’’میں سی آئی اے کا ایجنٹ تھا‘‘، یہ ان جھوٹوں میں سے ایک تھا جو میڈیا میرے بارے میں پھیلا رہا تھا۔ پاکستانی میڈیا خاص طور پر اس حوالے سے سخت کردار ادا کر رہا تھا۔ اس نے ہر طرح کے پاگل پن پر مبنی کہانیاں شائع کیں۔ جیسے کہ کہا گیا کہ میری ذاتی افغان آرمی تھی اور میں طالبان کے ساتھ مل کر پاکستان کو نیچا دکھانے کی کوشش کر رہا تھا۔میں اسلام آباد میں سی آئی اے کا اسٹیشن چیف تھا اور ذاتی طور پر اسامہ بن لادن کو شکار کرنا چاہتا تھا۔ اسی طرح کی کئی کہانیاں پھیلائی گئی تھیں جن پر میرا خاندان اور دوست اپنا سر پیٹنا شروع ہو گئے۔ یہ خبر کہ میں ایک جاسوس تھا خاص طور پر میری بیوی کے لئے مشکل ترین خبر تھی کیونکہ اسے اس کے مبینہ نتائج بھگتنا پڑنا تھے۔ جب لوگ دلچسپ اور غلط یا سچی مگر بیزار کہانی سنتے ہیں تو وہ دلچسپ مگر غلط بات کو آگے پھیلانے میں دلچسپی لیتے ہیں۔ مجھے اکثر بتایا گیا کہ مجھے باہر نکالنا امریکی حکومت کی اوّلین ترجیح ہے لیکن مجھے کچھ پتا نہیں تھا کہ پس پردہ کیا ہو رہا ہے ۔ بہت کم لوگوں نے میری رہائی میں دلچسپی لی تھی ۔ امریکی حکومت نے دو طرفہ پالیسی اپنائی ، ایک وہ جو بظاہر دیکھی جا سکتی تھی اور دوسری وہ پالیسی جو خفیہ رکھی گئی۔ پاکستان میں اس وقت کے امریکی سفیر نے کہا کہ تم اس پالیسی کو پانی کے اوپر اور پانی کے نیچے کی پالیسی کے طور پر بیان کر سکتے ہو ۔ پانی کے اوپر ہم احتجاج کر رہے تھے کہ پاکستان کے پاس یہ اختیار نہیں کہ وہ ریمنڈ کو عدالت میں لے جائے، جبکہ پانی کے نیچے وہ رہائی کے لئے مذاکرات کر رہے تھے۔ اس کے علاوہ دو مزید کردار ایسے تھے جنہوں نے پانی کے نیچے مزید کام کیا ۔ ان میں ایک سی آئی اے کے ڈائریکٹر اور دوسرے آئی ایس آئی کے ڈی جی شجاع پاشا تھے.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کتاب میں ریمنڈ ڈیوس کی بیوی کے تاثرات بھی شامل ہیں ، وہ لکھتی ہیں:
"ریمنڈ ڈیوس کو گرفتار ہوئے کافی وقت گزر چکا تھا اور اب مجھے یہ ڈر لاحق ہو گیا تھا کہ شاید وہ کبھی واپس نہ آ سکے ۔ ہماری شادی کے بعد ہم نے بہت کم وقت ایک ساتھ گزارا تھا ۔ ہمارے درمیان کوئی خاص رومانی تعلق بھی نہیں بن پایا تھا بلکہ کاروباری پارٹنر کی طرح ہم ایک دوسرے کی ہر ممکن مدد کرتے تھے تاکہ ایک دوسرے کے لئے محبت کی بجائے اطمینان کا باعث بن سکیں ۔ یہاں تک کہ جب وہ گھر ہوتا تھا تب بھی ذہنی طور پر گھر میں نہیں ہوتا تھا ۔ وہ جسمانی طور پر تو گھر میں ہی ہوا کرتا تھا لیکن اس وقت بھی اس کا ذہن کہیں اور ہوتا تھا ۔
جب وہ اپنے مشن کے لئے پاکستان جانے کی تیاری کر رہا تھا تب ان چند ہفتوں کے دوران تو میں نے اسے بہت کم ہی دیکھا تھا ۔ میرے والد کینسر کی وجہ سے مر رہے تھے اور میں ان آخری ہفتوں میں ریمنڈ کو اپنے بیٹے کے پاس چھوڑ کر ایک ہفتے کے لئے اپنے والد کے گھر چلی گئی تھی تاکہ اپنی بہنوں کے ساتھ مل کر انہیں ہسپتال داخل کروا سکوں اور ان کا گھر صاف کر سکوں ۔ جب میں واپس گھر آئی تو اس سے اگلے ہی روز ریمنڈ پاکستان چلا گیا تھا۔
جب ریمنڈ گرفتار ہوا تو اس کے سپروائزر ہر روز مجھے فون کر کے ساری صورت حال سے آگاہ کرتے تھے حالانکہ ایک اہم عہدے پر فائز ہونے کی وجہ سے وہ بہت مصروف تھے لیکن اس کے باوجود وہ میرے لئے وقت نکالتے تھے اور میرے مسائل میں دلچسپی لیتے تھے ۔ ان دنوں وہ مجھ پر بہت مہربان رہے۔ وہ میرے بچے کے بارے میں پوچھتے رہتے اور پھر دن کیسا گزرا ، کسی چیز کی ضرورت تو نہیں جیسی باتیں بھی پوچھتے تھے ، یہاں تک کہ انہوں نے مجھے ویلنٹائن ڈے پر بھی فون کیا اور تین ہفتوں بعد میری اور ریمنڈ کی شادی کی سالگرہ پر بھی ہم نے ہر چیز اور معاملے پر گفتگو کی ۔ اکثر تو ٹیلی فون پر یہ گفتگو ایک گھنٹہ سے بھی زیادہ دیر تک جاری رہتی تھی.”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جنرل شجاع پاشا کے ڈی جی آئی ایس آئی بننے کے دو ماہ بعد ہی ممبئی حملہ ہو گیا تھا ۔ آئی ایس آئی اور سی آئی اے کے درمیان برسوں سے چلتی کشیدگی میں میرے واقعہ کے بعد مزید اضافہ ہو گیا ۔
مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ جان کیری کے 15 فروری کو پاکستان آنے سے پہلے جنرل شجاع امریکا گئے تھے اور صاف صاف پوچھا تھا کہ کیا ریمنڈ سی آئی اے کے لئے کام کرتا تھا؟ انہیں بتایا گیا کہ ریمنڈ کا سی آئی اے سے تعلق نہیں اور اس معاملہ کو اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ دیکھ رہا ہے نہ کہ سی آئی اے ۔ اس جواب نے جنرل شجاع پاشا کے غصے میں مزید اضافہ کر دیا تھا ۔ اس کے بعد وائٹ ہاؤس اور اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ساتھ میری ملازمت کی نوعیت کی وضاحت کی گئی تو شجاع پاشا کو بات سمجھ آگئی ۔
جنرل شجاع پاشا بھی پاکستان کے صدر اور وزیر اعظم کی طرح مجھے اس وقت تک جیل میں رکھنے کے خواہش مند تھے جب تک کہ اس سارے معاملے کا کوئی حل نہ نکل آئے ۔ امریکا میں تعینات پاکستانی سفیر حسین حقانی تھے ۔ انہیں بھی اس سلسلے میں میری رہائی کے لئے کہا گیا ۔ عام طور پر انہیں امریکا کی جانب جھکاؤ رکھنے والے شخص کے طور پر جانا جاتا ہے لیکن حسین حقانی نے بھی میرے حوالے سے تعاون نہیں کیا ۔ اس کے بعد دونوں افواج کے اعلیٰ افسران اومان کے ساحل پر لگژری سیر گاہ میں ملے ۔ یہ انتہائی خفیہ ملاقات میرے گرفتار ہونے سے کافی پہلے افغانستان کی جنگ کے حوالے سے طے کی گئی تھی، لیکن ملاقات کا زیادہ حصہ میری گرفتاری کے حوالے سے گفتگو پر مشتمل رہا ۔ دونوں جانب سے اتفاق رائے پر یہ ملاقات اختتام پذیر ہوئی ۔ چیئرمین جوائنٹس چیف آف سٹاف ایڈمرل مائیکل مولن نے رپورٹرز سے کہا کہ "میں اس مشکل صورت حال میں وقت دینے اور مذاکرات جاری رکھنے پر جنرل کیانی کا شکر گزار ہوں” جبکہ جنرل کیانی نے کہا کہ "مجھے امریکی فوج کے افسران سے اس ملاقات پر خوشی ہے جس میں انتہا پسندی کے خلاف کی جانے والی ہماری کوششوں اور میری اس سوچ پر تبادلہ خیال ہوا کہ کیسے ہم دونوں بہتر تعلقات کو فروغ دے سکتے ہیں۔” یہ تعلقات دونوں کے لئے ہی کسی امتحان سے کم نہ تھے لیکن مولن اور کیانی کی اس ملاقات کے بعد میری رہائی کے امکانات بڑھ گئے تھے ۔ اگرچہ اس حوالے سے پیش رفت ہو رہی تھی لیکن کئی لوگوں کا خیال تھا کہ اس کی رفتار بہت کم ہے۔ یہ معاملہ لٹکنے سے لوگوں میں ہیجانی کیفت بڑھتی جا رہی تھی.
(جاری ہے)