخت کرتے تھے۔ انھیں جو بھی کام ملتا تھا وہ کرتے تھے۔ میں نے بھی سٹیشن میں پورٹر کی حیثیت سے کام کیا۔ وہ دکانوں اور فیکٹریوں میں کام کرتے تھے۔ وہ وقت ایسا تھا کہ پیٹ بھرنے کے لیے ایک جدوجہد جاری تھی۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ پھر یہاں کے لوگوں نے اچار بنانا شروع کیا، وہ گھر میں ٹافی اور بسکٹ تیار کرتے اور انھیں ٹرینوں اور بستیوں میں فروخت کرتے۔ وہ ممبئی میں گھر گھر جاکر سامان فروخت کرتے تھے۔
پھر آہستہ آہستہ سندھی خاندانوں نے اپنے کاروبار جمانا شروع کیے اور الہاس نگر میں بازار آباد ہونا شروع ہوئے۔ فرنیچر مارکیٹ، گجانند مارکیٹ (جہاں کپڑے فروخت ہوتے ہیں) اور جاپانی مارکیٹ وغیرہ قائم ہوئیں۔ نائیلون اور پلاسٹک سے سامان بنانے والی فیکٹریاں لگائی گئیں۔
اور آہستہ آہستہ الہاس نگر بڑھتا ہی گیا۔
اب صورتحال یہ ہے کہ ڈینم جینز کی تیاری کے لحاظ سے ملک کے بڑے شہروں میں سے ایک الہاس نگر ہے۔ سنچری ریوون جیسی کمپنیاں یہاں سے کام کر رہی ہیں۔
کاروباری دنیا میں سندھی برادری کی کامیابی معاشیات میں تحقیق کا موضوع بن گئی۔ سی ایچ ایم کالج الہاس نگر کے ڈاکٹر منجو پاٹھک نے اس موضوع پر ایک تحقیق کی ہے۔
تحقیق کے مطابق ’تقسیم ہند سے پہلے ہی سندھی برادری ملک کے اندر اور بین الاقوامی سطح پر ہجرت کر رہی تھی۔ ہجرت کرنے والے افراد معاشی طور پر خود کو بحال کرنے میں ترقی پسند اور جارحانہ ہوتے ہیں۔ سندھی بھی اس سے مستثنیٰ نہیں تھے۔‘
سندھی لوگوں کے طریقہ کاروبار پر روشنی ڈالتے ہوئے وہ لکھتی ہیں کہ ’سندھی لوگ گاہک کو خدا سمجھتے ہیں۔ وہ منافع بڑھانے سے زیادہ فروخت بڑھانے پر زور دیتے ہیں۔‘
مثال دیتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ ’ایک بڑی دکان جو برانڈڈ شرٹس فروخت کرتی ہے وہ ایک گاہک کو شرٹ بیچ دے گی مگر چار دیگر گاہکوں کو بتائے گی کہ آپ اس شرٹ کو خریدنے کے متحمل نہیں ہو سکتے ہیں (یعنی برانڈڈ چیزیں خریدنے کی سکت ہر صارف میں نہیں ہوتی) لیکن الہاس نگر کے کیمپ ٹو مارکیٹ میں دکانداروں کی حکمت عملی مختلف ہے۔ وہ مختلف صارفین کو مختلف قیمتیں بتاتے ہیں۔ وہ آپ کو وہ قیمت بتائیں گے جو آپ ادا کر سکتے ہیں۔ وہ زیادہ فروخت کر کے منافع کماتے ہیں۔‘
اس کاروبار نے الہاس نگر میں کاٹیج انڈسٹری یعنی گھریلو صنعت کو فروغ دیا جس میں آس پاس کے شہروں سے بھی لوگ کام پر آتے ہیں۔ لیکن الہاس نگر ’جعلی مصنوعات‘ بنانے کے حوالے سے بھی بدنام ہوا۔
یہاں تک کہ اسے انڈیا کا ’ڈوپلیکیٹ دارالحکومت‘ بھی کہا جاتا ہے۔ الہاس نگر ممبئی میں جعلی سامان کے لیے استعمال ہونے والی اصطلاح بن گئی۔
ایسا اس لیے ہوا جب یہاں کے لوگ مہنگے برانڈز پر خرچ نہیں کر سکتے تھے، اسی لیے وہ اصل برانڈ کی نقل تیار کرتے۔ پارلے یہاں پرل بن گیا ، میڈ اِن یو ایس اے (میڈ ان الہاس نگر سندھی ایسوسی ایشن) نئی شناخت بن گیا۔
مکھیجا کا کہنا ہے کہ ’ابتدا میں انڈیا کی مارکیٹوں میں سستا چینی سامان دستیاب نہیں تھا۔ مگر دوسری جانب لوگ ایک سستا آپشن چاہتے تھے۔ اسی وجہ سے الہاس نگر کے (ڈوپلیکیٹ یا جعلی) سامان کی بہت زیادہ مانگ تھی۔‘
جب کاروبار بڑھنے لگا تو لوگوں نے اپنے اپنے برانڈ قائم کرنا شروع کر دیے اور بڑی کمپنیوں کو سامان بیچنا شروع کر دیا۔ آپ کو یہاں نقل کی ہوئی برانڈز کی اشیا بھی ملیں گی جو اصل کی طرح نظر آتی ہیں۔ یہ ’فرسٹ کاپی پروڈکشن‘ لائسنس یافتہ مصنوعات ہیں۔
لیکن جیسے جیسے صنعت میں اضافہ ہوا، جرم بھی بڑھتا گیا۔ شہر چاروں طرف پھیل رہا تھا۔ پریشانی بڑھنے لگی تھی کیونکہ جرائم میں اضافہ ہو رہا تھا۔
° گینگ وار
نوے کی دہائی میں ایک 16 سالہ لڑکی رینکو پاٹل کو ہریش پٹیل نامی نوجوان نے آگ لگا دی تھی۔ یہ دونوں کلاس فیلو تھے۔ اس جرم نے نہ صرف مہاراشٹرا بلکہ پورے انڈیا کو ہلا کر رکھ دیا۔
لیکن اس واقعے سے قبل ہی الہاس نگر جرائم پیشہ گروہوں، تاوان، گینگ وار اور قتل کی وارداتوں کو لے کر بدنام ہو چکا تھا۔
یہاں کے ایک سینیئر پولیس افسر بتاتے ہیں کہ ’الہاس نگر کے جرائم پیشہ گروہ ممبئی انڈر ورلڈ سے وابستہ تھے۔ جب تاوان کی رقم کو لے کر بدنام زمانہ راجوانی اور کالانی گروہوں کے مابین گینگ وار ہوا تو پانچ، چھ ماہ کی قلیل مدت میں دس سے پندرہ افراد کو قتل کیا گیا۔ ہر منگل کو کسی نہ کسی طرح قتل ہوتا تھا۔ پپو کالانی نے دہشت کی اپنی سلطنت بنائی تھی اور انھیں مقامی لوگوں کی بھی حمایت حاصل تھی۔‘
پپو کالانی الہاس نگر کے ایک خوشحال گھرانے میں پیدا ہوئے تھے اور ان کا خاندان شراب اور ہوٹلنگ کے کاروبار سے وابستہ تھا۔ اُن کے چچا دولیچند کالانی کانگریس کے رہنما تھے اور بعد میں پپو کالانی بھی اسی پارٹی میں شامل ہو گئے۔
مقامی صحافیوں کے مطابق سنہ 1986 میں 35 سال کی عمر میں پپو بلدیہ کے صدر اور پھر ایم ایل اے بن گئے۔
جب سدھاکر راو نائک مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ بنے تو انھوں نے مجرمانہ پس منظر کے رہنماؤں کے خلاف مہم چلائی اور پپو کو پارٹی سے نکال دیا گیا۔
وہ ٹاڈا (انسداد دہشت گردی کے قانون) میں جیل بھی گئے لیکن اُن کا اثر و رسوخ اتنا زیادہ تھا کہ جیل میں رہتے ہوئے بھی وہ انتخابات جیت جاتے تھے۔
بعد میں وہ نیشنلسٹ کانگریس پارٹی اور ریپبلکن پارٹی میں بھی شامل ہوئے۔ ان دنوں وہ اپنی اہلیہ جیوتی کالانی کے ذریعے سیاسی اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ آج اگرچہ گینگ وار نہیں ہے لیکن کالانی خاندان کا اپنا ایک اثر ہے۔ جرم اب بھی کم نہیں ہوا ہے۔
° مسائل کا شہر
الہاس نگر، جو کبھی سندھی پناہ گزینوں کی ایک کالونی تھا، اب ایک بڑھتا ہوا شہر ہے۔ اب اس کی حدود میں تین ریلوے سٹیشن ہیں جس سے اس کی وسعت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
یہاں رابطے کے ذرائع بہتر ہیں اور سہولیات کا بنیادی ڈھانچہ موجود ہے لیکن مسائل کا ایک پہاڑ بھی ہے۔ آلودگی اور غیر قانونی تعمیرات یہاں سب سے بڑا مسئلہ ہے۔
جب آپ الہاس نگر میں ’ممبئی امبر ناتھ‘ کے مقامی علاقے سے چلے جاتے ہیں تو والدھونی دریا آپ کا استقبال کرتا ہے۔ اب یہ تصور کرنا مشکل ہے کہ کچھ دہائیاں قبل لوگ اس دریا کا پانی پیتے تھے۔
آج یہ ایک گٹر یا نالی بن چکا ہے جس میں فیکٹریاں اپنا کیمیکل پھینکتی ہیں۔
جب آپ چھوٹے فٹ برج سے مرکزی شہر کی طرف جاتے ہیں تو اس سے اتنی بدبو آتی ہے کہ آپ کے ہاتھ خود بخود آپ کی ناک پر آ جاتے ہیں۔ اگر آپ پہلی بار یہاں آئے ہیں تو یہاں کی بدبو آپ کو پریشان کرتی ہے۔
دلیپ مالوانکر کا کہنا ہے ‘شہر کے قریب زمین محدود ہے لہذا لوگوں نے بلند و بالا عمارتیں تعمیر کیں۔ سیاسی سرپرستی میں غیر قانونی تعمیرات کا سلسلہ جاری رہا۔ کسی نے بھی اس صورتحال کو بدلنے کا نہیں سوچا۔’
° نئی نسل، جو الہاس نگر سے جڑے رہنے کو ترجیح نہیں دیتی
الہاس نگر تبدیل ہو رہا ہے اور تارکین وطن کے شہر کی حیثیت سے اِس کی شناخت بھی بدل رہی ہے۔ بوڑھے سندھیوں کو شکایت ہے کہ نئی نسل سندھی ثقافت اور زبان کو بھُلا رہی ہے۔
نئی نسل انگریزی میڈیم سکولوں میں پڑھتی ہے اور ہندی بولتی ہے۔ سندھی خاندانوں کے بہت سے نوجوان افراد اب سندھی نہیں پڑھ سکتے ہیں۔ ہرداس مکھیجا کا کہنا ہے کہ اگر پرانی ثقافت کو بچانا ہے تو نوجوانوں کو کوششیں کرنا ہوں گی۔
یوٹیوبر آشیش چنچلانی اس سے اتفاق کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ڈیجیٹل نسل کے پاس روایات، ثقافت، ورثے یا ان کے کنبہ یہاں کیسے آئے، اِس سب کے بارے میں سوچنے کے لیے وقت نہیں ہے۔
وہ کہتے ہیں ‘میرے خیال میں نوجوانوں کو اپنے کنبے کے بزرگوں سے بات کرنی چاہیے اور ان کی تاریخ اور ورثہ کو سمجھنا چاہیے تاکہ وہ آنے والی نسل کو اس کے بارے میں بتا سکیں۔’
آشیش اپنے یوٹیوب چینل کے ذریعہ بھی اس سمت میں کوششیں کر رہے ہیں۔
آج الہاس نگر کے بہت سے نوجوان اس شہر کو چھوڑ کر دوسری جگہ منتقل ہو رہے ہیں۔ بہت سارے سندھی ایسے بھی ہیں جو اپنے نام الہاس نگر کے ساتھ جوڑنا نہیں چاہتے ہیں۔ لیکن آشیش کے لیے الہاس نگر اُن کا گھر ہے۔
وہ کہتے ہیں ’الہاس نگر ہمیشہ میرا گھر رہے گا۔ اس جگہ کا میرے دل میں ایک خاص مقام ہے۔ میں آج جو کچھ بھی ہوں، الہاس نگر کی وجہ سے ہوں۔‘
بشکریہ بی بی سی اردو ڈاٹ کام