کیا بجٹ کے بعد گاڑیاں واقعی سستی ہوں گی؟

میاں عمران احمد

بجٹ 22ء-2021ء میں جس بات کا سب سے زیادہ شور ہے وہ گاڑیوں کی قیمتوں میں کمی ہے۔ 850 سی سی تک کی گاڑیوں پر 2.5 فیصد وفاقی ایکسائیز ڈیوٹی (ایف ای ڈی) ختم کردی گئی ہے۔ اس کے علاوہ سیلز ٹیکس 17 فیصد سے کم کرکے 12.5 فیصد کردیا گیا ہے۔ جس سے ایک اندازے کے مطابق ایک لاکھ 33 ہزار روپے تک گاڑی سستی ہوسکتی ہے۔ اس کے علاوہ مقامی سطح پر تیار ہونے والی الیکٹرک گاڑیوں پر ایف ای ڈی صفر رکھی گئی ہے۔ یہ دعوے سُننے کی حد تک تو اچھے لگتے ہیں لیکن ان پر عمل درآمد کروا کر عام آدمی تک اس کے ثمرات پہنچانا اصل کامیابی ہے۔

یہ تو سب جانتے ہیں کہ پچھلے 3 سالوں سے پاکستان میں گاڑیوں کی قیمتیں مسلسل بڑھ رہی ہیں، لیکن کیوں بڑھ رہی ہیں؟ حکومت اور عوام دونوں ہی لاعلم ہیں۔

پہلے ڈالر کو وجہ بنایا گیا لیکن اب روپیہ تقریباً 9 ماہ سے مستحکم ہے، بلکہ ڈالر تو 168 سے کم ہوکر 152 تک بھی گِر گیا۔ مارکیٹ اصولوں کے مطابق تو گاڑیوں کی قیمتوں میں کمی ہونی چاہیے تھی لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔ افسوس اس بات کا ہے کہ آٹوموبائل کمپنیوں سے کوئی یہ پوچھنے والا بھی نہیں ہے کہ آپ کس اصول کے تحت قیمتیں بڑھا رہے ہیں۔

مسابقتی کمیشن پاکستان بھی ان پر ہاتھ ڈالنے میں ناکام رہی ہے۔ انہی وجوہات کے سبب خدشہ پیدا ہوگیا ہے کہ حکومت کی جانب سے کم کی گئی قیمتوں کا فائدہ صحیح معنوں میں شاید عوام تک نہ پہنچ سکے کیونکہ جن گاڑیوں کی قیمتیں کم کی گئی ہیں ان میں سوزوکی آلٹو سب سے زیادہ بکنے والی گاڑی ہے۔

گزشتہ سہہ ماہی میں سوزوکی کا منافع باقی کار کمپنیوں کی نسبت زیادہ ہے۔ اس کی وجہ بھی یہی گاڑی تھی۔ گاڑی زیادہ بکنے کی وجہ سے کار کمپنیوں کو یہ اندازہ ہوچکا ہے کہ صارف ذہنی طور پر اس قیمت پر گاڑی لینے کو تیار ہے۔ اس بات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے آنے والے دنوں میں گاڑی کی قیمت کمپنی کی طرف سے بڑھائی جاسکتی ہے اور اسے دوبارہ پرانی قیمت تک لاکر اربوں روپے منافع کمایا جاسکتا ہے۔ یعنی کہ اصل فائدہ کار کمپنیاں اٹھا سکتی ہیں اور عام لوگ پھر مہنگی گاڑی لینے مجبور ہوسکتے ہیں۔

یاد رہے کہ کچھ کار کمپنیوں نے پچھلے ماہ گاڑیوں کی قیمت بڑھانے کا عندیہ بھی دیا تھا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ کوئی ان کمپنیوں سے یہ سوال بھی نہیں کرسکے گا کہ آپ نے قیمتیں کیوں اور کس اصول کے تحت بڑھائی ہیں؟ لہٰذا بجٹ میں گاڑیاں سستی ہونے کی خوشی ممکنہ طور پر زیادہ دیر برقرار نہیں رہ سکے گی۔ جہاں تک بات رہ گئی برقی گاڑیوں کی درآمد کی تو ویلیو ایڈڈ ٹیکس ختم کرنا بہترین عمل ہے۔

برقی گاڑیوں سے ماحولیاتی آلودگی کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ دوسری طرف اس کی پروڈکشن ابھی تک پاکستان میں شروع نہیں ہوئی ہے۔ سیلز ٹیکس 17 فیصد سے ایک فیصد کرنا اچھا عمل ہے لیکن مستقبل قریب میں عوام کو اس سے فائدہ ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔

بجٹ میں اون منی پر گاڑیاں بیچنے پر ٹیکس لگانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس عمل کو سراہے جانے کی ضرورت ہے۔ اس کا فائدہ حقیقی معنوں میں عوام تک پہنچے گا یا نہیں یہ اندازہ صرف اسی وقت ہوسکے گا جب ٹیکس کی شرح سامنے آئے گی۔

اگر 2 لاکھ اون پر 50 ہزار ٹیکس لگے گا تو ڈیڑھ لاکھ تو پھر بھی بچ جائے گا۔ ٹیکس شرح زیادہ ہونی چاہیے بلکہ جتنا اون مارکیٹ میں چل رہا ہو اس سے ایک لاکھ روپے زیادہ ٹیکس لاگو کیا جائے۔ اسی صورت میں اون منی پر قابو پایا جا سکے گا۔

پاکستان کی بدقسمتی یہ بھی رہی ہے کہ بجٹ میں اعلانات تو ہوجاتے ہیں لیکن مافیاز اتنے مضبوط ہیں کہ وہ اس پر عمل درآمد نہیں ہونے دیتے۔ ماضی میں بھی اون منی پر ٹیکس لگانے کی بات کی جاتی رہی ہے لیکن عملی اقدامات دکھائی نہیں دیے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ بیوروکریسی، سیاستدانوں اور طبقہ اشرافیہ کے لیے پیسہ کمانے کا یہ آسان ترین طریقہ ہے۔ اپنی نوکری بھی جاری رہتی ہے اور کاروبار بھی خودبخود چلتا رہتا ہے۔
بشکریہ ڈان نیوز

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close