14 مارچ، سینتالیسواں دن
اس وقت کے صدر پاکستان آصف علی زرداری نے کوٹ لکھپت جیل میں قید کے دوران میرے معاملے کو حل کرنے میں مستعد کردار ادا کرنے کے بجائے اپنے کردار کو کم کرتے ہوئے دوسروں پر چھوڑ دیا کہ وہ میری قسمت کا فیصلہ کر یں۔ وہ اس معاملے کوطول دینا چاہتے تھے۔
14 مارچ کو حکومت نے میرے سفارتی استثناء پر فیصلہ کرنا تھا، آیا کہ وہ مجھے حاصل ہے یا نہیں؟ اس سے یہ فیصلہ ہونا تھا کہ میں نے زندہ رہنا ہے یا مرنا ہے! اس کی ذمہ داری آصف علی زرداری پر تھی، تاہم آخری لمحے میں وہ اس پر اسٹینڈ لینے سے پیچھے ہٹ گئے اور میرے بوجھ کو آگے لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اعجاز احمد چوہدری پر ڈال دیا، جنہوں نے چھ ہفتے قبل میرا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کرایا تھا۔ دوران سماعت وزارت خارجہ کے وکیل نے تصدیق کردی کہ میرے پاس سفارتی پاسپورٹ اور ویزا ہے، تاہم عدالت نے استثناء دینے سے انکار کردیا۔ عدالت نے یہ بھی قرار دیا کہ سیشن کورٹ کو اس کیس کا فیصلہ کرنا چاہیے۔ سیشن کورٹ میں پہلے ہی میرا ٹرائل ہو رہا تھا۔ اصل میں کوئی بھی میرے کیس سے جڑے رہنا نہیں چاہتا تھا۔ میرے لیے یہ بہت بری خبرتھی۔ میری قانونی ٹیم کے لیے آگے چلنا بہت مشکل ہو گیا تھا۔ وہ آہستہ آہستہ کام کر رہی تھی اور پھر اسے تیزی سے کام کرنا تھا لیکن، مجھے دو دن میں’’قل‘‘ کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی۔
16 مارچ، چالیسواں دن
جس دن میرے کیس کی تاریخ ہوتی تو میں اس رات سو نہیں پاتا تھا۔ جب کہا جاتا کہ سماعت ملتوی ہوگئی ہے یا تاخیر ہوگئی ہے تو بہت عجیب لگتا۔ اس صبح سات بجے ایک گارڈ میرے سیل میں داخل ہوا اور مجھے کہا کہ عدالت جانے کے لیے تیار ہو جاؤ۔ وہ میرے لیے گرم پانی اور کافی کے دو پیکٹ لایا تھا.
میں نے کافی کے گھونٹ لیے اور اپنے وکلا کو دیکھنے لگا، لیکن وہاں ابھی تک کوئی نہیں تھا۔ آٹھ بج چکے تھے اور وہ ابھی تک نہیں آئے تھے۔ میں نے کافی کا ایک اور کپ پیا اور دیکھا تو نو بج گئے تھے۔ وکلا ابھی تک نہیں آئے تھے۔
دس بج گئے، وکلاء نہیں آئے..
گیارہ بجے تو میرے ذہن میں خیال آیا کہ حالات کس طرف جا رہے ہیں۔جیل اسٹاف واپسی کی تیاری کرنے لگا۔ میرا خیال تھا کہ وہ میرے پاس آئیں گے اور معذرت کریں گے لیکن ایسا کچھ نہ ہوا اور میں سیل میں آ گیا۔
تھوڑی دیر بعد مجھے صبح جگانے والا وہی گارڈ آیا اور مجھے کہا کہ آپ لیٹ ہوگئے ہیں۔
مجھے ایک جھٹکا لگا۔ کافی کے دوکپ نے مجھے کافی چست کر دیا تھا۔
”میں کیسے لیٹ ہوں۔ میں وہاں صبح سات بجے سے ہوں۔‘‘ گارڈ مجھے دوبارہ صحن میں لے گیا۔ وہاں ایک اور گارڈ موجود تھا جس کے ہاتھ میں ہتھکڑی تھی۔ اس نے مجھے ہتھکڑی پہنائی اور مجھے لے کر ایک طرف کو چل دیا۔ وہ مجھے کورٹ والے راستے کی طرف لے جانے کے بجائے سائیڈ پر بنے ایک کمرے کی طرف لے گیا۔ وہاں میں نے کارمیلا اور اپنے قونصل خانے کی ٹیم کو دیکھا۔ میں کرسی پر بیٹھ گیا اور اپنے گارڈ کی طرف دیکھا جو وہیں موجود تھا۔
”میں اپنے وکلا سے مل رہا ہوں اور اس موقع پر میں کسی گارڈ کی موجودگی نہیں چاہتا۔“ میں نے کہا
” میں معذرت چاہتا ہوں ۔مسٹر ڈیوس ایک خطرناک مجرم ہے اور اسے ہر وقت ہتھکڑی پہنانی ضروری ہے۔‘‘ جیل سپریڈنٹ نے کہا۔
بخاری نے جیل سپریڈنٹ سے اردو میں کہا کہ اس کے یہاں سے بھاگنے کا کوئی چانس نہیں ہے۔ اس کمرے میں صرف ایک کھڑکی ہے اور وہ بھی بند ہے۔
گارڈ نے میری ہتھکڑی کھول دی اور دونوں باہر چلے گئے.
”تو آج کا کیا پلان ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
وکلا نے میری طرف متوجہ ہو کر کہا ”وہ منصوبہ بندی اور تاخیری حربوں سے بچنے کے لیے جو کچھ کر سکتے ہیں، کر رہے ہیں لیکن ان کے منتر ہیں، تاخیر، تاخیر، تاخیر…
”تم کیا کہتے ہو؟“ پال نے مجھ سے پوچھا۔
”آپ جانتے ہیں۔ آپ سب پروفیشنل ہیں۔ آپ جو سمجھتے ہیں، ٹھیک سمجھتے ہیں اور اس کے مطابق کر رہے ہیں۔ میں خوش ہوں، آپ انہیں شکست دیں گے۔“
مجھے ایسا لگتا کہ میں جب عدالت میں پیش ہوتا تھا تو عدالت میں موجود لوگ جج کی یہ بات سننے کے لیے انتظار کر رہے ہوتے کہ میں اس واقعہ کا قصور وار ہوں۔اس دن عدالت میں پیشی کے دوران مجھے حالات میں کچھ تبدیلی محسوس ہوئی۔ میرے مخالف وکیل اسد منظور بٹ جن کا پہلے دن سے ہی میرے خلاف یہ دعویٰ تھا کہ میں نے فیضان حیدر اور فہیم کو مارا ہے اور اس کے ثبوت موجود ہیں اور جو پہلے مجھے ’ڈاگ‘ کے نام سے سے بھی مخاطب کر چکا تھا، عدالت میں اس وقت موجود نہیں تھا۔ ان کی جگہ سابق اٹارنی جنرل راجہ ارشاد موجود تھے، جو آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلیجنس کے لیے کام کرتے تھے۔ وہ ابراہیم لنکن کی طرح نظر آتے تھے اور اپنی روایتی شلوار قمیض میں ملبوس تھے۔ ان کا بیٹا نائن الیون کے بعد افغانستان میں طالبان کے ساتھ امریکی فورسز سے لڑتے ہوۓ ہلاک ہو گیا تھا۔ میں اس وقت چونکا جب جج نے تمام غیر متعلقہ افراد کو عدالت سے چلے جانے کو کہا۔ مجھے اب تک کہانی کی سمجھ نہیں آرہی تھی۔
بہت سے لوگوں کو یقین ہے کہ اس سارے کھیل کے پیچھے آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل پاشا تھے، جو عدالت میں پچھلی قطار میں بیٹھے امریکی سفیر کیمرون منٹر کو موبائل سے اپ ڈیٹ کرتے ہوئے میسیج کر رہے تھے۔ میرا خیال ہے کہ انہوں نے اس شخص کا نام بھی میسیج کیا ہوگا جو عدالت میں آیا تو پوری عدالت میں خاموشی چھا گئی۔ کوئی ایک لفظ بھی نہیں بول رہا تھا۔ اگرکوئی سیل فون بجتا تو وہ شخص فوری طور پر باہر چلا جاتا اور وہاں جا کر بات کرتا۔ کمرہ عدالت میں صرف چھت پر لگے پنکھے کے چلنے کی آواز آ رہی تھی. کارمیلا اور ان کی ٹیم عدالت میں پہلی رو میں بیٹھی تھی۔ میں نے پال کی توجہ ایک شخص کی طرف مبذول کراتے ہوۓ پو چھا کہ”وہ شخص کون ہے؟‘‘
”وہ… وہ آئی ایس آئی کا کرل ہے۔ کیوں…؟“
”اوہ! اس شخص نے واقعے کے پہلے روز فوجی علاقے کے پولیس اسٹیشن میں مجھ سے انٹروگیشن کی تھی۔ میں نے اس وقت محسوس کیا تھا کہ اس کا تعلق آئی ایس آئی سے ہے۔ لیکن یہ یہاں کیوں ہے؟‘‘
”یہ ‘فکسر’ ہے۔“
’’اس کا کیا مطلب ہے؟“
”یہ تمہارے لیے اچھا ہے، کہ یہ یہاں موجود ہے۔“ پال نے گہرا سانس لیتے ہوئے کہا.
شائد میرا تجربہ میری مثبت سوچ کی طاقت کو پیچھے دھکیل رہا تھا، یا یہ اس ڈبل کافی کا اثر تھا، جو میں پی چکا تھا۔ وجہ کچھ بھی تھی، میں مسکرائے بغیر نہ رہ سکا۔
تھوڑی دیر بعد پال نے مجھے کیس کی بابت اپ ڈیٹ کرتے ہوۓ بتایا کہ پلان تبدیل ہو گیا ہے۔
’’عدالت نے کیس کو شریعت کورٹ منتقل کر دیا ہے“
جس پر مجھے جھٹکا لگا، میں نے کہا : ”یہ کیسے ہوسکتا ہے، اب مجھے پتھروں سے سنگسار کیا جائے گا؟ آنکھ کے بدلے آنکھ..؟“
مجھے غصہ آنے لگا..
”کیا تم سیریس ہو؟ وہ ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟ میں اسے نہیں مانتا۔“
لیکن یہ چند آخری الفاظ میرے منہ میں ہی رہ گئے۔ پال دوڑتا ہوا باہر چلا گیا۔
جاری ہے